Mahabbat e Rasool Ki Nishaniyan

 

*محبت رسول کی نشانیاں* ______________________  تحریر: محمد شہباز احمد مصباحی (اَرْوَل)  جامعۃ المدینہ––– پڑاؤ،بنارس  ______________________  ُ   امت مسلمہ پر رسول اکرم، نبی محتشم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق میں سے ایک اہم حق آپ سے محبت کرنا ہے ۔ یہ محبت ایسی ہو جو مال و دولت، رشتہ دار، اہل و عیال بلکہ خود اپنی جان کی محبت سے بھی بڑھ کر ہو ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:      قلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ ۗ واللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ۔ (سورۃ التوبۃ، الایۃ: ٢٤)       ترجمہ: فرماؤ،اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان، یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔(کنزالایمان)       یہ آیت کریمہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی محبت پر ابھارا ہے، اور آپ کی محبت سے روگردانی پر وعید بھی سنائی ہے۔ یہ اس بات کی حجت و دلیل ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لازم، اس محبت کی فرضیت ثابت اور محبت رسول کا معاملہ بڑا نازک اور عظیم ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام اس محبت کے مستحق ہیں ۔    (المعتقد المنتقد، الباب الثانی فی النبوات، ص:133،ناشر :الجمع الاسلامی، مبارک پور)     مجدد اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں:     ثابت  ہوا کہ  جملہ فرائض  فروع ہیں    اصل الاصول بندگی اس تاج ور کی ہے   (حدائق بخشش)      حدیث پاک میں ہے:     عنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔     (صحیح البخاری ، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان، ص: ١٤، دار ابن کثیر، بیروت، دمشق)        صحابی رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:    تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔     حضرت علامہ فضل رسول قادری برکاتی بدایونی قدس سرہ ( متوفٰی :1289ھ) رقم طراز ہیں:   علماے کرام رحمہم السلام فرماتے ہیں: جس محبت کی بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کی ہے وہ محبت اختیاری ہے، جو مقام احترام میں آپ کے اجلال و اکرام اور تعظیم و توقیر کو واجب کرتا ہے ۔    (المعتقد المعتقد، ص: 134)     مجدد اسلام، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں:    یہ حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے، اس نے بات صاف فرمادی کہ جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو عزیز رکھے، ہرگز مسلمان نہیں ۔مسلمانو! کہو، محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہان سے زیادہ محبوب رکھنا مدار ایمان و مدار نجات ہوا یا نہیں؟ کہو، ہوا ضرور ہوا۔   (الفتاوی الرضویہ، رسالہ: تمہید ایمان،ج: 30، ص: 310،ناشر: رضا اکیڈمی،ممبئی)     روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، رکن دین و ایمان ہے۔ اب ہم چند علامتیں ذکر کریں گے۔جس شخص کے اندر وہ علامات  جس قدر زیادہ ہوں گی، وہ اپنے دعوئ محبت میں اتنا ہی سچا ہوگا۔ ان علامات کا مطالعہ کرکے خود اپنا محاسبہ کریں کہ کیا رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے جو تقاضے ہیں ہم اس پر پورا اترتے ہیں؟ کیا علامات محبت ہمارے اندر پائی جارہی ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو شکر الٰہی بجا لائیں کہ اس نے ہمارے سینے میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ڈال دی۔ ورنہ روز حساب سے قبل ہی اپنا حساب کرلیں کہ اس دن جھوٹی دعوئ محبت کے سارے حال کھل جائیں گے، پھر حسرت و افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، اس لیے آج ہی ان کی محبت سے اپنے ویران دل کو آباد کرلیا جائے ۔     *محبت رسول کی چھ نشانیاں*          (1) رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ذات پر اور ان کی مخالفت کو ان کی موافقت پر ترجیح دے، آپ کی سنتوں کی پیروی کرے، آپ کے اقوال و افعال کو اپنائے، اوامر کی بجا آوری اور منہیات سے اجتناب کرے، سختی وآسانی کی حالت میں آپ کے طور طریقے سے خود کو مزین کرے ۔ جوشخص ان تمام صفات سے متصف ہوجائے، اس کی محبت کامل اور جو بعض صفات میں اس کے خلاف ہو اس کی محبت ناقص ہے ۔   (المعتقد المنتقد، ص:136)     (2) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کثرت سے تذکرہ کرے، اس لیے کہ جو کسی شی سے محبت کرتا ہے اس کا خوب تذکرہ کرتا ہے ۔ (مرجع سابق)     حضرت سیدنا محمد بن اسماعیل بخاری (متوفی: ٢٥٦) رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نقل کرتے ہیں:    حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا پاؤں سن ہوگیا، ایک مرد نے کہا : " اُذکر أحب الناس إليك،فقال : یا محمداہ!"  یعنی آپ اپنی محبوب ترین ہستی کو یاد کریں، تو آپ نے فرمایا: یا محمداہ! ۔    (الادب المفرد، باب مایقول الرجل اذا خدرت رجلہ،ص: 335، رقم الحدیث: 964 ، دارالبشائر الاسلامیہ، بیروت)       روایت میں آیا کہ صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جیسے ہی "یا محمداہ"کہا، ان کا پاؤں فوراً ٹھیک ہوگیا۔ گویا آپ نے اس فریاد کے ضمن میں اپنی سب سے زیادہ محبوب شخصیت کا اظہار فرمادیا ۔      (3) مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی تمنا رکھے، اس لیے کہ ہر محب اپنے محبوب سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ۔    (المعتقد المنتقد، ص:136)       اہل مدینہ نے جب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی خوش خبری سنی تو انتہائی شوق اور بے قراری کے ساتھ دل میں ملاقات کی تمنا لیے آپ کی آمد کا شدت کے ساتھ انتظار کرنے لگے، اس لیے کہ ہر محب اپنے محبوب کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ۔ شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:       جب انصار محبت شعار نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی خبرسنی تو روزانہ مدینہ منورہ کی چوٹیوں پر آتے اور آفتاب جمال باکمال محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے طلوع کے منتظر رہتے، جب سورج گرم ہوجاتا اور دھوپ سخت ہوجاتی تو گھروں کو لوٹ جاتے تھے ۔   (مدارج النبوۃ مترجم ، ج:2،ص: 92/93، ناشر: شبیر برادز، لاہور)          حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رات کے آخری حصے میں حاضر رہا کرتا تھا، ایک بار آپ کے وضو وغیرہ کے لیے پانی  لے کر حاضر ہوا ،حضور سید العالمین  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "سل ماشئت" جو چاہو، مانگ لو ، عرض کی : " أسئلک مرافقتک فی الجنۃ " میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور کی رفاقت عطا ہو ، فرمایا: اور کچھ ؟ عرض کی: بس میری مراد تو یہی ہے، فرمایا: تو کثرت سجود سے  میری اعانت کر ۔ (مشکات المصابیح، باب السجود وفضلہ،ص: 84، مجلس برکات)      حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہماری سو جانیں قربان، جب آپ کو دنیا و آخرت سے کسی بھی چیز کی فرمائش کا موقع ملا تو اسے غنیمت سمجھتے ہوئے جنت میں رفاقت مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سوال کردیا، جب دوسری مرتبہ بھی موقع ملا تو اسی سوال کو دہرایا۔ اس لیے کہ ہر محب اپنے محبوب سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ۔       ایک عاشق رسول کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ کاش! کبھی جمال جہاں آرا کے دیدار کا شرف مل جائے۔        (4) سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جمیل، تعظیم وتوقیر کے ساتھ کی جائے اور آپ کا نام مبارک سنتے ہی خشوع و خضوع کا اظہار ہونے لگے۔    (المعتقد المنتقد، ص:136)      یعنی ذکر مصطفی کے وقت امتی کے چہرے پر بشاشت کے آثار نمودار ہوں، مرجھائے دل کی کلیاں کھل اٹھیں،سر خم ہوجائے اور اس کے پورے وجود سے تواضع و انکساری جھلکے ۔     (5) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جن سے محبت ہے، ان سے محبت کی جائے ۔ اہل بیت، صحابہ مہاجرین و انصار سے عقیدت رکھی جائے، یہ محبت و عقیدت صرف اس بنا پر ہو کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے محبت کی ہے اور جو ان نفوس قدسیہ سے دشمنی رکھے، ان سے دشمنی رکھی جائے، ان کو مبغوض رکھے جو ان حضرات کو مبغوض رکھے۔ اس لیے کہ جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس سے بھی محبت کرتا ہے جس سے اس کا محبوب محبت کرتا ہے ۔    (مرجع سابق)       رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی محبت کے تعلق سے ارشاد فرمایا:      "اللھم إنی أحبھما فأحبھما، وأحب من یحبھما" اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی انہیں محبوب رکھ اور تو انہیں بھی محبوب رکھ، جو ان دونوں کو محبوب رکھے ۔     (جامع الترمذی، ج: 2، باب المناقب، ص: 217، مجلس البرکات )       صحابۂ کرام کی محبت کے بارے میں ارشاد فرمایا:      اللہ اللہ فی أصحابی ، لاتتخذوہم غرضاً بعدی، فمن أحبہم فبحبی أحبہم، ومن أبغضہم فببغضی أبغضہم، ومن آذاہم فقد اٰذانی،ومن اٰذانی فقد اٰذی اللہ ،ومن اٰذی اللہ فیوشک أن یأخذہ۔   (مشکات المصابیح ،باب مناقب الصحابۃ ، ص: 554)     حضرت سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالىٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد نشانہ نہ بنالینا، جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، جس نے انہیں تکلیف دی، گویا اس نے مجھے تکلیف دی، جس نے مجھے تکلیف دی گویا اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی عنقریب وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے گا ۔      مجدد اعظم،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :      اس حدیث میں وہ ہے جس سے کمینے رافضیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے، جنہوں نے ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے رفض کیا، میں خاص انہی کو نہیں کہتا بلکہ ہر اس رافضی کو کہتا ہوں جس نے صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی جیسے حضرت امیر معاویہ، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو اپنے سب و شتم کا نشانہ بنایا ۔     (المستند المعتمد، ص:138، ناشر مجلس برکات)      علامہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:     ہرشخص پر واجب ہے کہ اہل بیت نبوت اور تمام صحابۂ کرام کی محبت اپنے دل میں بسائے، اہل بیت سے عداوت کرکے خوارج میں سے نہ ہوجائے، ورنہ اس وقت اسے صحابہ کی محبت نفع نہ دے گی اور بغض صحابہ میں رافضیوں میں سے نہ ہوجائے ورنہ اس وقت اہل بیت کی محبت کچھ کام نہ دے گی۔  (المعتقد المنتقد، ص: 139/138)       یہاں سے وہ لوگ سبق حاصل کریں اور اپنے ایمان و عقیدے کی خیر منائیں، جن کا  مشغلہ کاتب وحی خدا، صحابی رسول، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لعن طعن کرنا ہے۔ الحمد للہ عزوجل، ہم اہل سنت و جماعت کو اہل بیت نبوت اور حضرات صحابۂ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے محبت و عقیدت ہے، یہ اس بنا پر ہے کہ خود ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے محبت کی اور محبت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔       اعلیٰ حضرت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں:    اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور    نجم ہے اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی     (حدائق بخشش)          سیدنا امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ خلیفہ کے دربار میں ذکر کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو "لوکی" پسند تھی، ایک شخص نے کہا : مجھے تو پسند نہیں ہے، سیدنا امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تلوار اور چمڑے کا فرش لانے کا حکم فرمایا، تو اس شخص نے کہا: میں نے جو بات کہی اس سے بارگاہ الہی میں استغفار کرتا ہوں اور ان تمام باتوں سے توبہ کرتا ہوں جو موجب کفر ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ تب سیدنا امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چھوڑ دیا اور قتل نہ کیا ۔    (مرجع سابق )     (6) علامات محبت سے یہ بھی ہے کہ اس سے بغض رکھے، جو ہمارے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھے، اس سے نفرت کرے جس سے ہمارے نبی نے نفرت کی اور ہر اس شخص سے بیزاری کا اظہار کرے جو دین میں بدعت کو رواج دے اور خلاف شرع بکے ۔     (حوالہ سابق،ص: 139)          وہابیہ، دیابنہ نے اللہ ورسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ان سے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں، جنہیں دیکھ، سن اور پڑھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، ان سے نفرت کرنا، دشمنی رکھنا اور ان کے سائے سے دور بھاگنا، علامات ایمان سے ہے ۔     مجدد اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں:     اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں سے کیسی ہی تعظیم، کتنی ہی عقیدت، کتنی ہی دوستی، کیسی ہی محبت کا علاقہ ہو، جیسے: تمہارے باپ، تمہارے استاد، تمہارے پیر، تمہارے بھائی، تمہارے احباب، تمہارے اصحاب، تمہارے مولوی، تمہارے حافظ، تمہارے مفتی، تمہارے واعظ وغیرہ وغیرہ کسے باشد، جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کریں، اصلاً تمہارے قلب میں ان کی عظمت، ان کی محبت کا نام و نشان نہ رہے، فوراً ان سے الگ ہوجاؤ، دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو۔ ان کی صورت ان کے نام سے نفرت کھاؤ، پھر نہ تم اپنے رشتے، علاقے، دوستی، الفت کا پاس کرو، نہ اس کی مولویت، شیخیت، بزرگی، فضلیت کو خاطر میں لاؤ، کہ آخر میں یہ جو کچھ تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی غلامی کی بنا پر تھا، جب یہ شخص انھیں کی شان میں گستاخ ہوا پھر ہمیں اس سے کیا علاقہ رہا ۔    (الفتاوی الرضویہ، رسالہ: تمید ایمان بآیات قرآن، ج: 30،ص: 311)      خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارے دین و ایمان کا حصہ ہے۔ جو بندہ ان سے محبت کا دعویٰ کرے وہ اس میں سچا اس وقت ہوگا جب اس کی ذات میں ایمان کی نشانیاں کامل طور پر موجود ہوں ۔ اگر ہمیں دنیا و آخرت میں سرخروئی مطلوب ہے تو خود کو نبی کی محبت سے سرشار رکھیں۔  اللہ کریم ہمیں اور آپ کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں جینا مرنا نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔  _____________________ محمد شہباز احمد مصباحی                    8340399436  ٢٣/ فروری بروز منگل ٢٠٢١ء

محبت رسول کی نشانیاں
   امت مسلمہ پر رسول اکرم، نبی محتشم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق میں سے ایک اہم حق آپ سے محبت کرنا ہے ۔ یہ محبت ایسی ہو جو مال و دولت، رشتہ دار، اہل و عیال بلکہ خود اپنی جان کی محبت سے بھی بڑھ کر ہو ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

    قلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ ۗ واللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ۔ (سورۃ التوبۃ، الایۃ: ٢٤)
      ترجمہ: فرماؤ،اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان، یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔(کنزالایمان)

     یہ آیت کریمہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی محبت پر ابھارا ہے، اور آپ کی محبت سے روگردانی پر وعید بھی سنائی ہے۔ یہ اس بات کی حجت و دلیل ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لازم، اس محبت کی فرضیت ثابت اور محبت رسول کا معاملہ بڑا نازک اور عظیم ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام اس محبت کے مستحق ہیں ۔
   (المعتقد المنتقد، الباب الثانی فی النبوات، ص:133،ناشر :الجمع الاسلامی، مبارک پور)

   مجدد اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں:
    ثابت  ہوا کہ  جملہ فرائض  فروع ہیں
   اصل الاصول بندگی اس تاج ور کی ہے
  (حدائق بخشش)

    حدیث پاک میں ہے:
    عنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔
    (صحیح البخاری ، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان، ص: ١٤، دار ابن کثیر، بیروت، دمشق) 
   
  صحابی رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
   تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔

   حضرت علامہ فضل رسول قادری برکاتی بدایونی قدس سرہ ( متوفٰی :1289ھ) رقم طراز ہیں:
  علماے کرام رحمہم السلام فرماتے ہیں: جس محبت کی بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کی ہے وہ محبت اختیاری ہے، جو مقام احترام میں آپ کے اجلال و اکرام اور تعظیم و توقیر کو واجب کرتا ہے ۔
   (المعتقد المعتقد، ص: 134)

   مجدد اسلام، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں: 
  یہ حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے، اس نے بات صاف فرمادی کہ جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو عزیز رکھے، ہرگز مسلمان نہیں ۔مسلمانو! کہو، محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہان سے زیادہ محبوب رکھنا مدار ایمان و مدار نجات ہوا یا نہیں؟ کہو، ہوا ضرور ہوا۔
  (الفتاوی الرضویہ، رسالہ: تمہید ایمان،ج: 30، ص: 310،ناشر: رضا اکیڈمی،ممبئی)

   روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، رکن دین و ایمان ہے۔ اب ہم چند علامتیں ذکر کریں گے۔جس شخص کے اندر وہ علامات  جس قدر زیادہ ہوں گی، وہ اپنے دعوئ محبت میں اتنا ہی سچا ہوگا۔ ان علامات کا مطالعہ کرکے خود اپنا محاسبہ کریں کہ کیا رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے جو تقاضے ہیں ہم اس پر پورا اترتے ہیں؟ کیا علامات محبت ہمارے اندر پائی جارہی ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو شکر الٰہی بجا لائیں کہ اس نے ہمارے سینے میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ڈال دی۔ ورنہ روز حساب سے قبل ہی اپنا حساب کرلیں کہ اس دن جھوٹی دعوئ محبت کے سارے حال کھل جائیں گے، پھر حسرت و افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، اس لیے آج ہی ان کی محبت سے اپنے ویران دل کو آباد کرلیا جائے ۔

   *محبت رسول کی چھ نشانیاں*  
  
    (1) رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ذات پر اور ان کی مخالفت کو ان کی موافقت پر ترجیح دے، آپ کی سنتوں کی پیروی کرے، آپ کے اقوال و افعال کو اپنائے، اوامر کی بجا آوری اور منہیات سے اجتناب کرے، سختی وآسانی کی حالت میں آپ کے طور طریقے سے خود کو مزین کرے ۔ جوشخص ان تمام صفات سے متصف ہوجائے، اس کی محبت کامل اور جو بعض صفات میں اس کے خلاف ہو اس کی محبت ناقص ہے ۔
  (المعتقد المنتقد، ص:136)

   (2) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کثرت سے تذکرہ کرے، اس لیے کہ جو کسی شی سے محبت کرتا ہے اس کا خوب تذکرہ کرتا ہے ۔ (مرجع سابق) 

  حضرت سیدنا محمد بن اسماعیل بخاری (متوفی: ٢٥٦) رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نقل کرتے ہیں:
   حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا پاؤں سن ہوگیا، ایک مرد نے کہا : " اُذکر أحب الناس إليك،فقال : یا محمداہ!" 
یعنی آپ اپنی محبوب ترین ہستی کو یاد کریں، تو آپ نے فرمایا: یا محمداہ! ۔ 
  (الادب المفرد، باب مایقول الرجل اذا خدرت رجلہ،ص: 335، رقم الحدیث: 964 ، دارالبشائر الاسلامیہ، بیروت) 

    روایت میں آیا کہ صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جیسے ہی "یا محمداہ"کہا، ان کا پاؤں فوراً ٹھیک ہوگیا۔ گویا آپ نے اس فریاد کے ضمن میں اپنی سب سے زیادہ محبوب شخصیت کا اظہار فرمادیا ۔
 
   (3) مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی تمنا رکھے، اس لیے کہ ہر محب اپنے محبوب سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ۔
   (المعتقد المنتقد، ص:136)

     اہل مدینہ نے جب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی خوش خبری سنی تو انتہائی شوق اور بے قراری کے ساتھ دل میں ملاقات کی تمنا لیے آپ کی آمد کا شدت کے ساتھ انتظار کرنے لگے، اس لیے کہ ہر محب اپنے محبوب کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ۔ شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

     جب انصار محبت شعار نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی خبرسنی تو روزانہ مدینہ منورہ کی چوٹیوں پر آتے اور آفتاب جمال باکمال محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے طلوع کے منتظر رہتے، جب سورج گرم ہوجاتا اور دھوپ سخت ہوجاتی تو گھروں کو لوٹ جاتے تھے ۔
  (مدارج النبوۃ مترجم ، ج:2،ص: 92/93، ناشر: شبیر برادز، لاہور)
   
     حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رات کے آخری حصے میں حاضر رہا کرتا تھا، ایک بار آپ کے وضو وغیرہ کے لیے پانی  لے کر حاضر ہوا ،حضور سید العالمین  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "سل ماشئت" جو چاہو، مانگ لو ، عرض کی : " أسئلک مرافقتک فی الجنۃ " میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور کی رفاقت عطا ہو ، فرمایا: اور کچھ ؟ عرض کی: بس میری مراد تو یہی ہے، فرمایا: تو کثرت سجود سے  میری اعانت کر ۔
(مشکات المصابیح، باب السجود وفضلہ،ص: 84، مجلس برکات)
 
   حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہماری سو جانیں قربان، جب آپ کو دنیا و آخرت سے کسی بھی چیز کی فرمائش کا موقع ملا تو اسے غنیمت سمجھتے ہوئے جنت میں رفاقت مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سوال کردیا، جب دوسری مرتبہ بھی موقع ملا تو اسی سوال کو دہرایا۔ اس لیے کہ ہر محب اپنے محبوب سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ۔

     ایک عاشق رسول کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ کاش! کبھی جمال جہاں آرا کے دیدار کا شرف مل جائے۔  

    (4) سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جمیل، تعظیم وتوقیر کے ساتھ کی جائے اور آپ کا نام مبارک سنتے ہی خشوع و خضوع کا اظہار ہونے لگے۔
   (المعتقد المنتقد، ص:136)

    یعنی ذکر مصطفی کے وقت امتی کے چہرے پر بشاشت کے آثار نمودار ہوں، مرجھائے دل کی کلیاں کھل اٹھیں،سر خم ہوجائے اور اس کے پورے وجود سے تواضع و انکساری جھلکے ۔

   (5) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جن سے محبت ہے، ان سے محبت کی جائے ۔ اہل بیت، صحابہ مہاجرین و انصار سے عقیدت رکھی جائے، یہ محبت و عقیدت صرف اس بنا پر ہو کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے محبت کی ہے اور جو ان نفوس قدسیہ سے دشمنی رکھے، ان سے دشمنی رکھی جائے، ان کو مبغوض رکھے جو ان حضرات کو مبغوض رکھے۔ اس لیے کہ جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس سے بھی محبت کرتا ہے جس سے اس کا محبوب محبت کرتا ہے ۔
   (مرجع سابق) 

    رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی محبت کے تعلق سے ارشاد فرمایا:  
   "اللھم إنی أحبھما فأحبھما، وأحب من یحبھما" اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی انہیں محبوب رکھ اور تو انہیں بھی محبوب رکھ، جو ان دونوں کو محبوب رکھے ۔
    (جامع الترمذی، ج: 2، باب المناقب، ص: 217، مجلس البرکات )

     صحابۂ کرام کی محبت کے بارے میں ارشاد فرمایا: 
    اللہ اللہ فی أصحابی ، لاتتخذوہم غرضاً بعدی، فمن أحبہم فبحبی أحبہم، ومن أبغضہم فببغضی أبغضہم، ومن آذاہم فقد اٰذانی،ومن اٰذانی فقد اٰذی اللہ ،ومن اٰذی اللہ فیوشک أن یأخذہ۔
  (مشکات المصابیح ،باب مناقب الصحابۃ ، ص: 554)
    حضرت سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالىٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد نشانہ نہ بنالینا، جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، جس نے انہیں تکلیف دی، گویا اس نے مجھے تکلیف دی، جس نے مجھے تکلیف دی گویا اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی عنقریب وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے گا ۔

    مجدد اعظم،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :
     اس حدیث میں وہ ہے جس سے کمینے رافضیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے، جنہوں نے ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے رفض کیا، میں خاص انہی کو نہیں کہتا بلکہ ہر اس رافضی کو کہتا ہوں جس نے صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی جیسے حضرت امیر معاویہ، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو اپنے سب و شتم کا نشانہ بنایا ۔
    (المستند المعتمد، ص:138، ناشر مجلس برکات)

    علامہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:
    ہرشخص پر واجب ہے کہ اہل بیت نبوت اور تمام صحابۂ کرام کی محبت اپنے دل میں بسائے، اہل بیت سے عداوت کرکے خوارج میں سے نہ ہوجائے، ورنہ اس وقت اسے صحابہ کی محبت نفع نہ دے گی اور بغض صحابہ میں رافضیوں میں سے نہ ہوجائے ورنہ اس وقت اہل بیت کی محبت کچھ کام نہ دے گی۔
 (المعتقد المنتقد، ص: 139/138)

     یہاں سے وہ لوگ سبق حاصل کریں اور اپنے ایمان و عقیدے کی خیر منائیں، جن کا  مشغلہ کاتب وحی خدا، صحابی رسول، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لعن طعن کرنا ہے۔ الحمد للہ عزوجل، ہم اہل سنت و جماعت کو اہل بیت نبوت اور حضرات صحابۂ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے محبت و عقیدت ہے، یہ اس بنا پر ہے کہ خود ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے محبت کی اور محبت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔ 
     اعلیٰ حضرت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں:
   اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور 
  نجم ہے اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی 
   (حدائق بخشش) 
  

    سیدنا امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ خلیفہ کے دربار میں ذکر کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو "لوکی" پسند تھی، ایک شخص نے کہا : مجھے تو پسند نہیں ہے، سیدنا امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تلوار اور چمڑے کا فرش لانے کا حکم فرمایا، تو اس شخص نے کہا: میں نے جو بات کہی اس سے بارگاہ الہی میں استغفار کرتا ہوں اور ان تمام باتوں سے توبہ کرتا ہوں جو موجب کفر ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ تب سیدنا امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چھوڑ دیا اور قتل نہ کیا ۔
   (مرجع سابق )

   (6) علامات محبت سے یہ بھی ہے کہ اس سے بغض رکھے، جو ہمارے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھے، اس سے نفرت کرے جس سے ہمارے نبی نے نفرت کی اور ہر اس شخص سے بیزاری کا اظہار کرے جو دین میں بدعت کو رواج دے اور خلاف شرع بکے ۔
    (حوالہ سابق،ص: 139)  

      وہابیہ، دیابنہ نے اللہ ورسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ان سے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں، جنہیں دیکھ، سن اور پڑھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، ان سے نفرت کرنا، دشمنی رکھنا اور ان کے سائے سے دور بھاگنا، علامات ایمان سے ہے ۔

   مجدد اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں:
    اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں سے کیسی ہی تعظیم، کتنی ہی عقیدت، کتنی ہی دوستی، کیسی ہی محبت کا علاقہ ہو، جیسے: تمہارے باپ، تمہارے استاد، تمہارے پیر، تمہارے بھائی، تمہارے احباب، تمہارے اصحاب، تمہارے مولوی، تمہارے حافظ، تمہارے مفتی، تمہارے واعظ وغیرہ وغیرہ کسے باشد، جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کریں، اصلاً تمہارے قلب میں ان کی عظمت، ان کی محبت کا نام و نشان نہ رہے، فوراً ان سے الگ ہوجاؤ، دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو۔ ان کی صورت ان کے نام سے نفرت کھاؤ، پھر نہ تم اپنے رشتے، علاقے، دوستی، الفت کا پاس کرو، نہ اس کی مولویت، شیخیت، بزرگی، فضلیت کو خاطر میں لاؤ، کہ آخر میں یہ جو کچھ تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی غلامی کی بنا پر تھا، جب یہ شخص انھیں کی شان میں گستاخ ہوا پھر ہمیں اس سے کیا علاقہ رہا ۔
   (الفتاوی الرضویہ، رسالہ: تمید ایمان بآیات قرآن، ج: 30،ص: 311)

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارے دین و ایمان کا حصہ ہے۔ جو بندہ ان سے محبت کا دعویٰ کرے وہ اس میں سچا اس وقت ہوگا جب اس کی ذات میں ایمان کی نشانیاں کامل طور پر موجود ہوں ۔ اگر ہمیں دنیا و آخرت میں سرخروئی مطلوب ہے تو خود کو نبی کی محبت سے سرشار رکھیں۔  اللہ کریم ہمیں اور آپ کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں جینا مرنا نصیب فرمائے_
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم. 

_____________________
محمد شہباز احمد مصباحی 
                  8340399436 
٢٣/ فروری بروز منگل ٢٠٢١ء

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم