مسجد میں مدرسہ قائم کرنا کیسا؟ Masjid men madrasa banana kaise?


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد کی چھت پر مدرسہ تعمیر کرنا کیسا ہے؟ 


الجواب اللھم ہدایت الحق والصواب:
صورت مستفسرہ میں پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ جو حکم مسجد کا ہے وہی چھت کا بھی ہے 

لہٰذا مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے مسجد میں مدرسے کی تعمیر جائز ہے, 
(١) تعلیم دینی ہو 
(۲) معلم سنی صحیح العقیدہ ہو, نہ وہابی وغیرہ بدین کہ وہ تعلیم کفر و ضلالت کرے گا
(٣) معلم بلا اجرت تعلیم دے کہ اجرت سے کار دنیا ہو جائے گا 
(۴) ناسمجھ بچے نہ ہوں کہ مسجد کی بے ادبی کریں
(٥) جماعت پر جگہ تنگ نہ ہو کہ اصل مقصد مسجد جماعت ہے 
(٦) غل شور سے نمازی کو ایذا نہ پہنچے 
(۷) معلم خواہ طالب علم کسی کے بیٹھے سے قطع صف نہ ہو,
ان شرائط کا اگر وثیقہ لکھا جائے کیا مضائقہ ہے بلکہ بہتر ہے وہ تحریر کہ لکھنا چاہتے ہیں اس کی پہلی شرط ان میں کی چوتھی اور دوسری ان میں کی پہلی ہے اور تیسری کوئی خاص تعلیم کی نہیں مطلقاً ہے اس کا لکھا لینا بھی اچھا ہے گرمی کی شدت وغیرہ کے وقت جبکہ اور جگہ نہ ہو بضرورت معلم باجرت کو اجازت ہے مگر نہ مطلقاً, یوں ہی سلائی پر سینے والا درزی اگر حفاظت اور اس میں بچوں کو نہ آنے دینے کے لئے مسجد میں بیٹھے اور اپنا سیتا بھی رہے تو اجازت دی ہے یوں ہی غیر نماز کے وقت متعلمان علم دین کو تکرار علم میں رفع صوت کی حدیث میں فرمایا: 
" جنبوا مساجدا كم صبيناكم و مجانينكم " اپنی مساجد کو بچوں اور دیوانوں سے بچاؤ

(بحرالرائق میں ہے) 
" قالوا ولا يجوز أن تعمل فيه(اي في المسجد) الصنائع لانه مخلص الله تعالى فلا يكون محلا لغير العبادة غير إنهم قالوا في الخياط إذا جلس فيه لمصلحته من دفع الصبيان و صيانة المسجد لا باس به للضرورة و لا يدق الثوب عند طيه دقا عنيفا والذي يكتب ان كان باجر يكره و ان كان بغير اجر لا يكره قال في فتح القدیر هذا إذا كتب القران والعلم لانه في عبادة إما هو لاء المكتبون الذي يجتمع عند هم الصبيان والغلط فلا و لو لم يكن لغط لأنهم في صناعة لا عبادة اذهم يقصدون الاجارة ليس هو الله تعالى بل للارتزاق و معم الصبيان القران كا لكتاب إن كان لاجر لا وحسبة لا باس به "
فقہاء نے فرمایا کہ مسجد میں کوئی عمل جائز نہیں یعنی مسجد میں کوئی کاروبار جائز نہیں کیونکہ وہ خالصۃ اللہ تعالی کے لیے بنائی گئی ہوتی ہے تو اب وہ عبادت کے علاوہ کسی دوسری شے کا محل نہیں بن سکتی 

البتہ اس صورت میں مثلاً کوئی درزی وہاں اس لئے بیٹھ کر کام کرتا ہے کہ بچے داخل نہ ہوں اور مسجد کی حفاظت ہو, تو چونکہ یہ ضرورت کی وجہ سے ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بھی کپڑے کو لپٹتے وقت سخت آواز سے کپڑے کو نہ جھاڑے اسی طرح اگر وہاں کوئی لکھتا ہے اور اس کا معاوضہ لیتا ہے تو مکروہ ہے اور اگر معاوضہ نہیں لیتا تو مکروہ نہیں

 فتح القدیر میں ہے 
کہ یہ اس وقت ہے جب قرآن اور علم لکھ رہا ہو کیونکہ یہ عبادت ہے, لیکن یہ کتابت سکھانے والے لوگ جن کے پاس بچے اکٹھے ہوں اور شور ہوتا ہو وہ جائز نہیں اگرچہ عملا  شور نہ ہو کیونکہ یہ کاروبار ہے نہ کہ عبادت
وہ تو معاوضہ و اجر کی خاطر ہوتا ہے  نہ کہ اللہ تعالی کی رضا کے حصول کی خاطر, بلکہ یہ رزق کمانے کے لئے ہے, اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے والے کا حکم بھی کاتب کی طرح اگر معاوضہ کی خاطر ہے تو جائز نہیں اور اگر رضائے الہی کے لئے ہے تو کوئی حرج نہیں اھ,

 فتاوی خلاصہ میں 
" قبیل کتاب الحیض ہے: المعلم الذي يعلم الصبيان باجر إذا جلس في المسجد يعلم الصبيان لضرورة الحر و غيره لا يكره و في نسخة القاضي الإمام رحمة الله و في اقرار العيون جعل مسئلة المعلم كمسئالة الكاتب والخياط فإن كان يعلم حسبة لا بأس به و ان كان باجر يكره الا إذا وقع ضرورة "
وہ استاذ جو بچوں کو معاوضہ کے لیے پڑھاتا ہے اگر گرمی وغیرہ کی وجہ سے مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دے تو مکرو نہیں

 اور قاضی امام رحمۃ اللہ علیہ کے نسخہ اور اقرار العیون  میں مسئلہ معلم کو مسئلہ کاتب اور مسئلہ درزی کی طرح ہی قرار دیا گیا ہے کہ اگر وہ رضائے الہی کے لیے تعلیم دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اگر معاوضہ لیتا ہے تو مکروہ ہے_ 

البتہ اس صورت میں جائز جب ضرورت ہو

درمختار میں ہے:
" إذا ضاق فللمصلي ازعاج العاقد و لم مشتغلا بقراءة او درس "
 جب نمازی کے لئے جگہ تنگ ہو تو بیٹھے ہوئے آدمی کو اٹھا سکتا ہے خواہ وہ تلاوت میں مصروف ہو یا تعلیم دے رہا ہو,

 ردالمحتار میں ہے:
" اقول و كذا إذا لم يضق ولكم من قعوده قطع للصف "
میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا حکم ہے جس کے بیٹھنے کی وجہ سے صف منقطع ہو رہی ہو اگرچہ تنگی نہ ہو,

 درمختار، مکروہات و ممنوعات مسجد میں ہے_
" ورفع صوت بذكر الا للمتفقهة " ذکر بلند آواز سے کرنا منع ہے مگر اس شخص کے لئے جو فقہ کی تعلیم دے رہا ہو

ردالمحتار میں ہے :
" إلا أن يشوش جهرهم علي نائم او مصلي تو قارئ الخ،
 البتہ اس صورت میں بھی جائز نہیں جب ذکر بالجہر سے کسی سونے والے کی نیند کسی نمازی کی نماز یا تلاوت کرنے والے کی تلاوت میں خلل کا اندیشہ ہو,
 مناقب کردری میں ہے: 
" عن ابن عيينة قال مررت به(اي بالأمام رضي الله عنه) وهو مع أصحابه في المسجد قد ارتفعت اصواتهم فقلت يا أبا حنيفة هذا المسجد والصوت لا يرفع فيه فقال دعهم فإنهم لا يفقهون إلا به، "
 ابن عیینہ سے ہے کہ میں ان( امام رضی اللہ عنہ) کے پاس سے گزرا آپ شاگردوں کے ساتھ مسجد میں تھے لیکن ان کی آواز بلبند تھی میں نے کہا, اے ابوحنیفہ! یہ مسجد ہے اس میں آواز بلند نہیں ہونی چاہئے, فرمایا: ان کو چھوڑ دو 
کیونکہ دینی علوم کو اس آواز کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے, 

( فتاویٰ رضویہ شریف جدید ج (۸) ص (١١٦) مکتبہ دعوت اسلامی )

🌹واللہ و رسولہ اعلم بالصواب🌹
از: مولانا محمد راشد مکی صاحب قبلہ، گرام ملک پور کـٹیـہـار بہار
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم