ہم ‏خود ‏کو ‏سنبھالیں ‏اور ‏قوم ‏کی ‏صالح ‏رہنمائی ‏کریں




ہم خود کو سنبھالیں اورقوم کی صالح رہنمائی کریں


تحریر: حضرت مولانا طارق انور مصباحی، کیرالہ


اہل سنت کا ہے بیڑا پار کہ اصحاب حضور   
نجم ہیں اورناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
 
مذہب اہل سنت وجماعت کے خمیر میں عشق مصطفوی شامل ہے۔اس مذہب کی بنیاد اعتدال اور محبت نبوی پر ہے۔ مذہب اہل سنت وجماعت افراط وتفریط سے پاک ہے۔ ہم حضرات صحابہ کرام کی بھی تعظیم وتکریم کرتے ہیں اور حضرات اہل بیت عظام سے بھی محبت ومودت رکھتے ہیں۔حضرات ائمہ مجتہدین ہوں،یا اولیائے کا ملین،علمائے دین ہوں یاعام مومنین۔ ہم ہرایک کے حقوق وآداب کا لحاظ کرتے ہیں،جیسا کہ حکم قرآن مقدس واحادیث طیبہ میں بیان کیا گیا۔جو احکام ہم نہ سمجھ سکے تو ہمارے ائمہ مجتہد ین وفقہائے کاملین نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا۔(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
ہمارے سابقہ مضمون بعنوان ”ہمارے آئیڈیل کون ہیں؟“ پر ہندوپاک کے بعض احباب کو کچھ تشریح مطلوب ہے۔ چند سطور قلم بند کرتا ہوں،ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کے لیے حیات اسلامی کی صحیح سمتوں کا تعین آسان ہوجائے گا۔
(الف)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز زندگی بھر عشق نبوی کی تعلیم دیتے رہے۔خود بھی عشق مصطفوی میں ایسے مستغرق تھے کہ سارا زمانہ ان کو”عاشق رسول“ کہتا ہے،خواہ موافق ہو، یا مخالف۔عشق نبوی کے ساتھ وہ تمام عظمائے دین واکابراسلام کے حقوق وآداب کا مکمل لحاظ فرماتے رہے۔ چوں کہ ان سے محبت اللہ ورسول سے محبت اور ایمان کی علامت ونشانی ہے،اس لیے ان سے بھی محبت کرتے رہے،لیکن یہ تبعی،ضمنی اور ثانوی درجے کی محبت ہے۔ان نفوس قدسیہ سے محبت علامت ایمان ہے اور حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت شرط ایمان ہے،پس دونوں محبتوں میں فرق ہے۔ایک فرض ہے اورایک مستحب۔
ہم اپنے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کے علاوہ جن اکابراسلام سے محبت اوران کی تعظیم بجا لاتے ہیں تو محض اس وجہ سے کہ وہ ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے،ورنہ عہد رسالت میں بھی بہت سے غیرمومن عابد وزاہد، پنڈت وپجاری،پادری وراہب تھے،اور آج بھی بہت سے ہیں۔ان لوگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں،کیوں کہ یہ لوگ ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیمات پرعمل پیرا نہیں۔
 یہی مذہب اہل سنت وجماعت اور مسلک اعلیٰ حضرت ہے۔یہ کوئی جدید طریقہ نہیں،بلکہ عہد صحابہ کرام سے تاامروز مسلمانان اہل سنت وجماعت اسی طریق کار پر عمل پیرا رہے کہ وہ عشق مصطفوی کو ترجیح دیتے رہے۔ محبت نبوی میں حدواجب کی ادائیگی کے باوجود وہ اس باب میں عشق اضافی کے طلب گاررہے۔
اگر کوئی شخص اس کے برعکس کرے،یعنی حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حقوق وآداب کا مکمل لحاظ کرے،لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تبعی،ضمنی اورثانوی درجے کی محبت کرے اور دیگر عظمائے اسلام سے اصلی اوراولی درجے کی محبت کرے تو کیا یہ مومن ہے؟اس بارے میں حکم شرعی کی تحقیق کی جائے۔
چوں کہ اسی فکر باطل نے برصغیر کے مسلمانوں کے دین وایمان کو تباہ کیا ہے،اس لیے اس جانب توجہ ضروری ہے۔ اس فکر باطل کوخلافت مرتضوی کے عہد میں عبد اللہ بن سبا اور اس کے تخریب کاروں نے شروع کی تھی۔ شیرخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو”اللہ“بنادیا گیا۔حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مرتدین کوجلادیا،پھر اسی طبقے کے بعض لوگ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام سے افضل قراردینے لگے۔بعض لوگ یہ کہنے لگے کہ نبوت ورسالت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تھی،لیکن حضرت جبریل امیں علیہ السلام حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے۔
دراصل اس فکرباطل میں مرکزی حیثیت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودی گئی اور پھر اعتقادی خرافات کی گرم بازاری ہوئی۔یہ اعتقادات باطلہ جن سے متعلق تھے،ان کے سخت ردوابطال کے باوجود پروان چڑھتے رہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا ماننے والوں کو خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے کفروارتداد کے سبب آگ میں جلارہے تھے،تب بھی وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدا ہیں،اسی لیے ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب آگ میں یعنی جہنم میں جلا رہے ہیں۔
  اصل حقیقت یہ ہے کہ ہرمذہب میں اس کے نبی ورسول علیہ السلام کومرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے محض اس جانب توجہ دلانے کے واسطے چند الفاظ رقم کیے،تاکہ مسلمانان اہل سنت وجماعت اپنی مذہبی فطرت وجبلت یعنی محبت نبوی پر قائم رہیں اور غفلت میں مبتلا نہ ہوں۔شخصیات کی محبت میں اس قدر دور نہ چلے جائیں کہ ان کی ضلالت وگمرہی پر بھی ان سے جدا ہونا مشکل ہوجائے۔سبائیوں نے ایک غلط فکر اہل اسلام میں پیدا کردی۔اس فکر باطل کو قبول کرنے والے رافضی کہلائے،جو ضلالت وگمرہی سے کفروارتداد تک جا پہنچے۔
برصغیر کے اہل سنت وجماعت میں سبائی فکر کا عکس اس وقت نظر آیا،جب اسماعیل دہلوی کی ضلالت وگمرہی کا ظہورہوا۔چوں کہ یہ شخص اہل سنت وجماعت کے مشہور علمی خانوادہ،خاندان ولی اللّٰہی کا ایک فرد تھاتو بہت سے مسلمانان اہل سنت اس سے منسلک تھے۔جب دہلی جامع مسجد میں اسماعیل دہلوی اور اس کے ہم مذہب عبد الحئ بڈھانوی سے علمائے اہل سنت وجماعت کا مناظرہ ہوا،اوردہلوی کی ضلالت وگمرہی ظاہر ہو گئی تو اکثر لوگ اس سے جدا ہوگئے اوربہت کم لوگ اس کے ساتھ رہے۔ساتھ رہنے والے بھی پہلے سنی ہی تھے۔ 
دہلوی کے بعد جب نانوتوی وگنگوہی،انبیٹھوی وتھا نوی سے کفر وارتدادکا صدور ہوا تو معاملہ برعکس ہو گیا۔ بہت کم لوگ واپس ہوئے،اوراکثرلوگ کفروارتداد کے باوجود ان لوگوں کے ساتھ ہی رہ گئے۔ یہ اس سبب سے ہواکہ ان کے مریدین وتلامذہ اور احباب ومتعلقین ان مرتدین اربعہ کی محبت میں اس قدر مستغرق و فریفتہ، بلکہ ازخود رفتہ ہوچکے تھے کہ ان کے ہرغلط کوصحیح قرار دینے کوتیار کھڑے تھے۔
ان کو یہ خیال ہی نہیں گزرا کہ ہماری محبت ان لوگوں سے اصلی نہیں،بلکہ تبعی ہے،یعنی دین اسلام کے قائد ورہنما ہونے کے سبب ہے۔ اگر یہ لوگ دین سے منحرف ہوجاتے ہیں توان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔اگر قوم کے درمیان اصلی اورتبعی محبت کا فرق واضح کردیا جائے تو بہت سے مفاسد کا دروازہ خودبخودبند ہو جائے گا۔
یہ بھی خبر ہے کہ عشاق وارباب محبت نے خود بھی اپنے شیخ واستاد کو توبہ ورجوع سے روک دیا۔حضرت علامہ خواجہ مظفرحسین رضوی علیہ الرحمۃزإوالرضوان کا تفصیلی مضمون ماہنامہ کنزالایمان (دہلی) میں شائع ہوا تھا کہ تھانوی اپنی کفریات سے توبہ ورجوع کرنا چاہتا تھا،لیکن مدرسہ دیوبند کی مٹنگ میں مرتضیٰ حسن دربھنگوی نے اسے توبہ ورجوع سے روک دیا،اور کہا کہ ہم لوگ ان عبارتوں کی تاویل کریں گے۔توبہ ورجوع سے روکنا غلط محبت اورعشق بے جاکا نتیجہ تھا۔فرعون کے ساتھ فرعونی بھی غرقاب نیل ہوئے،وہی سب کچھ یہاں ہوا۔
وہ نسلاً بعد نسل سوسال سے تاویل کررہے ہیں،لیکن آج تک کوئی صحیح توضیح نہ کرسکے۔جب کلام کفری معنی میں مفسر اورقطعی بالمعنی الاخص ہوتو اس کی صحیح تاویل محال ہے۔ نہ یہ استحالہ ختم ہوگا،نہ صحیح تاویل کا وجود ہوگا۔سرپٹخنے سے کیا فائد ہ؟اب تک نہ جانے کتنے لوگ ان کی کفری عبارتوں کو غیرکفری مان کر،یا ان لوگوں کو مومن مان کر کفر و ارتداد میں مبتلا ہوگئے۔درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے اشخاص اربعہ مسلمانان ہند وپاک کے لیے ایک بڑی آزمائش ہیں۔ اب بہت سے مذبذبین بھی غرقاب نیل ہوتے جارہے ہیں۔
طواغیت اربعہ نے اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی توہین وبے ادبی اورقرآن وحدیث کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی، لیکن ان کے تلامذہ ومریدین نے اپنے پیرواستاذکی عزت وناموس کو اللہ ورسول کی حرمت وعظمت پرترجیح دی۔اگر یہ لوگ دین ومذہب کا اصل قائد ورہنما اپنے رسول ونبی کو سمجھتے، اور باقی تمام کے بارے میں یہ عقیدہ ان کے دل ودماغ میں مستحکم ہوتا کہ یہ لوگ اسی وقت تک ہمارے قائد ورہنما ہیں،جب تک یہ لوگ تعلیمات نبویہ پر قائم ہیں۔ جیسے ہی تعلیمات مصطفویہ سے منحرف ہوئے،ویسے ہی ہمارا تعلق ٹوٹا تو یہ نوبت ہرگزنہیں آتی کہ اللہ ورسول کی صریح توہین وبے ادبی پر بھی ان کے ساتھ رہ جاتے۔
جولوگ اسماعیل دہلوی کے ساتھ جاکر وہابی ہوگئے،یا جو لوگ اشخاص اربعہ کے ساتھ رہ کر دیوبندی ہو گئے۔یہ بھارت کے شیعہ لوگ نہیں تھے،بلکہ سنی لوگ تھے،یا سنی کہلانے والے لوگ تھے۔ آج بھی دیابنہ خود کو اہل سنت وجماعت کہتے ہیں۔اسماعیل دہلوی کے ساتھ جولوگ رہ گئے تھے،وہ پہلے سنی تھے،کیوں کہ ابھی تک بھارت میں وہابیت آئی نہیں تھی۔اشخاص اربعہ (نانوتوی،گنگوہی،انبیٹھوی وتھانوی)کے ساتھ جانے والے بہت سے خالص سنی لوگ تھے،اوربعض وہ لوگ جو اسماعیل دہلوی کی لائی ہوئی وہابیت سے متاثر تھے۔
چوں کہ ایک بار پھر اہل سنت وجماعت کے درمیان کچھ فتنہ اٹھنے کی امید ہے کہ پیرواستاذکو مرکزی حیثیت اور دین اسلام کے اصل قائد ورہنما کو عملی طورپرتبعی حیثیت دی جائے،گرچہ اعلان یہی ہوکہ ہم فرمان نبوی پر عمل پیرا ہیں،اور اللہ کے رسول ہی ہمارے لیے اصل الاصول ہیں۔بھائی! جب کسی کا اعلان اس کے عمل کے موافق ہو،تب ہی قبول ہوگا۔کیا کوئی دیوبندی اقرار کرلے گا کہ ہم نے طواغیت اربعہ کو اصلی اور مرکزی حیثیت دے دیا ہے اور اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کوتبعی وضمنی درجہ ومقام میں رکھا ہے؟ ہرگز نہیں،لیکن جب اللہ ورسول کی صریح تنقیص وتوہین پر بھی وہ طواغیت اربعہ کے حامی وطرفدار ہیں تواس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ وہ طواغیت اربعہ کواصلی اورمرکزی حیثیت اوراللہ ورسول کوضمنی وتبعی درجہ میں مانتے ہیں۔
اہل سنت وجماعت میں جس نئے فتنے کاخوف مجھے محسوس ہورہا ہے۔اس کا ذکر مضمون کے ذیلی حصہ (ب) میں ہے۔بعض خطرات کے پیش نظریہی بہتر سمجھ میں آیا کہ اگر حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو اپنا آئیڈیل تسلیم کرلیا جائے تو جہاں ان کی تعلیمات عالیہ کی خلاف ورزی ہوگی،وہاں سے جدا ہونا آسان ہوگا۔اگر کسی شخصیت کوپانے کا تصور ہوگا تواس شخصیت سے جدا ہونا مشکل ہو گا۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنا آئیڈیل تصور کرلینا ہی بہت سے مفاسد کا سد باب ہے،پھر جو سنت نبویہ پر عمل پیرا ہو، اور سیرت نبویہ کے موافق اپنی زندگی کوڈھالنے کی کوشش کرے،یقینا وہ حسنات وبرکات کا عظیم حصہ پائے گا۔بلند فکری انسان کو بلند رتبہ بناتی ہے۔ آپ اپنی شخصیت کی اعلیٰ تربیت کریں۔
(ب)امام احمد رضا قادری نے ”فتاویٰ افریقہ“میں شیخ ایصال وشیخ اتصال اور بیعت سلوک وبیعت برکت کی تفصیل رقم فرمادی ہے۔ شیخ ایصال وہ ہیں جو اپنے مر یدکو راہ سلوک کی منزلیں طے کراتے ہیں۔ اس مدت میں شیخ ایک طبیب کی صورت میں ہوتے ہیں،جو اپنے مریض کے لیے اس کے حسب حال مناسب دوا اور موافق غذا کی تجویز کرتا ہے۔ راہ سلوک طے کرنے والے مرید کو اپنے شیخ کی بارگاہ میں وہ طریق کار اختیار کرنے کا حکم ہے،جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی معیت وصحبت کے وقت بتایا گیا تھا کہ کسی امر پر اعتراض نہ کیا جائے۔اس پیرکوشیخ ایصال اور اس بیعت کو بیعت سلوک کہا جاتا ہے۔
چوں کہ شیخ ایصال عارف باللہ اوراولیائے کرام میں سے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اس منصب تک رسائی کے لیے احکام شرعیہ کا پابند اوراعتقادات صحیحہ پرکاربند ہونالازم ہے توشیخ ایصال کے اند ر شرعی طورپر خامیوں کا وجود نہیں ہوتا۔ نہ کوئی بے عمل عارف باللہ ہوسکتا ہے،نہ کوئی بدعقیدہ معرفت وولایت کے رتبہ پر فائز ہو سکتا ہے۔وہ اپنے مریدکی تربیت میں خلاف شرع امر کا ارتکاب نہیں کرتے،ورنہ رحمت الٰہی کادروازہ بند ہو جائے گا اور تربیت پانے والا مرید معرفت الٰہی کو پانہیں سکے گا،لہٰذاشیخ ایصال کے یہاں شریعت کی خلاف ورزی کا خوف نہیں۔قابل اعتماد شخصیات پر اعتماد صحیح ہے اور عدم اعتماد غلط ہے،اسی لیے یہاں مرید کے لیے حکم ہے کہ اپنے آپ کو شیخ ایصال کے سپرد کردے۔وہ اپنے طریق کار مطابق موافق شرع تربیت کریں گے۔ 
جن کو لوگ شیخ اتصال سمجھتے ہیں،وہ کافرومرتد بھی ہوسکتا ہے اور فاسق وفاجر بھی،اور مومن صالح بھی۔ اشخاص اربعہ بھی شیخ اتصال بنے ہوئے تھے۔عہد حاضر میں بہت سے فساق وفجار بھی شیخ اتصال بنے پھرتے ہیں۔ہاں،شرعی طورپر ایسے لوگ شیخ اتصال نہیں ہیں۔شرعی طورپر شیخ اتصال وہی ہے جوشرائط اربعہ کاجامع ہے۔شیخ اتصال کے شرائط اربعہ یہ ہیں:(۱)سنی صحیح العقیدہ ہونا (۲)عالم ہونا(۳)متبع شرع ہونا (۴)سلسلہ طریقت کا حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک متصل ہونا۔
شیخ اتصال وہ ہے جوبیعت کے ذریعہ مریدکا روحانی سلسلہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قائم کرتا ہے۔ اس بیعت کو بیعت برکت اوراس پیر کو شیخ اتصال کہا جاتا ہے۔پیرکی چار مشہور شرطیں اسی شیخ اتصال کے لیے ہیں۔ہمارے یہاں کی مروجہ بیعت اسی قبیل سے ہے۔یہاں مرید کے لیے وہ حکم نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لیے تھا،لیکن بہت سے شیوخ قرآن مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ وخضر علیہما الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ اپنے مریدین کو سناتے رہتے ہیں اور مریدین کو اسی طریق کار کا پابند بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ شریعت کی غلط تشریح ہے اور متعدد مفاسد کا سبب بھی۔
یہ بات صحیح ہے کہ جب وہ پیرشرائط اربعہ کا جامع ہوتو محض بیعت کے سبب مرید کاروحانی سلسلہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متصل ہوجاتا ہے،لیکن جب وہ پیر،شیخ اتصال ہی ہے،یعنی حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے روحانی ربط وتعلق کا ذریعہ ہی ہے تو ان کوچاہئے کہ اپنے مرید کی توجہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جانب مبذول کرائے۔ان کی سنت کی طرف متوجہ کرے۔ان کی سیرت طیبہ سے مریدین کوآشناکرے،اور ان کی محبت کاجام پلائے۔یہی ان کافرض منصبی ہے۔
وہ راہ سلوک کی منزلوں سے خود ہی ناآشنا ہیں تو شیخ ایصال کا منصب کیوں کر پاسکتے ہیں؟لیکن جب وہ حضرت موسیٰ وخضر علیہما الصلوٰۃوالسلام کا واقعہ سناتے ہیں اورمریدکو اسی طریق کار پابند کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ اپنے مریدین کی توجہ اپنی ذات مبارکہ کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں،بلکہ اپنی ذات گرامی تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فکرفاسد،بیعت اتصال کے مقصد کے خلاف ہے۔
جب خشت اول ہی کج ہے توآگے بھی کجی متوقع ہے۔ہرمنصب کی کچھ امانتیں ہوتی ہیں۔اپنی ذات تک مریدکومحدود رکھنا شیخ اتصال کے منصب کی خیانت ہے۔یہ اتصال نہیں،بلکہ انقطاع کی ایک شکل ہے۔
یہ ان پیران طریقت کا حکم ہے،جو ایسا کرتے ہیں،اور جو پیران ذوی الاحترام سنت نبویہ وسیرت مصطفویہ کی تعلیم وترغیب اور دین ومذہب کی خدمات میں میں مشغول رہتے ہیں،اور اپنا فرض منصبی انجام دیتے ہیں،یقینی طورپر وہ قابل قدراورلائق مدح ہیں۔نہ سب پیریکساں ہیں اورنہ سب کے لیے حکم یکساں ہوگا۔
 (ج)علمائے دین سے عوام مسلمین کا طبقہ کم ہی منسلک ہوتا ہے۔اگر منسلک ہو بھی تو عوام وعلما کے تعلقات نکاح خوانی،قرآن خوانی،میلادخوانی،فاتحہ خوانی،جنازہ،سوم،دسواں،چہلم،سالانہ وغیرہ تک محدود ہوتے ہیں۔ علما،ائمہ یاخطباومقررین کو پیران طریقت کی طرح مخدوم اور جنت تک پہنچانے والانہیں سمجھا جاتا۔
عام طورپر علما سے کچھ خدمت لی جاتی ہے توحسن سلوک اورصلہ کے طورپرانہیں نذرونیاز کے ساتھ رخصت کر دیا جاتا ہے۔نہ ہی عام مسلمین علما وائمہ کے ہرقول پر آمناوصدقنا کہتے ہیں،نہ ہی علما کی ایسی خواہش ہوتی ہے۔جو علما وفقہا مدارس وجامعات سے منسلک ہوتے ہیں،عام طورپر قوم مسلم ان سے لاتعلق رہتی ہے۔
اگر علما وفقہا پیرطریقت بھی بن جاتے ہیں تودینی علم اوراسلامی شعور کے سبب یہ لوگ کسی کا ایمان تباہ نہیں کرتے:الا ماشاء اللہ تعالیٰ۔علما میں بھی اگرکوئی پیر جاہلوں والا کارنامہ انجام دیتا ہے توحکم یکساں ہوگا۔ 
 جاہل پیرشرائط اربعہ کا جامع نہ ہونے کے سبب شرعی طورپر شیخ اتصال بھی نہیں۔صرف ان کے معتقدین ان کو کاندھے پر اٹھائے پھر تے ہیں۔ عام طورپر جاہلوں کو اس وقت سجا دگی مل جاتی ہے،جب اس کے والد ماجد بھی پیرہوں۔اب اگر بیٹا جاہل بھی ہوتوبھی سجادہ نشیں بن جاتا ہے۔اگر کافیہ، قدوری پڑھ بھی لیا تو اس سے کوئی عالم نہیں ہوجاتا۔عہد حاضرمیں شیخ اتصال کے انتخاب میں شرائط اربعہ کے ساتھ پیر کے افکار ونظریات کوبھی دیکھ لیا جائے،تاکہ خطرات سے محفوظ رہیں۔یہی مقصود ہے:واللہ الہادی وہو المستعان 

بہ مصطفٰے برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
گر باو نہ رسیدی تمام بولہبی ست 

از: طارق انور مصباحی
ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
رکن: روشن مستقبل دہلی
 جاری کردہ:21:جولائی 2020
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم