علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے جب مواہب لدنیہ لکھی تو اُس میں امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتابوں سے بھی مدد لی ، لیکن امام صاحب کا ذکرتک نہ کیا ؛ امام صاحب کو اس بات سے سخت صدمہ پہنچا اورشکایت کرتے ہوئے کہنے لگے:
" انھوں نے میری کتابوں سے مدد لی ہے اور اس کا اعتراف نہیں کیا ؛ یہ ایک قسم کی " خیانت " ہے ، جو نقل میں معیوب اور حق کو چھپانے کی طرح ہے " -
امام صاحب کی شکایت اتنی بڑھی کہ قاضیِ وقت شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ اللہ کے حضور بہ طور مقدمہ پیش ہوئی -
قاضی صاحب نے فریقین کی بات سنی ؛ امام سیوطی نے بہت سے مواقع پر علامہ قسطلانی کو مورد الزام ٹھہرایا اورکہا کہ انھوں نے اپنی کتاب میں کئی جگہ بیہقی کا حوالہ دیا ہے ، یہ بتائیں کہ اِن کے پاس بیہقی کی محولہ کتابیں کہاں ہیں ، جن سے انھوں نے نقل کیا ؟؟
علامہ قسطلانی کوئی جواب نہ دے سکے ، جس پر امام سیوطی نے کہا :
آپ نے میری کتابوں سے نقل کیا ہے اور میں نے امام بیہقی کی کتابوں سے ؛ تو آپ کوچاہیے تھا کہ اس طرح اعتراف کرتے:
نقل السیوطی عن البیھقی کذا -
تاکہ اس طرح مجھ سے استفادے کا حق ادا ہوجاتا اورآپ صحتِ نقل کی ذمے داری سے بھی بری ہوجاتے -
آخرش شیخ الاسلام کی عدالت سے علامہ قسطلانی ملزم کی حیثیت سے اٹھے -
علامہ قسطلانی ہمیشہ سوچتے رہتے تھے کہ امام سیوطی کے دل سے اس کدورت کو دھویا جائے ، مگر........... ناکام رہے —
ایک دن آپ ( امام سیوطی سے معافی کا ) ارادہ کرکے مصر ( قاہرہ ) سے نکلے اور روضہ ( امام سیوطی کے مقام ) تک پیدل پہنچے ، جومصر سے کافی دورتھا -
آپ نے دروازے پر دستک دی -
امام سیوطی رحمہ اللہ نے پوچھا: کون ؟
عرض کی:
احمدکہ برہنہ پا و برہنہ سر و بر دروازہ شما ایستادہ ام -
احمد ہوں ، ننگے سراور ننگے پاوں در پر معافی کے لیے کھڑا ہوں ؛ آپ اپنے دل کامیل دور فرما کر مجھ سے راضی ہوجائیں !!
امام سیوطی نے دروازہ کھولے بغیر اور اُن سے ملاقات کیے بغیر صرف اتنا جواب دیا:
" میں نے دل سے کدورت نکال دی "
( ملخصاً : بستان المحدثین فارسی ، تصنیف: شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، ص 120 ، در مطبع محمدی واقع لاہور )
اس واقعہ سے وہ " شریف النفس " بھی ضرور عبرت حاصل کریں جو فیس بک ، ٹیلی گرام ، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر دوسروں کی تحریروں سے ان کا نام حذف کرکے اپنی وال پر لگاتے ہیں -
ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے یہ اخلاقی طور پر خیانت ہے -
جس نے محنت سے مضمون ترتیب دیا اُسی کے نام کے ساتھ آگے بھیجیں ، اِس سے آپ کی " محققانہ" شان میں فرق نہیں آئے گا بلکہ آپ دیانت داری و احتیاط میں مشہور ہوں گے —
الحمدللہ ! میں اس پر سوفی صد عمل کی کوشش کرتا ہوں ؛ کاپی کی ہوئی چیز کو اپنے نام سے آگے نہیں بھیجتا -
میرا طریقہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جب کوئی تحریر بھیجتا ہوں تو نیچے اپنا نام لکھتا ہوں ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ :
1: میں نے یہ تحریر ازخود ترتیب دی ہے ، کاپی پیسٹ نہیں -
( یعنی کسی کی محنت اپنے ماتھے نہیں مڑھی ، خود محنت کرکے لکھا ہے )
2: میں اس کے غلط ،صحیح ہونے کا ذمے دار ہوں -
3: میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ تحریر میرے نام سے ہی آگے بھیجی جائے ، کوئی اپنے نام سے منسوب نہ کرے -
4: میری تحریر اگر درست ہوگی تومیرے لیے دعاے خیر کی جائے گی اور اگرقابل اصلاح ہوئی تواہل علم مجھے متنبہ کریں گے ، جس کی برکت سے ہمیشہ کے لیے میں اپنی غلطی کی اصلاح کرلوں گا -
✍لقمان شاہد
Tags
معلمین و متعلمین