حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمۃ حیات و خدمات/ Sayyid Makhdum Ashraf Simnani


 حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمۃ

حیات و خدمات


از: محمد معراج احمد رضوی مصباحی

             ہندوستان کا وہ مقدس درگاہ جس کی فیض رسانی، شعشعہ بخشی ،ضیا گستری ،اور نور پاشی سے آج ہندوستان ہی نہیں بلکہ  پورا عالم اسلام جگمگارہاہے ۔آسیب زدہ ہوں کہ مبروص ،سحر زدہ ہوں کہ مجذوم ،روحانی مریض ہوں کہ جسمانی علیل،بستہ دل ہوں کہ شکستہ حال ،آشفتہ سر ہوں کہ پر افشاں حال،آزردہ دل ہوں کہ شوریدہ خاطر سب کے سب جس در فیض نشان سے مستفیض و شفایاب ہورہے ہیں۔ہندو ہو یا مسلم،کافر ہوں یا مومن ،سکھ ہوں یا عیسائی ،عربی ہوں یا سوڈانی،عراقی ہو یا شامی، امریکی ہوں یا جاپانی، ہندی ہوں یا نیپالی ، اچھے ہوں یا برے، ہر طبقہ،ہر ذات، ہر برادری، ہر ملک ،ہر شہر ،ہر قصبے کے لوگ جس مقدس درگاہ کے آبشار کرم میں نہا رہے ہیں وہ مقدس درگاہ  ،حضور غوث العالم ،محبوب سبحانی ،ناظر عالم ملکوت ،محافظ دنیا ،قدوۃ الکبریٰ تارک السلطنت سیدنا سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے۔گلشن اسلام میں جن اولیاء کرام نے اپنے لافانی کارناموں کی بدولت بقائے دوام حاصل کی ہے ان میں قدوۃ الکبریٰ تارک السلطنت امیر کبیر سید اشرف جہانگیر سمنانی نور بخشی علیہ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کا اسم گرامی سر فہرست ہے_

نام و نسب نامہ

حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ یہ سادات نوربخشیہ میں سے ہیں۔آپ کا پیدائشی نام بمطابق بشارت رسول محتشم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اشرف ہے_
نسب نامہ یہ ہے: حضرت سیدنا علامہ علی کرم اللہ وجہ الکریم، حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت سیدنا امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت سیدنا علامہ اسماعیل اعرج رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت سید ابو الحسن محمد،  سید اسماعیل ثانی، سید ابو موسی علی، سید ابو محمد، سید حسن شریف، سید جمال الدین، سید کمال الدین، سید مہدی، سیدنا محمود نور بخشی رحمۃ اللہ علیہ، سید تاج الدین بہلول، سید سلطان ظہیر الدین محمد، سلطان سید نظام الدین علی شیر، سلطان سید عمادالدین نوربخشی، سلطان سید ابراہیم نوربخشی، سلطان اشرف نوربخشی_

ولادت

آپ کے والد سلطان ابراہیم سمنانی ایران کے فرمانروا تھے ان کا دربار فضلاء عصر، علماء وقت سے آباد تھا_ خود سلطان ایک صوفی مشرب بادشاہ تھے_ آپ زہد و تقویٰ میں کامل تھے_ بیٹے کی آرزو تھی_ ایک شب عالم خواب میں حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے جمال جہاں آرا سے سرفراز ہوئے آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے دو فرزندوں کی بشارت دی اور فرمایاکہ ایک کا نام محمد اشرف اور دوسرے کا نام محمد اعرف رکھنا_ سلطان ابراہیم سمنانی کا بڑا فرزند ارجمند ہی آگے چل کر حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ رحمۃ الله الباری کے نام سے مشہور ہوئے_

تعلیم و تربیت

سلطان نے مولودمسعود کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اشرف رکھا اور بڑے ناز و نعمت سے پرورش کی_ حضرت اشرف بڑے ذہین اور ذکی تھے_ سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا اور ہفت قرات سے قرآن مجید پڑھتے تھے_ چودہویں برس میں تمام علوم  حدیث تفسیر، ادب ،فلسفہ کلام اور منطق وغیرہ سے فارغ التحصیل ہو گئے_ صغر سنی سے درویشوں اور عارفوں کی خدمت  میں حاضری اور حصول فیض کا شوق تھا_ شیخ علاء الدولہ سمنانی سے باطنی نعمتیں اور برکتیں حاصل کرتے تھے_

سمنان کی بادشاہت

جب سن 15 سال کا ہوا، والد بزرگوار نے وفات پائی_ پورے خاندان میں آپ کی قابلیت و صلاحیت کا ڈنکا بج چکا تھا_ والد محترم کی وفات کے بعد تمام ارکان دولت و اعیان سلطنت نے بالاتفاق آپ کو تخت حکومت پر بیٹھایا_ آپ کے دور حکومت میں تمام بلاد اسلامیہ میں علوم و فنون کے لحاظ سے خطہ سمنان کو ایک اہم مقام حاصل ہوا_ وحید العصر علماء ،صلحاء، فقہاء اور مشائخ و مبلغین اسلام پیدا ہوئے_ متعدد کتب بے بہا تالیف ہوئیں_ قرآن، حدیث، فقہ، علم نجوم اور علم ہیئت میں افاضل روزگار پیدا ہوئے_ آپ نے اپنے دور میں عدل و انصاف کا دریا بہا دیا_ رعایا پروری اور عدل و انصاف کا ایسا شہرہ ہوا کہ شاہان اطراف رشک کرتے تھے_ آپ کے دور حکومت میں پوری سلطنت امن و امان کا گہوارہ بنا ہوا تھا_

ترک سلطنت

بچپن ہی سے آپ کو علماء و مشائخ کی صحبت  پسند تھی_ یہی وجہ ہے کہ آپ کا دربار علماء و مشائخ سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا_ ہمیشہ درس و تدریس، پند و نصائح اور تصفیہ قلوب کا ماحول ہوتا تھا_ دوران سلطنت ایک بار حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت سے سرفراز ہوئے_ انھوں نے بحکم الٰہی کچھ اوراد و وظائف کی تعلیم دیا_ دو سال تک ان کی تعلیم پر عمل کیا_ روز بروز  اس کے فوائد ظاہر ہونے لگے_ دو برس تک اس شغل کی مداومت کے بعد حضرت خواجہ اویس قرنی کی روح پاک کی زیارت نصیب ہوئی_ اور انھوں نے اذکار اویسیہ تعلیم کیے_  تین سال اذکار اویسیہ پر عمل پیرا رہے_   ہرچند ان اذکار و افکار سے فیوض و برکات حاصل ہوتے تھے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ کوئی مرشد ظاہری بھی ہونا چاہیے جن کے دست حق پرست پر بیعت کی جائے_ مدت سلطنت دس برس ہو چکی تھی اور سنن مبارک پچیس سال کا تھا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری عشرہ میں ستائیسویں شب کو حضرت خضر علیہ السلام دوبارہ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ اشرف تمہارا کام پورا ہوگیا اگر دارین کی سعادت اور مملکت لامتناہی چاہتے ہو تو بادشاہی چھوڑو اور ملک ہند کی طرف کوچ کرو_ وہاں ایک بزرگ شیخ علاءالدین گنج نبات ہیں جو تانبے کو کندن بنا دیں گے_
یہ کلمات بشارت ارشاد فرما کر حضرت خضر نظر سے غائب ہو گئے_ صبح کی سفیدی نمودار ہوئی_ حضرت نے ترک سلطنت کرکے تخت شاہی پر اپنے چھوٹے بھائی محمد اعرف کو بیٹھایا ۔سفر کی اجازت کے لیے والدہ ماجدہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے_ ماں اپنے وقت کی رابعہ بصریہ تھیں انہوں نے فرمایا کہ اے فرزند تیری ولادت سے پہلے حضرت خواجہ احمد بسوی نے مجھ کو بشارت دی تھی کہ تجھ کو ایسا بیٹانصیب ہوگا کہ آفاق اس کے خورشید ولایت سے منور ہو جائے گا۔میں تجھ کو خدا کے سپرد کرتی ہوں؛ لیکن میری وصیت ہے کہ تم شہر سے شاہانہ کروفر اور شان و شوکت کے ساتھ نکلو۔۔حضرت سمنان سے روانہ ہوئے  تو بارہ ہزار سوار اور پیادے ہمرکاب تھے تین منزل تک  ان کو ساتھ لائے، اس کے بعد سے ہر منزل پر تھوڑی تھوڑی فوج واپس کرنا شروع کی_ آہستہ آہستہ سب کو واپس کردیا_ صرف دو معتقد صادق، ساتھ رہے_ سمر قند پہنچ کر ان دونوں کو بھی چھوڑ کر تن تنہا طلب حق میں نکل گئے_

ہندوستان کا سفر
   
             سمرقند سے نکل کر دشوار گزار راستوں، سنگلاخ چٹانوں، فلک بوس پہاڑوں اور لق دق مہیب جنگلات کو عبور کرکے شہر اوچ (ملتان) پہنچ کر حضرت مخدوم جہاں گشت سید جلال بخاری رحمۃ الله تعالیٰ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔اس کے بعد زیارت حرمین شریفین تشریف لے گئے اور عرب کے مشائخ سے استفادہ کیا۔چودہ خانوادوں سے خلافت حاصل کی۔۔۔زیارت حرمین شریفین کے بعد دوبارہ شہر اوچ ( ملتان) حضرت مخدوم جہاں گشت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اکتساب فیض کیا۔حضرت مخدوم جہاں گشت نے تین ہی شب میں  اسرار و رموز اور وہ تمام تجلیات عطا کردی جو ان کے پاس تھی اور فرمایا کہ زیادہ توقف مناسب نہیں۔میرے بھائی علاء الدین منتظر ہیں۔درگاہ مقصود تک رسائی سے پہلے کہیں اقامت نہ کرنا

غرض تمام تر باطنی نعمتوں سے سرفراز ہوکر حضرت پیادہ پا روانہ ہوئے۔منزل بہ منزل سفر کر تے ہوئے دہلی پہنچے۔ وہاں ایک یوسف صورت نوجوان سے ملاقات ہوئی جو اس وقت دہلی کے صاحب ولایت تھے انہوں نے کہا کہ اشرف خوب آئے مگر خبردار راستے میں اقامت نہ کرنا۔ میرے بھائی علاؤالدین تمہارے منتظر ہیں۔۔۔مراحل بہ مراحل چلتے چلتے قصبہ پنڈوہ کے قریب پہنچے جو بنگال میں واقع ہے۔پنڈوہ شریف میں پہلے ہی سے حضرت شیخ علاء الدین گنج نبات ،سید اشرف جہانگیر کے قدوم میمنت لزوم کے منتظر تھے کیوں کہ شیخ علاء الدین کو حضرت خضر علیہ السلام ستر مرتبہ مخدوم پاک کے آنے کی خبر اور شرف بیعت سے مشرف کرنے کا حکم دے چکے تھے۔شیخ علاء الدین صحیح النسب ہاشمی علم و فضل میں بے نظیر تھے


پنڈوہ شریف میں آمد اور بیعت و خلافت

حضرت مخدوم اشرف ابھی راہ میں تھے اور بار سفر برداشت کر رہے تھے تقریبا دو برس سمنان سے پنڈوہ تک سفر میں گزر چکے تھے کہ شیخ علاءالدین گنج نبات نے اپنے اصحاب کو بشارت دی کہ میں دو سال سے جس دوست کے انتظار میں تھا وہ امروز فردا میں آنے والا ہے۔ چند ہی روز کے بعد ایک دن قیلولہ کر رہے تھے کہ یکبارگی خواب سے چونک پڑے اور حجرہ  سے یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ دوست کی خوشبو آتی ہے محفہ  اور سکھ پال جو شیخ  اخی سراج الدین علیہ الرحمہ نے عنایت کیا تھا ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل پڑے۔ شہر میں غوغا ہوا کے صاحب مقام ، کسی عزیز کے استقبال کے لیے باہر جا رہے ہیں ۔چھوٹے ،بڑے ،پیادہ اور گھوڑ سوار باہر نکلے اور شہر سے باہر استقبال کے لیے جمع ہوگئے۔ ایک درخت کے نیچے حضرت مرشد اپنے اصحاب کے ساتھ منتظر تھے کہ مسافروں کی جماعت دور سے آتی ہوئی نظر آئی۔ خادم کو استفسار حال کے لیے مسافروں کی طرف دوڑایا گیا۔ وہ جواب لایا کہ  سمنان کے رہنے والے ایک صاحب بنام اشرف ہیں۔ جن کی صورت بڑی نورانی ہیں ۔یہ سن کر  مرشد کو بڑی خوشی ہوئی اور چند قدم آگے بڑھے ۔جذب خاطر نے ادھر بھی اثر کیا ۔حضرت سید اشرف دوڑتے ہوئے آئے اور شیخ کے قدموں پر سر رکھ دیا۔مرشد نے سر پاؤں سے اٹھایا اور جھک کر بغل گیر ہوئے۔ تھوڑی دیر کنار عافیت میں لینے کے بعد اپنے اصحاب سے تعارف کرایا۔ ملاقات سے فراغت ہوئی تو سید مؤدب ہو کر دو زانو بیٹھ گئے اور عرض کی
چہ خوش باشد کہ بعد از انتظارے 
  بہ امیدے رسد امید دارے

مرشد نے فرمایا کہ جس روز سے تم اپنے گھر سے نکلے ہو،میں منزل بمنزل تمہارا نگراں رہا ہوں۔ الحمدللہ کہ مجاہدہ ،مشاہدے سے تبدیل ہوا۔ اب تم میرے محفہ پر سوار ہو کرخانقاہ چلو ۔۔حضرت نے ازراہ انکسار عرض کی " "خواجہ سوار اور بندہ بھی سوار" مرشد نے اصرار کیا تو  مجبوراً محفہ  پر سوار ہوئے اور حضرت کے ہمراہ چلے۔جب خانقاہ عالم پناہ نظر آئی تو بے اختیار سواری سے کود پڑے ۔حضرت نے پھر بغل میں لیا اور خانقاہ لے جا کر اپنے پہلو میں جگہ دی۔دستر خان لگا گیا ۔جس پر انواع و اقسام کے کھانے تھے۔مرشد بر حق نے اول چار لقمے اپنے مبارک ہاتھ سے حضرت سید مخدوم کے منہ میں رکھے، جن کو آپ نے بڑی تعظیم سے تناول کیا ۔آخر میں پن بھتہ کھلایا گیا بعد ازیں مرشد برحق نے خود اپنے ہاتھ سے  پان کے بیڑے یکے بعد دیگرے چار مرتبہ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر علیہ الرحمہ کو کھلایا_

شرب و طعام سے فراغت کے بعد بیعت کے لیے اشارہ کیا خدام ہٹ گئے اور جو طریقہ بیعت کا سرکار میں مروج تھا اس کے مطابق کیا اور اپنی کلاہ مبارک حضرت سید مخدوم کے سر پر رکھ دی۔ حاضرین مجلس نے مبارک باد دی۔ مرشد اپنے مرید جدید کوحجرے کے اندر لے گئے اور اسرار وحدت سے آگاہ کرکے خود باہر نکل آئے_ مرید کو تنہا حجرے میں چھوڑ دیا اور ایک پہر کے  بعد اندر تشریف لے گئےتودیکھا کہ مرید، خم وحدت سے مست ہے اور عجیب و غریب حال طاری ہے ۔مرید کا ہاتھ پکڑ کر باہر لائے_ چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا تھا۔ مرشد نے اپنے پہلو میں بیٹھا یا۔اور زاویہ حرم سے اپنے مشائخ کے تبرکات باہر لائے۔تمام  اصحاب کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگ خبردار ہو کہ یہ امانت برسوں سے میرے پاس تھی ۔اب اس کا مستحق  آگیا ہے تو میں اس کے سپرد کرتا ہوں ۔اصحاب نے عرض کی کہ حضرت مرشد مختار ہیں ۔تب آپ نے سلطان المشایخ حضرت نظام الدین اولیاء کا خرقہ جو انہوں نے اخی سراج الدین علیہ الرحمہ کو دیا تھا اور انہوں نے شیخ علاؤ الدین گنج نبات کو پہنایا تھا آپ نے حضرت سید کو عنایت فرمایا ۔اس کے علاوہ اور بھی تبرکات مشائخ عطا ہوئے۔ایک مرتبہ ستائیسویں رمضان کا جو لیلۃ القدر سے مشہور ہے حضرت جہانگیر مرشد کی خدمت میں بیٹھے تھے اور سخنان معارف اصرار کر رہے تھے  کہ مرشد کی زبان مبارک پر آیا" فرزند اشرف ! میں نے اپنی استعداد بھر تعلیم کردی اور ہدایت کا رو، نہایت اسرار سے جو درکار تھا بتلا دیا خدا یہ دولت سب کو نصیب کرے"

جہاں گیر کا خطاب

چار سال بعد مرشد برحق نے فرمایا کہ سید کے لئے کوئی لقب ہونا چاہیے ۔ القاب آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ جو حکم ہوگا وہی لقب مقرر کیا جائے گا ۔مرشد نے پندرہویں شعبان کی مبارک شب میں وظائف سے فارغ ہوکر خلوت گاہ میں مراقبہ کیا ۔صبح ہوتے ہی در و دیوار سے آواز آنے لگی "جہانگیر" "جہانگیر "مرشد نے کہا الحمدللہ اشرف کو جہانگیری کا خطاب ملا۔اس وقت سید اپنے حجرے میں مشغول بحق تھے۔جب نماز صبح کے لیے باہر آئے ۔باجماعت نماز ادا کی اور خانقاہ کے دستور کے مطابق سب اصحاب سے مصافحہ کیا تو ہر شخص کی زبان پر تھا کہ خطاب جہانگیری مبارک ہو۔۔


پیر و مرشد کی تعظیم و احترام

حضرت مخدوم جہاں گیر اپنے پیر و مرشد سے بڑی سچی عقیدت رکھتے تھے ۔پیر و مرشد کی خانقاہ میں قیام کے دوران بارگاہ ایزدی میں بلند پایہ ہونے کے باوجود بھی، کبھی کبھی خانقاہ میں جاروب کشی کرتے تھے۔اور ان کے ادب کا حال یہ تھا کہ بیعت کے دن  سے سفر آخرت کے وقت تک پنڈوہ شریف کی طرف پیر نہیں پھیلائے۔ اور نہ اس سمت تھوکا۔ اگرچہ بعض اوقات وہ دو ہزار کوس کے  فاصلہ پر ہوتے تب بھی یہ احتیاط ملحوظ رکھتے تھے۔تقریبا بارہ برس پیر ومرشد کی بارگاہ میں متفرق اوقات میں حاضر رہے لیکن اس مدت میں شہر کے اندر پیشاب پاخانہ نہیں کیا۔حاجت کے وقت بستی سے باہر چلے جاتے تھے۔ایک دن اپنے اصحاب کے ساتھ سیر کر رہے تھے۔ اچانک آپ کی نظر ایک کتے پر پڑی ۔فرمایا کہ غالبا یہ وہی کتا ہے جو میں نے حضرت پیر و مرشد کے آستانہ پر دیکھا تھا۔ بڑی محبت سے پاس بلایا ۔جائے مقام تک ساتھ لے گئے ۔اور وہاں اپنے دامن پر رکھ کر کچھ کھلایا تب رخصت کیا_

جونپور کی ولایت اور مقام مرقد کی تعیین

خدمت مرشد میں 4 برس پورے ہو چکے تھے کہ ایک روز ارشادہوا ،فرزند اشرف ! مثل مشہور ہے کہ دو شیرایک جنگل میں نہیں رہ سکتے ۔اور دوتلوار ایک نیام میں نہیں رہتی ۔مناسب ہے کہ تمہارے لیے کوئی اور مقام تجویز کیا جائے۔ تاکہ اہالی روزگار تم سے مستفید ہوں اور گم گشتگان ضلالت کی تم سے ہدایت ہو۔سید مخدوم اشرف جہانگیر با ادب ہو کر غریب الوطن کی بنیاد پر اعتذار پیش کیا لیکن مرشد حق نے اصرار کیا۔ دو سال تک یہ اصرار و اعتذار ہوتا رہا ۔آخر کار مرشد نے فرمایا کہ جدائی میں ایک حکمت ہے جس سے تم مطلع نہیں ہو ۔اور تم کو اس حکم پر راضی ہونا چاہیے۔ بچوں کو عہد شیر خوارگی کے بعد دودھ پلانا زہر کی خاصیت رکھتا ہے۔مجبورا حضرت سید مخدوم نے سر تسلیم خم کیا۔مرشد نے ولایت جونپور سپرد کی۔اور قرار پایا کہ رمضان المبارک ختم ہونے کے بعد سفر کا آغاز ہو۔


رخصت کے وقت ہادی طریقت نے بشارت دی کہ تم کو مرتبہ غوثیت عطا ہوگا۔حضرت کو وہ مقام بھی بتلایا جہاں ان کا مدفن مبارک ہو گا۔ حضرت کو بنظر کشفی  دکھایا کہ ایک گول  تالاب ہے اور اس کے درمیان نقطہ تل کے برابر ہے اور جس جگہ یہ تل ہے وہی تمہاری منزل خاک ہے ۔

روح آباد (کچھو چھہ شریف) میں آمد

پنڈوہ شریف سے رخصت ہو کر حضرت جونپور پہنچے۔ تو اسی مقام کی جستجو شروع کی جو بنظر کشفی مدفن شریف کے لئے دکھایا گیا تھا ۔اپنے اصحاب کو ساتھ لے کر اودھ کی سمت کوچ کیا ۔کئی مقامات دیکھے لیکن وہ جگہ نہ ملے یہاں تک کہ موضع بھڈوڈ ( موجودہ کچھو چھہ شریف) میں پہنچے۔ ملک محمود وہاں کے زمیندار،  ملازمت کے لیے آئے۔ ان کے حال پر بہت عنایت فرمائی اور ان کے ہمراہ مقام مدفن کی تلاش میں نکلے۔ ایک گول تالاب نظر آیا ۔جس کو دیکھ کر حضرت نے فرمایا کہ مجھ کو پیر ومرشد نے یہی جگہ دکھائی تھی۔ ملک محمود نے عرض کی  کہ یہ قطعہ اراضی بہت پر فضا ہے۔چاروں طرف پانی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہاں ایک جوگی رہتا ہے اگر اس سے مقابلہ کی طاقت ہو تو قیام ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔۔۔

جوگی سے مقابلہ اور مشرف بہ اسلام ہونا

جب حضرت کو علم ہوا کہ مقام مدفن  پر ایک جوگی کا قیام ہے تو آپ نے فرمایا "قل جاءالحق و زهق الباطل ان الباطل كان زهوقا"" بے دینوں کی جماعت کا ہٹانا کیا دشوار ہے۔ آپ نے ایک خادم کو حکم دیا کہ اس جوگی سے کہو کہ یہاں سے چلا جائے۔

         جوگی نے جواب بھیجا کہ میرے ساتھ 500 چلے ہیں ۔مجھ کو قوت ولایت سے  ہٹا دے تو خیر ورنہ مجھ کو نکالنا آسان نہیں ہے۔ ایک صاحب جمال الدین اسی دن مرید ہوئے تھے۔ آپ نے ان سے کہا کہ تم جاؤ اور اس کے استدراج کا جواب دو۔ جمال الدین کو تامل ہوا۔آپ نے  پاس بلایا اور اپنے منہ سے پان نکال کر دست مبارک سے ان کے منہ میں رکھ دیا ۔اس پان کے کھاتے ہی جمال الدین پر ایک عجیب حالت طاری ہوگئی ۔اور وہ دلیری سے مقابلہ کے لیے چلے۔ جوگی سے جاکر کہا کہ ہم لوگ لوگ کرامت کا اظہار مناسب نہیں سمجھتے ۔لیکن تمہارے ہر ایک استدراج کا جواب دیں گے ۔جوگی نے سب سے پہلے یہ شعبدہ دکھلایا  کہ ہر طرف سے کالی چیو نٹیوں  کا انبوہ جمال الدین کی طرف بڑھا۔جمال  نے ان کی طرف نگاہ کی تو وہ غائب ہوگئیں ۔اس کے بعد شیروں کا لشکر نمودار ہوا ۔ جمال نے کہا کہ شیر میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ سب بھاگ گئے۔ مختلف  شعبدہ بازیوں کے بعد جوگی  اپنی لکڑی ہوا میں پھینکی۔ جمال نے حضرت کا عصا منگا کر ہوا میں اڑا یا۔وہ عصا اس لکڑی کو مار مار کر نیچے اتار لیا۔جوگی سب حیلو سے عاجز سے ہوا تو عرض کی مجھ کو حضرت کے پاس لے چلو۔ میں ایمان لاوں گا ۔جمال الدین ہاتھ پکڑ کر لائے ۔ اور حضرت کے قدموں پر گرا دیا ۔ آپ نے کلمہ شہادت کی تلقین کی۔ اسی وقت سب چیلے مسلمان ہوئے اور اپنے مذہب کی کتابیں جلا ڈالیں۔ حضرت نے تالاب کے کنارے  ایک جگہ اس کو عنایت فرمائی۔ اور اپنے طریقہ کے مطابق ریاضت و مجاہدات میں مشغول کر دیا ۔ سب اصحاب کو جگہ تقسیم کی تاکہ ہر ایک اپنے لئے جداگانہ حجرہ بنا لے۔ ملک محمود نے چند ہی روز میں حضرت کے لیے وہی خانقاہ بنوا دی اور اپنی اولاد اور خدام کو مرید کرایا۔گردو نواح کے سادات بھی حاضر ہوکر حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔تین سال میں وہ تختہ، گلزار ہوگیا۔اس علاقہ کا نام حضرت نے روح آباد (کچھوچھہ شریف )رکھا۔



منصب غوثیت

سنہ 770ھ میں پہلی بار گلبرگہ تشریف لے گئے۔وہاں پر آپ کے حکم سے آپ کے لئے مضبوط خیمہ نصب کیا گیا۔۔آپ کو تنہائی زیادہ پسند تھی اس لیے رات کے وقت سوائے نورالعین ( آپ کا روحانی بیٹا جو آپ کے بعد آپ کا سجادہ نشین ہوئے) اور چند بہت مخصوص مرید کے علاوہ کسی کو خیمہ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔ایک رات حقائق و معارف بیان کرنے کے لیے نورالعین سمیت چند مخصوص مریدوں کو بلایا ۔یکا یک حضرت پر ایسا عجیب و غریب اضطراب و انقلاب پیدا ہوا کہ  اس کی شرح بیان نہیں ہو سکتی۔تمام مریدین خوف زدہ ہوکر خیمہ سے باہر ہوگئے۔تقریبا ایک پہر تک یہی مستی کی کیفیت رہی۔۔اس کے بعد ہوش میں آگئے۔اور فرمایا کہ""الحمد لله میسر آمد"" مخصوص میریدین یہ الفاظ سنے لیکن تحیر و تفکر میں تھے کہ اس اس عجیب کیفیت کا کیا باعث تھا اور شکر نعمت کا کیا مفہوم ہے ؟یہ کسی کو قدرت نہ تھی کہ حضرت سے اضطراب کا سبب پوچھے۔ مگر نور العین نے ہمت کرکے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ آج یکم رجب المرجب 770ھ ہے ۔غوث زمانہ جن سے میری ملاقات جبل الفتح میں ہوئی تھی آج دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اکابر روزگار اور اقطاب نامدار میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ منصب اور عہدہ ان کو ملے۔لیکن حق تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اس حقیر فقیر کے سر پر عزت کا تاج رکھا۔ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم.. اس شفقت و مرحمت سے نصب و عزل اور رحلت روزگار، فقیر کے سپرد ہوئی۔غوث کی نماز جنازہ  کی امامت، ہمیشہ غوث ہی کرتا ہے لہذا میں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو دفن کیا تمام اصحاب اس نوید جانفزا سے خوش ہوئے اور بصد آداب مبارکباد عرض کی۔۔حصول  نعمت سے چند روز بعد گلبرگہ سے کوچ کیا اور روح آباد (کچھوچھہ شریف) تشریف لائے_

کرامات

حضرت مخدوم جہانگیر نےجب روم تشریف لے گئے اس وقت  مولانا جلال الدین رومی کے سجادے پر سلطان ولد کے صاحبزادہ جلوہ فرما تھے۔  حضرت نے ایک خانقاہ میں اقامت فرمائی۔ صاحبزادہ نے حضرت کی ضیافت کی اور بعض مشائخ کو بھی مدعو کیا۔۔۔۔۔اس عہد کے شیخ الاسلام روم بڑے دانشمند اور فاضل تھے۔ لیکن حضرت کی طرف سے ان کا عقیدہ فاسد تھا ایک روز صاحب سجادہ کی یہاں دعوت تھی ۔شیخ السلام نے ارادہ کیا کہ سید سمنانی مجلس میں آئے تو ان سے ایسا مشکل مسئلہ پوچھا جائے کہ وہ حل نہ کر سکے۔ مگر حضرت کے قدم مبارک دروازے تک پہنچے تو ان کو نظر آیا کہ ایک صورت، حضرت سے مشابہ ،جسم مبارک سے نکلی اور اسی شکل  سے دوسری شکل پیدا ہوئی۔ یہاں تک کہ تقریباً ایک سو صورتیں حضرت کے مماثل اس مجلس میں نمودار ہوگئیں۔آپ نے شیخ الاسلام سے پوچھا کہ ان صورتوں میں سے کس صورت سے مسئلہ پوچھنا منظور ہے ‌۔ یہ بات سنتے ہیں شیخ الاسلام بدحواس ہو گئے اور بے اختیار حضرت کے قدموں پر گر پڑے مخدوم زادہ سے معذرت کے لیے سفارش چاہی۔ حضرت نے فرمایا کہ مخدوم زادہ کے خاطر معاف کرتا ہوں ۔لیکن خبردار آئندہ کسی صوفی کی برائی نہ کرنا_

 شکست خوردہ لشکر کی مدد

ایک روز بلخ کی مسجد میں چند درویش حاضر خدمت تھے۔ ناگہاں حضرت نے اپنا عصا اٹھایا۔اور چند بار غصہ سے مسجد کی دیوار پر مارا ۔اصحاب کو اس حالت پر بڑی حیرت ہوئی ۔جب وہ کیفیت فرو ہوگئی تو نور العین نے غصہ کا سبب  پوچھا۔ تامل و تفکر کے بعد فرمایا کہ اس وقت دریا کے کنارے موصل کے میدان میں جنگ ہو رہی تھی اور اس لڑائی میں میرا ایک رومی میریدشریک  تھا۔ اس نے مجھ سے مدد طلب کی تو مجھ کو اس کے دستگیری کرنی بڑی ۔حق  تعالی نے اس مرید کے لشکر فتح عنایت کی اور دشمن کے سوسوار کام آئے ۔بعض حاضرین نے اس واقعہ کی تاریخ لکھ لی۔ چند روز بعد ایک زخمی سپاہی اس طرف آیا اور اس نے بیان کیا کہ بعینہ وہی واقعہ گزرا تھا جو حضرت نے بیان کیا تھا۔



بلی کو معارف و حقائق کے منازل طے کرادیا


ایک دن حضرت شیخ سید مخدوم اشرف کے مرید قاضی رفیع الدین ساکن اودھ کے دل میں خطرہ آیا کہ اگلے وقت میں ایسے بزرگ ہوتے تھے کہ ان کی نظر کا اثر جانوروں اور پرندوں پر بھی سرایت کر جاتا تھا ۔ معلوم نہیں ایسا کوئی بزرگ اس زمانے میں ہے یا نہیں ؟حضرت اس خطرہ سے آگاہ ہو گئے .اور مسکرا کر فرمایا کہ: " شاید ہو"  کمال جوگی کے پاس ایک بلی تھی۔ جو کبھی کبھی حضرت کے سامنے سے گزرتی تھی۔ حضرت نے حکم دیا کہ کمال جوگی کی بلی  لاؤ۔جب وہ بلی سامنے لائی گئی ،تو حضرت نے معارف و حقائق کا بیان شروع کیا۔رفتہ رفتہ حضرت کے چہرہ مبارک پر ایسا تغیر ہوا کہ اصحاب خوف زدہ ہو گئے۔ بلی نے تقریر سنی اور اس پر اتنی تاثیر ہوئی کہ ایک پہر تک بے  ہوش پڑی رہی ۔جب ہوش آیا تو حضرت کے قدم چومنے لگی اور سب اصحاب کے قدموں پر لوٹتی تھی ۔اس کے بعد عادت بن گئی کہ جب حضرت اسرار اور رموز یزدانی بیان فرماتے تھے،تو مجلس شریف سے دور نہ جاتی تھی۔ خانقاہ میں مسافر آتے تو جس قدر تعداد مہمانوں کی ہوتی ،اتنے ہی بار بانگ دیتی تھی۔ جس کے خادموں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ آج اس قدر مہمان دسترخوان پر ہوں گے۔ تقسیم طعام  کے وقت بلی کو بھی سب اصحاب کے برابر حصہ دیا جاتا تھا ۔۔کبھی کبھی احباب کو بلانے کے لئے بھیجی جاتی تھی تو جس شخص کی طلب ہوتی اس کے گھر جاکر آواز درشت دیتی یا دروازہ کھٹکھٹاتی تھی اور وہ سمجھ جاتے تھے کہ حضرت نے طلب فرمایا ہے ۔ایک دن خانقاہ میں درویشوں کی جماعت وارد ہوئی ۔عادت کے موافق بلی نے بانگ دی۔ لیکن جب کھانا بھیجا گیا تو معلوم ہوا کہ ایک شخص کا حصہ کم ہے ۔حضرت نے بلی کی طرف التفات کرکے فرمایا کہ آج کیوں خطا ہوئی۔ بلی فورا باہر گئی اور اس جماعت کے سب درویشوں کو سونگھنا شروع کیا۔ جب سر حلقہ کی نوبت آئی تو اس کے زانو پر بیٹھی اور پیشاب کر دیا حضرت نے یہ معاملہ دیکھ کر فرمایا کہ بے چاری بلی کا کچھ قصور نہیں۔یہ مرد بیگانہ ہے۔ سر حلقہ فورا حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور عرض کی کہ میں دہریہ ہوں ۔ 12 برس سے لباس اسلام پہنے ہوئے دنیا کا سفر کرتا تھا ۔میری  یہ نیت تھی کہ میرا نفاق کوئی صوفی یا عالم پہچان لے  تو اسلام قبول کرلوں گا ۔آج تک میرے بھید سے کوئی آگاہ نہ ہو سکا تھا۔ اس بلی نے یہ راز فاش کر دیا۔میں آج ہی اسلام قبول کرتا ہوں ۔وہ شخص مشرب بہ اسلام ہوکر حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی بدولت مرتبہ ولایت پر فائز ہوگیا۔
الٹے ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق
آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لیے 



بلی کی شہادت

حضور کے خاص  مرید کمال جوگی کی بلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت کے وصال تک وہ بلی  زندہ رہی۔ ایک دن خانقاہ  میں شیر برنج پکانے کے لئے دودھ کی دیگ آگ پر رکھی گئی۔ اتفاق سے ایک سانپ دیگ میں گرپڑا ۔بلی نے دیکھ لیا ۔وہ دیگ کے ارد گرد گھومتی رہی اور اس جگہ سے نہ ہٹتی تھی ۔کئی بار بانگ دی لیکن باورچی نہیں سمجھا اور بلی کو مطبخ سے باہر کردیا۔  جب اس نے دیکھا کہ باورچی کسی طرح ہوشیار نہیں ہورہاہے  تو دیگ میں کود پڑی اور جان دے دی۔ مجبورا شیربرنج پھینکی گئی تو کالا سانپ برآمد ہوا ۔سجادہ نشین نے کہا کہ اس بلی نے اپنی جان درویشوں پر قربان کر دی۔اس کی قبر بنائی جائے چنانچہ روزہ مبارک کے قریب دفن کی گئی اور اس پر عمارت بنائی گئی۔

اس کے علاوہ حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ رحمۃ الله تعالیٰ کی بے جن کو بخوف طوالت چھوڑ رہا ہوں۔ 



وصال::::::::::::::::::::::::::::

حضرت نے محرم کا چاند دیکھا اور حضرت نے افسوس کا  اظہار فرمایا اور کہا کہ یہ میرے جد امجد کا مہینہ ہے۔اگر موافقت نصیب ہو تو کیا خوب ہے حضرت نور قطب عالم کی دعا صحت کے بعد فرمایا کہ درازی عمر اور صحت نورالعین کو آتا ہوں ۔میرے اور خدا کے درمیان ایک خفیف سا پردہ ہے۔ مناسب ہے کہ دوست ،دوست سے مل جائے۔۔نصف محرم سے آپ کی طبیعت علیل رہنے لگی ۔بے شمار لوگ آپ کی عیادت کو آنے لگے۔ سب کے حق میں آپ نے دعائے خیر فرمائے۔  اسی دوران رسالہ قبریہ بھی تصنیف فرمایا۔ 27 محرم کو نماز فجر کی امامت نورالعین کو سپرد کی ۔28 محرم کو تبرکات کا بقچہ حضرت نورالعین کے حوالے کیا۔ اور فرمایا کہ میری وفات پر قطعی غم نہ کرو۔اگر مجھ کو یاد کرو گے تو مجھ کو اپنے قریب پاؤ گے۔۔ظہر کی نماز کے بعد قوالوں کو شیخ سعدی کے چند اشعار سنانے کی فرمائش کی اور جان اللہ کے سپرد فرمائی۔رحمۃ الله تعالیٰ علیہ۔


روضہ مبارکہ کی عظمت و رفعت:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

روضہ مقدس کی تعمیر کا کام غوث العالم کی حیات مبارکہ ہی میں ملک الامراء  حضرت ملک محمود رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تعمیر کا کام اپنے ذمہ لیا۔روضہ کے اوپر ایک حجرہ تیار کیا گیا۔جس کا نام وحدت آباد رکھا گیا۔تین طرف نیر شریف کی کھدائی کی گئی۔پھاوڑے کی ہر ضرب پر کلمہ طیبہ لاالہ الا الله پڑھا جاتا تھا۔سات مرتبہ نیر شریف میں آب زمزم ڈالا گیا۔یہ پانی پاگل ،مسحور ،آسیب زدہ کے لیے آب حیات کا کام کرتا ہے۔حضرت عبد الرحمٰن چشتی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں"" آب آں حوض ہرگز کندہ نمی شود و آسیب زدہ را شفا یابد""ترجمہ:: اس حوض  کا پانی کبھی گندہ نہیں ہوتا، اس سے آسیب زدگان شفا پاتے ہیں ۔( حیات غوث العالم از سید موصوف اشرف)

حضرت شاہ وجیہ الدین امبیٹھوی بحر زخار کتاب میں فرماتے ہیں کہ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا ہے کہ "" ہر کس کہ بر سر مرقد من از روئے اخلاص خواہد آمد،ہرگز بے بہرہ نہ خواہد رفت"" ترجمہ: وہ شخص جو میرے مرقد پر از روح اخلاص آئے گا ہرگز محروم واپس نہیں جائے گا۔



حضرت مخدوم پاک کی  تصنیفات و تالیفات::

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مخدوم پاک غوث العالم صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔ آپ کے قلم پاک سے جو جو تحریری کارنامے معرض وجود میں آئیں وہ مختلف عناوین پر بکھری ہوئی ہیں جو نہ صرف صوفیاء بلکہ ہر شعبہ کے  صاحب فہم و فراست کے لیے سند اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔حق تعالیٰ نے علم لدنی کے دروازے آپ پر کھول دیئے تھے ۔تصنیفات کے ساتھ ساتھ خدمت خلق اور لوگوں کو صحیح عقائد اور دین اسلام میں داخل کرنا آپ کا مطمح نظر تھا۔آپ کی زیادہ تر تصانیف سفر میں رقم ہوئی ہیں۔ سفر میں کتب خانہ ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ مطالعہ بہت وسیع تھا۔ طرزاستدلال بڑا عالمانہ محققانہ مدبرانہ تھا۔مشکل اشعار اور ایراد و اشکال کی عقدہ کشائی بڑے عالمانہ و احسن ڈھنگ سے کرتے تھے۔

       حضرت سید اشرف جہانگیر قدس سرہ نے اپنی حیات میں اپنی تصنیفات و تالیفات پر مشائخ کرام سے بحثیں کی ہیں۔ اور اپنے منفرد انداز میں دلائل و براہین سے ان کو قائل بھی کیا ہے ۔آپ کی تصانیف  میں بیشتر رسائل ہیں۔ آپ کا قلم،  علم کے ہر میدان میں جولاں نظر آتا ہے ۔خاص طور پر علم تصوف میں حضرت نورالعین کی فرمائش پر فتاوی اشرفیہ تصنیف کی۔فصوص الحکم کی شرح لکھی۔قواعد العقائد عربی میں دوران قیام مکہ لکھی۔شیخ شہاب الدین سہروردی کی مشہور کتاب عوارف المعارف کی شرح لکھی۔اشرف الفوائد گجرات میں تالیف فرمائی وغیرہ۔
تصانیف کی فہرست حسب ذیل ہے::
(1) مکتوبات اشرفی۔(2) اشرفیہ،رسالہ نحو عربی (3) ہدایہ پر حاشیہ (4)  اصول فقہ (5) شرح فصوص الحکم (6) شرح عوارف المعارف،لطائف اشرفی،قواعد القواعد،بحر الانساب،بحر الاذکار،اشرف الفوائد ،بشار الذاکرین ،تنبیہ الاخوان ،ارشاد الاخوان ،حجۃ الذاکرین ،تفسیر قرآن نور بخشیہ ،اوراد اشرفی،دیوان اشرف،مراۃ الحقائق ،رسالہ قبریہ ،رسالہ سماع،رسالہ وحدت الوجود ،رسالہ مناقب صحابہ ،رسالہ تجویزیہ وغیرہ ۔۔۔۔ان میں سے اکثر رسالے ناپید ہیں۔اکثر رسائل سفر میں لکھے گئے_

الله تعالیٰ ان کے صدقے ہم سب کو علم نافع ،فہم کامل ،عقل سلیم،رزق حلال اور دارین کی سعادت نصیب فرمائے آمین یارب العالمین

وما علینا الاالبلاغ
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم