کوئی عنوان نہیں

 سوال: اگر امام، بلا ناغہ ظہر کی سنت مؤکدہ ترک کر کے ظہر کی امامت کرے تو ایسے امام کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ 

سائل: محمد احمد

 جواب: ان سنتوں کے مطلقاً تارک کے بارے میں حدیث شریف میں ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"من ترک اربعا قبل الظهر لم تنله شفاعتی" 

یعنی جس نے ظہر فرض سے قبل کی چار رکعت کو ترک کردیا اسے میری شفاعت حاصل نہ ہوگی_

جس امام نے ظہر کی چار رکعت سنت پڑھے بغیر امامت کروائی، وہ انہیں اگرچہ بعدِ فرض پڑھ لے گا مگر بلاعذر اس کو اس کی جگہ سے ہٹانا بھی برا ہے کہ سنت قبلیہ کی اصل سنت یہی ہے کہ وہ فرض سے قبل پڑھی جائے اور جماعت قائم ہوجانے کے بعد مقتدی کا جماعت میں مشغول ہونا اور سنت کا موخر کرنا عذر شرعی کی وجہ سے ہے مگر بلاوجہ امام کا موخر کرنا سنت کے خلاف ہے_

اسی سے اس سوال کا بھی جواب ہوگیا کہ نماز تو ہوجائے گی مگر امام نے برا کیا اور اگر مؤخر کرنے کی عادت کرلی ہے اور بار بار یہی کرتا ہے تو گنہ گار بھی ہوگا_

 جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے" قول الامام الاجل فخر الاسلام ، ان تارک السنة الموکدۃ یستوجب الاساءۃ أی بنفس الترک و کراهة أی تحریمیة أی عند الاعتیاد " 

یعنی امام اجل فخر الاسلام کا قول کہ سنت موکدہ کا تارک اساءت کا مستحق ہے یعنی نفس سنت کو ترک کرنے سے اور کراہت تحریمی کا عادت کرلے اسی طرح فتاویٰ بحرالعلوم کتاب الصلاۃ امامت کا بیان ج: 1،ص: 384 ، مطبوعع ضیاء اکیڈمی کراچی) میں ہے_

اور اس مسئلہ کے بارے میں مفتی محمد وقار الدین علیہ الرحمہ لکھتے ہیں " ان دونوں وقتوں (فجر و ظہر) کی سنتیں، سنت موکدہ ہیں_ ان کو قصداً (جان بوجھ کر) ترک کرنا گناہ ہے ، لہذا امام مقتدیوں سے کہہ دے کہ اتنا انتظار کریں کہ میں سنتیں پڑھ لوں، محض وقت کی پابندی کرنے کے لیے سنتیں چھوڑ کر امامت کروانا جائز نہیں" 

(وقار الفتاویٰ ، کتاب الصلاۃ ، امامت ج: 2، ص: 188 ، مطبوعہ ، بزم وقار الدین ، کراچی)

جبکہ مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ نے اسے مکروہ لکھا ہے_ چنانچہ آپ لکھتے ہیں: بلاعذر چار رکعت سنت پڑھے بغیر ظہر فرض کی امامت کرنا مکروہ ہے_

 (فتاویٰ فیض الرسول ، باب الامامت ج 1 ص 262 ، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)


واللہ اعلم بالصواب 

(مفتی) کریم اللہ رضوی 

خادم التدریس دار العلوم مخدوم یہ، اوشیورہ برج، جوگیشوری، ممبئی، بھارت

Upload by: Ahlesunnatojamaat.blogspot.com

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم