🍁مکتب کا استاذ🍁



عموما مدارس کے فضلا مکتب کا استاذ بننا پسند نہیں کرتے، جس طرح مؤذن بننا بھی کم پسند کیا جاتا ہے...  امام کی عزت اور مؤذن کی تحقیر کرنا ایک رواج بن چکا ہے. خیر میں کبھی کبھار مکتب کے ننھے منھے معصوم بچے بچیاں دیکھ کر مکتب کا مدرس بننے کی آرزو کرنے لگتا ہوں.
بہت ساری وجہیں ہو سکتی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مکاتب کے مدرسین کو ماہ مبارک میں کاسۂ گدائی لئے گھر گھر اور در در کے چکر نہیں لگانے پڑتے...  لیکن اس کو تو میں اللہ کا شکر ہے کہ اب عبادت سمجھنے لگا ہوں.
اصل اسباب کچھ اور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مکتب میں آپسی چپقلش جو مدارس کے مدرسین میں عام طور سے دیکھنے کو نہیں تو محسوس کرنے کو مل ہی جاتی ہے..  یہ اس کی ٹانگ کھینچ رہا ہے وہ اس کی ٹوپی اچھال رہا ہے (ٹوپی اس لئے کہ اچھالی جانے والی پگڑیاں اب خال خال ہی نظر آتی ہیں، اس لئے پگڑی والے کا احترام خواہی نخواہی لوگ کر ہی لیتے ہیں) یہ اس کی غیبت کر کے سینہ تانتا ہے وہ اس پر طنز کر کے اکڑ فوں کرتا ہے.. کبھی اخلاقیات پر جرح، کبھی انداز تدریس پر تنقید، تو کبھی ذاتیات تک محفوظ نہیں رہتیں. ایک عجیب سی شورش ہر وقت بپا رہتی ہے.

مکتب کا مدرس اکثر ان چیزوں سے بچ ہی جاتا ہے جو خود اس دور میں بڑی نیکی ہی نہیں بڑا جہاد ہے.
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مکتب کے بچے بڑے بھولے بھالے سیدھے سادے ہوتے ہیں.. گالی گلوچ سے ان  کی زبان نا آشنا. بول ان کے بڑے میٹھے.  وہ ہر ایک سے محبت کریں، ہر ایک ان سے محبت کرے، آپسی رسہ کشی پیدا کرنے والی باتیں ان میں بہت کم بل کہ نہ کے برابر. استاذ ان کے نزدیک قابلِ احترام و توقیر ہی نہیں قابلِ محبت.
مدارس میں طلبہ استاذ سے محبت کم اور ادب زیادہ کرتے ہیں؛ وہ ادب جس کا منبع دل اور روح نہیں ہوتا بل کہ استاذ کے  ہاتھ کا ڈنڈا یا منھ کی زبان ہوتی ہے.. زبان اس لئے کہ اکثر اساتذہ طلبہ کو زبان سے گھائل کرتے رہتے ہیں.. زبان کا زخم زیادہ گہرا ہوتا ہے اس پر اگلوں کے اشعار اور کہاوتیں لانے کی ضرورت نہیں ہے، سب جانتے ہیں مانتے ہیں پر احساس کی دولت سے خالی ہاتھ ہیں..

میں نے کئی مکاتب دیکھے ہیں جہاں بچے استاذ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں. اور محبت ہی فیض پہنچانے اور فیض پانے کا اصل سر چشمہ ہے، اور یہی چیز مدارس میں عنقا ہوتی جارہی ہے.. استاذ طلبہ سے محبت نہیں کرتے، طلبہ استاذوں سے محبت نہیں کرتے. مہتمم مدرسین سے محبت نہیں کرتے اور مدرس مہتمموں سے نہیں.
اور اس محبت نہ کرنے کے بھی اسباب ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی ایک استاذ سے طلبہ محبت کریں اور دوسرے سے نہ کریں تو ایسے طلبہ تنگ نظر استاذوں کی نگاہوں میں بے ادب باغی کمینے اور نہ جانے کیا کیا ہوجائیں گے. یہی حال استاذ کا بھی ہے.. مہتمم اور کسی ایک مدرس کا تعلق گہرا ہوگا تو دوسرے مدرس دونوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں گے وہ بغاوت نہیں جو سڑکوں پر اتر کر کی جاتی ہے بل کہ وہ بغاوت جو کمروں میں گھس کر اور بسا اوقات جورو کے محل سرا میں گھس کر غیبت کی شکل میں کی جاتی ہے..
ایسا نہیں ہے کہ یہ چیزیں صرف مدارس ہی میں ہیں ؛ ہیں تو ہر اجتماعی ڈھانچے میں مگر مدارس میں ان کو نہ رہنا چاہئیے تھا... اور مکاتب میں اس لئے نہیں ہیں کہ وہاں ایک یا دو ہی مدرس ہوتے ہیں.
بہر حال بات لمبی ہوتی جارہی ہے بہت سارے تو اوپر کی سطریں پڑھ کر ہی ہم کو جی ہی جی میں گالیاں دیتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں جو تیز رفتار انٹرنٹ نے بہت آسان کر دیا ہے.
میں کہ یہ رہا تھا (معاف کرنا لکھ رہا تھا) کہ مکتب کے بچے بڑے معصوم اور سادہ لوح ہوتے ہیں؛ جدھر موڑو مڑ جائیں گے، جو کہو مان لیں گے، جو نقش بھی ان کے دل کی سادہ سی تختی پر کندہ کرو انمٹ ہوگا.. غرض ایک بہترین نسل آپ کے ہاتھوں میں ہے. ایک انمول سرمایہ آپ کے خزانے میں ہے، اس کو انسانی ترقی کے لئے استعمال کرنا ہے... کتنی عظیم دولت ہے جو اللہ نے آپ کو دیدی ہے.
اور عظیم ترین یہ کہ معصوم بچیاں بھی ہیں جو آگے چل کر مائیں بنیں گی اور ماں انسانیت کی چکی کی وہ کیل ہے جس پر سارے انسانی تمدن کی بنیاد ٹکی ہوئی ہے.. اگر ماں کو آپ نے ماں بنا دیا تو انسانیت کی تعمیر کا حق ادا کر دیا.. اور لڑکی تو خدا کی قدرت کا ایک عظیم شاہ کار ہے.. اس سے زیادہ محبت کرنے والی، اطاعت کرنے والی، اثر قبول کرنے والی کوئی چیز شاید ہی پیدا کی گئی ہو... اور اس کو بنانے سنوارنے کی ذمہ داری ایک مکتب کے استاذ پر ہے...

 کس قدر خوش قسمت ہیں وہ مکاتب کے اساتذہ جن کے کنھوں پر ان چھوٹے چھوٹے ننھے منے وفا شعار  بچوں اور بچیوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے...
بہر حال یہی کچھ سوچ کر کئی بار ایک مکتب کا مدرس بننے کی امنگ دل میں اٹھتی رہتی ہے !!

✒نصیر الدین
 جودھپور، راجستھان
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم