عدم مطالعہ کے اسباب اور ان کا حل / Adme Mutala Ke Asbab Aor Unka Hal

 



              عدم مطالعہ کے اسباب اور ان کا حل


    مضمون نگار: محمد اویس رضا عطاری 

 (اوکاڑہ، پنجاب، پاکستان) 



یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ کتاب نہ صرف انسان کی بہترین ساتھی ہے بلکہ یہ انسان کے علم و ہنر اود صلاحیت میں کمال درجہ اضافہ کرتی ہے اور تمام تر حالات و واقعات سے باخبر رکھتی ہے اور ہر شخص اس بات کا قائل ہے کہ مطالعہ کرنے کے کثیر فوائد اور عظیم منافع ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقتِ مسلّمہ ہے ہر شخص مطالعہ نہیں کر پاتا اور دورِ حاضرہ میں مطالعہ نہ کرنے کی شکایت عام ہے۔

کیونکہ ہمارے ہاں کتابوں سے دوری، علم و علماء کی ناقدری صرف اس لیے کہ ہماری زندگیوں میں لایعنیت، بے مقصدیت اور تضیع اوقات جیسی مہلک وباء چل پڑی ہے۔


عدم مطالعہ کے اور بھی بہت سے اسباب اور عوامل ہیں لیکن ذیل میں مطالعہ نہ کرنے کے چند اسباب اور ساتھ میں ان کا حل اور علاج پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

نمبر 1

سستی و لاپرواہی

مطالعہ کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد میں مطالعہ کی رغبت کا فقدان صرف لاپرواہی و بے توجہی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

حل

اس کا حل یوں کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دل میں کسی بھی طریقہ سے مطالعہ کی اہمیت کا احساس اُجاگر کیا جائے کہ جب تک مطالعہ کے متعلق اپنی ضرورت کا احساس پیدا نہیں ہوگا تب تک وہ مطالعہ کے لیے سنجیدہ نہیں ہونگے اس احساس کے لیے اکابرین کے کثرتِ مطالعہ پر نظر کریں، مطالعہ کی اہمیت پہ غور کریں اور کثرت کے ساتھ مطالعہ کرنے والوں کی صحبت اختیار کریں، امید قوی ہے کہ یوں مطالعہ کی ضرورت کا احساس پیدا ہوکر سستی و لاپرواہی کو ختم کر دے گا۔



نمبر 2

وقت کی تنگی

مطالعہ نہ کرنے والوں کا ایک عذر وقت کی تنگی اور عدیم الفرصتی ہے۔ جیسے تجارت پیشہ افراد اپنی کاروباری مصروفیات کا بہانہ بناتے ہیں، کچھ اہل و عیال کی خدمت اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو مطالعہ نہ کرسکنے کا سبب قرار دیتے ہیں ۔

حل

ایسوں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے تفکر کریں کیا واقعی ان کے پاس مطالعے کا وقت نہیں ؟ تو جواب "نہیں" میں آئے گا کیونکہ ایسے حضرات اکثر فضولیات میں وقت ضائع کرنے کے عادی بن چکے ہوتے ہیں ایسے ہی اِدھر اُدھر کے کام اور فضول قسم کی معلومات بہت رکھتے ہونگے۔ لہذا انہیں اپنی غیر مفید مصروفیات کو کم یا ختم کر کے مطالعہ کے لیے وقت نکالنا چائیے۔ ہر شخص خواہ کتنا ہی مصروف ہو کم و بیش ایک گھنٹہ مطالعہ کے لیے آرام سے نکال سکتا ہے ۔



نمبر 3 

ترتیب و تنظیم کا فقدان

ایک سبب یہ بھی ہے کہ پیشتر افراد بے ترتیب و غیر منظم مطالعہ کرتے ہیں، کبھی کوئی کتاب اٹھا لی، کبھی کوئی کتاب دیکھ لی، اس لیے مطالعہ کے باوجود کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور دل برداشتہ ہوکر مطالعہ ترک کر دیتے ہیں اور یوں کتابوں کی صحبت و برکت سے محروم ہوجاتے ہیں۔

حل

قاری کو سب سے پہلے اپنی رائے متعین کرنا اور ترجیحی بنیاد پر مطالعہ کرنا چائیے، نہ تو ہر سامنے آنے والی کتاب پڑھے اور نہ ہی ہر موضوع سے متاثر ہو ورنہ وقت کا قیمتی سرمایہ بے مقصد ضائع ہو جائے گا، لہذا اسے چائیے کہ اپنے لیے ایک موضوع خاص کر لے اور اس موضوع پر بھی چھان بین کرکے کتابوں کا چناؤ کرے ۔




نمبر 4

یاد نہ رہنا

مطالعہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ملتی ہے کہ "جو پڑھتے ہیں وہ یاد نہیں رہتا". یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے کہ دورِ حاضر میں بقول امیر اہلسنت حضرت مولانا الیاس عطار قادری مدظلہ العالی "آج نہ ہاضمہ درست رہا اور نہ حافظہ" ۔ مگر اس عذر کی بناء پر بھی مطالعہ ترک نہیں کرنا چائیے بلکہ مسلسل مطالعہ کرتے رہیں کہ کہیں نہ کہیں اس کا فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے۔

حل

اس مسئلہ کا ایک حل تو یہ ہے کہ جب مطالعہ کرتے وقت غور اور دلچسپی دونوں پائی جائیں تو یاد رکھنا مشکل نہیں ہوتا۔ 

دوسرا حل یہ کہ حاصل مطالعہ کو لکھیں اور اس بعد میں اس کا خلاصہ دہراتے رہیں اس سے بہت فائدہ ہوگا ۔

تیسرا حل یہ ہے کہ مطالعہ کے بعد جو کچھ آپ نے پڑھا ہے اسے اپنے آس پاس کے افراد، اہل خانہ، کلاس فیلوز، دوستوں سے Share کریں۔ اس سے نہ صرف آپ کو یاد رہے گا بلکہ دوسروں کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔

چوتھا حل یہ ہے کہ صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ زبان سے بھی پڑھیے کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے۔ 

پانچواں حل یہ ہے کہ مطالعہ کے ساتھ ان اسباب پر بھی غور کریں جن کے سبب یاد نہ رہنے کی شکایت ہے تاکہ انہیں حتی المقدور دور کیا جا سکے۔ نسیان کا سب سے بڑا سبب گناہ ہیں، ہر شخص اپنا محاسبہ کرے اور معاصی سے دور رہے۔

امام سفیان بن عیینہ علیہ الرحمہ سے کسی نے عرض کی کہ آپ نے حافظہ کیسے مضبوط کیا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا؛ "گناہوں سے باز رہ کر"

(شعب الایمان ج2 ص272)



اور حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

شَکَوتُ اِلی وکیعِِ سوءَ حِفظِی فاَرشَدنِی اِلیٰ تَرکِ المَعاصِی

میں نے امام وکیع علیہ الرحمہ سے کمزوری حافظہ کی شکایت کی تو انہوں نے ترک معاصی کی طرف میری راہنمائی فرمائی

وَقالَ اِعلَم بِاَنّ العِلمَ نُور وَنُورُ اللّہِ لایُؤتٰی لِلعاصِی

اور فرمایا ؛ جان لیجئے کہ علم نور ہے اور اللہ تعالیٰ کا نور کسی گناہگار کو نہیں دیا جاتا


چھٹا حل یہ ہے کہ جب بھی کچھ پڑھیں اس کے بعد شکرِ الٰہی بجا لائیں کہ اس نعمت پر شکر کے سبب اس میں زیادتی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ 

لَئِن شَکَرتُم لاَزِیدَنّکُم۔ (پ۱۳) اور اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور دوں گا۔


اسی طرح بعض وہ چیزیں جن کے کھانے سے نسیان کا مرض پیدا ہوتا ہے ان سے پرہیز کرے۔ مضبوطی حافظہ کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ دواء بھی کرے۔ یہ وظیفہ بھی کر سکتے ہیں کہ ہر نماز کے بعد پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر 11 بار یَاقَوِیُّ پڑھ لیں۔



نمبر 5

بے مقصدیت

مطالعہ سے دوری کبھی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ مطالعہ کرنے والا بے مقصد مطالعہ کرتا ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہر کتاب دیکھنا اور چند صفحات پڑھ کر چھوڑ دینا۔ اس بیماری کا شکار انسان کسی خاص کتاب یا موضوع پر توجہ دینے سے محروم رہتا ہے اور پھر نتائج سے محرومی کے سبب ایک وقت آتا ہے کہ یہ عادت بھی چھوٹ جاتی ہے۔

حل

ایسے شخص کو اپنی روش بدلنے کی سخت ضرورت ہے اور اپنے مقصد کا تعین کرے، موضوع کا انتخاب کرے تاکہ مطالعے میں تسلسل اور استقامت نصیب ہو۔



نمبر 6

نصابی مطالعہ پر اکتفاء

بعض افراد اس لئے مطالعہ نہیں کرتے کہ انہوں نے اپنی اسکول، کالج یا درسِ نظامی کی تکمیل کر لی ہے اب مزید انہیں مطالعہ کی حاجت نہیں رہی_

حل

یہ سوچ بالکل غلط ہے، اس طرح تو اس کی فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہو کر رہ جائے گا اور علم میں رسوخ جیسی نعمت سے محروم رہے گا۔ واضح رہے کہ ایک وہ دور تھا جب تکمیل تعلیم کے بعد زیادہ مطالعے کی حاجت نہ ہوتی تھی کیونکہ ماضی میں پڑھائی کی تکمیل اسی وقت ہوتی تھی جب طالب علم معتدبہ کتب کا مطالعہ کرتا تھا جبکہ دورِ حاضر میں اولاََ تو نصاب مخصوص ہوتے ہیں اور ثانیاََ ان کا درس پورا ہونے سے پہلے فراغت کی گھڑی آن پہنچتی ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ سمجھنا چائیے کہ ہمیں ملنے والی ڈگری کی حثیت صرف ایک چابی کی ہے جس کے ذریعے ہمیں مطالعہ کرکے علوم کے تالے کھولنے ہیں ۔



نمبر 7

خود پسندی اور دھوکہ

کچھ افراد خود پسندی اور دھوکے کا شکار ہو کر مطالعہ ترک کر دیتے ہیں ، کیونکہ وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے تمام علمی و تحقیقی چوٹیاں سر کر لی ہیں لہذا اب انہیں مزید مطالعہ کی حاجت نہیں رہی۔ ایسے حضرات یا تو بے بنیاد دعوے کرنے لگتے ہیں یا پھر اپنے علم کی گنجائش میں مصروف ہو جاتے ہیں_

حل

ایسے افراد کو اپنے کردار و عمل پہ نظرِ ثانی کی سخت ضرورت ہے کیونکہ عقلمند انسان کو یہ کسی طرح زیب نہیں دیتا کہ اس طرح کے دھوکے میں پھنس کر مطالعہ سے دور ہوجائے_

ان تمام تر اسباب کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ کتاب، نصاب، جگہ، اور وقت کی تعیین کر کے ذہنی انہماک اور یکسوئی کا لحاظ رکھ کر کمیت کی بجائے کیفیت پہ نظر جما کر مطالعہ میں فکر کو مثبت و تعمیری بنا کر روحانی، جسمانی اور خارجی آداب کا خیال کرتے ہوئے اور آلات علم، کا ادب کرنے کے ساتھ ساتھ مطالعہ میں تکرار و تسلسل کو بجا لاتے ہوئے اور محنت و لگن سے مطالعہ کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ علم کے خزانے سے مالا مال ہونگے ۔


از: محمد اویس رضا عطاری

  فیضان مدینہ اوکاڑہ ۔ پنجاب ۔ پاکستان

            03484172418

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم