✍ ہر لکھاری کے لیے...

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے جب مواہب لدنیہ لکھی تو اُس میں امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتابوں سے بھی مدد لی ، لیکن امام صاحب کا ذکرتک نہ کیا ؛ امام صاحب کو اس بات سے سخت صدمہ پہنچا اورشکایت کرتے ہوئے کہنے لگے:


" انھوں نے میری کتابوں سے مدد لی ہے اور اس کا اعتراف نہیں کیا ؛ یہ ایک قسم کی " خیانت " ہے ، جو نقل میں معیوب اور حق کو چھپانے کی طرح ہے " -


امام صاحب کی شکایت اتنی بڑھی کہ قاضیِ وقت شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ اللہ کے حضور بہ طور مقدمہ پیش ہوئی -


 قاضی صاحب نے فریقین کی بات سنی ؛ امام سیوطی نے بہت سے مواقع پر علامہ قسطلانی کو مورد الزام ٹھہرایا اورکہا کہ انھوں نے اپنی کتاب میں کئی جگہ بیہقی کا حوالہ دیا ہے ، یہ بتائیں کہ اِن کے پاس بیہقی کی محولہ کتابیں کہاں ہیں ، جن سے انھوں نے نقل کیا ؟؟ 


 علامہ قسطلانی کوئی جواب نہ دے سکے ، جس پر امام سیوطی نے کہا :


آپ نے میری کتابوں سے نقل کیا ہے اور میں نے امام بیہقی کی کتابوں سے ؛ تو آپ کوچاہیے تھا کہ اس طرح اعتراف کرتے:


نقل السیوطی عن البیھقی کذا -


 تاکہ اس طرح مجھ سے استفادے کا حق ادا ہوجاتا اورآپ صحتِ نقل کی ذمے داری سے بھی بری ہوجاتے -


آخرش شیخ الاسلام کی عدالت سے علامہ قسطلانی ملزم کی حیثیت سے اٹھے -


علامہ قسطلانی ہمیشہ سوچتے رہتے تھے کہ امام سیوطی کے دل سے اس کدورت کو دھویا جائے ، مگر........... ناکام رہے —


ایک دن آپ ( امام سیوطی سے معافی کا ) ارادہ کرکے مصر ( قاہرہ ) سے نکلے اور روضہ ( امام سیوطی کے مقام ) تک پیدل پہنچے ، جومصر سے کافی دورتھا -


 آپ نے دروازے پر دستک دی -


 امام سیوطی رحمہ اللہ نے پوچھا: کون ؟ 


 عرض کی: 


احمدکہ برہنہ پا و برہنہ سر و بر دروازہ شما ایستادہ ام -

احمد ہوں ، ننگے سراور ننگے پاوں در پر معافی کے لیے کھڑا ہوں ؛ آپ اپنے دل کامیل دور فرما کر مجھ سے راضی ہوجائیں !!


امام سیوطی نے دروازہ کھولے بغیر اور اُن سے ملاقات کیے بغیر صرف اتنا جواب دیا:


" میں نے دل سے کدورت نکال دی "


( ملخصاً : بستان المحدثین فارسی ، تصنیف: شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، ص 120 ، در مطبع محمدی واقع لاہور )


اس واقعہ سے وہ " شریف النفس " بھی ضرور عبرت حاصل کریں جو فیس بک ، ٹیلی گرام ، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر دوسروں کی تحریروں سے ان کا نام حذف کرکے اپنی وال پر لگاتے ہیں -


ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے یہ اخلاقی طور پر خیانت ہے -


 جس نے محنت سے مضمون ترتیب دیا اُسی کے نام کے ساتھ آگے بھیجیں ، اِس سے آپ کی " محققانہ"  شان میں فرق نہیں آئے گا بلکہ آپ دیانت داری و احتیاط میں مشہور ہوں گے —


الحمدللہ ! میں اس پر سوفی صد عمل کی کوشش کرتا ہوں ؛ کاپی کی ہوئی چیز کو اپنے نام سے آگے نہیں بھیجتا -


میرا طریقہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جب کوئی تحریر بھیجتا ہوں تو نیچے اپنا نام لکھتا ہوں ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ :


1: میں نے یہ تحریر ازخود ترتیب دی ہے ، کاپی پیسٹ نہیں - 

( یعنی کسی کی محنت اپنے ماتھے نہیں مڑھی ، خود محنت کرکے لکھا ہے )


2: میں اس کے غلط ،صحیح ہونے کا ذمے دار ہوں -


3: میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ تحریر میرے نام سے ہی آگے بھیجی جائے ، کوئی اپنے نام سے منسوب نہ کرے -

 

4: میری تحریر اگر درست ہوگی تومیرے لیے دعاے خیر کی جائے گی اور اگرقابل اصلاح ہوئی تواہل علم مجھے متنبہ کریں گے ، جس کی برکت سے ہمیشہ کے لیے میں اپنی غلطی کی اصلاح کرلوں گا -


✍لقمان شاہد

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم