Kiya murde salam ka jawab dete hain? کیا مردے سلام کا جواب دیتے ہیں؟




اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ قبر والے سنتے بهی ہیں اور زندوں کے حالات دیکھتے بهی ہیں_


قرآن اور احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں! 


  1. اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ"
(ترجمہ کنز الایمان) 
تو انہیں زلزلے نے ا ٓلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے، تو صالح نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی (پسند کرنے والے) ہی نہیں_

(پ 8،الاعراف:78۔79) 

"فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ"
ترجمہ:
تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم! میں تمہیں رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیونکر غم کروں کافروں کا_

(پ9،الاعراف:93) 

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں_

وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ  اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُون. 

اور ان سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے کیا ہم نے رحمان کے سوا کچھ اور خدا ٹھہرائے جن کو پوجا ہو.

 (پ25،الزخرف:45) 

گزشتہ نبی حضور ﷺ کے زمانے سے پہلے رخصت ہو گئے فرمایا جارہاہے کہ ان رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔اگر وہ نہیں سنتے تو ان سے پوچھنے کے کیا معنی
بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگوں کو مردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ ان کے جواب بھی سنتے ہیں_

احادیث نبوی ﷺ:

اللہ کے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردوں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں_

(صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر،الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) 

اور دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے_

(مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القدر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) 

اور دوسری میں ارشاد فرمایا:

إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ.

(شرح الصدور باب فضل الموت، ص۱۳) 

جب مسلمان مرتا ہے تو اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے_
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے_
 (تاریخ بغداد''، رقم:۳۱۷۵،ج۷،ص98-99) 

صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول ﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں تو یہ کہیں_

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ. 

(صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵.و''سنن ابن ماجہ''،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰.) 

اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور ان ان شاءﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم ﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں_
ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مدینہ میں قبور کے پاس سے گزرے تو ادھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا:

"اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ"

(''سنن الترمذي''،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹) 

اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،ﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں_
دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے_
(مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القدر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) 

امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قبر والوں کو سلام کرنا:

حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ''وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے_

(حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳) 

اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلند اس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصان خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا_

بدن کا صحیح و سالم رہنا:

شہادت کے بعد حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا مگر جس مقام پرآپ کی قبر شریف بنی وہ نشیب میں تھا اس لئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آکراپنی قبر بدلنے کا حکم دیا_
چنانچہ اس شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو پرانی قبرمیں سے نکال کراس قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجودآ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جسم سلامت اوربالکل ہی تروتازہ تھا_

(کتاب عشرہ مبشرہ،ص۲۴۵)

غورفرمائيے کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ایک مدت گزرجانے کے باوجود ایک ولی اورشہید کی لاش خراب نہیں ہوئی تو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام خصوصاً حضورسید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کس طرح خراب کرسکتی ہے؟

یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا:
"اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء"
(مشکوۃ ،ص۱۲۱) 
 اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ ولسلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ زمین ان کو کبھی کھانہیں سکتی_
اسی طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنے لوازم حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،کیونکہ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو قبر میں پانی بھر جانے سے ان کو کیا تکلیف ہوتی؟اسی طرح اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کرام خواب میں آکر زندوں کو اپنے احوال و کیفیات سے مطلع کرتے رہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت عطافرمائی ہے کہ وہ خواب یا بیداری میں اپنی قبروں سے نکل کر زندوں سے ملاقات اورگفتگوکرسکتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ جب شہیدوں کا یہ حال ہے اور ان کی جسمانی حیات کی یہ شان ہے تو پھر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خاص کر حضور سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جسمانی حیات اور ان کے تصرفات اوران کے اختیار و اقتدارکا کیا عالم ہوگا_

سلام کا جواب دینا:

حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سید الشہداء جناب حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کی زیارت کے لئے گئی اورمیں نے قبر منور کے سامنے کھڑے ہوکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ کہا تو آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا_

(حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ بیہقی) 

تازہ خون کا بہہ نکلنا:

جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دوران مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا تو ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والوں کا پھاوڑاآپ کے قدم مبارک پر پڑگیا اورآپ کا پاؤں کٹ گیا تو اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چھیالیس سال گزرچکے تھے_

(حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۴بحوالہ ابن سعد) 

وفات کے بعد تازہ خون کا بہہ نکلنا یہ دلیل ہے کہ شہداء کرام اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں_

تروتازہ لاش مبارک:

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔ پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا_

(بخاری ،ج۱،ص۱۸۰ وحاشیہ بخاری) 

اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اور ان کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا_

(ابن سعد،ج۳،ص۵۶۲) 

پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا_

(حجۃ اللہ علی العالمین،ج۲،ص۸۶۴بحوالہ بیہقی) 

قبر میں قرآن پاک کی تلاوت:

حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ''غابہ''جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا.جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے قرآن پاک کی تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی_
جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اور میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں_

(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ) 

یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں_

نیزہ پر سر امام اعلی مقام اور کلام اللہ کی تلاوت:

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پرچڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سرمبارک میرے سامنے سے گزراتو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا (کھف، پ15) 

کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے_
اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سر مبارک کو نیزہ سے اتارکر ابن زیادکے محل میں داخل کیا تو آپ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اورزبان اقدس پر اس آیت کی تلاوت جاری تھی_
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ
(اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے) 

(روضۃ الشہداء ،ص230) 

ائمہ کرام فرماتے ہیں:
'إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ .

('فیض القدیر'' شرح ''الجامع الصغیر''، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳. بألفاظ متقاربۃ.)

بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں_

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
('فتاوی رضویہ ''، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ''فتاوی عزیزیہ) 
روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔(یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہیں_
نـــوٹـــــــــ:
ان تمام دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ قبر والے سنتے بهی ہیں اور دیکھتے بهی ہیں اب اگر کوئی اس بات کا انکار کریں وہ جهوٹا کذاب ہے اور اس کا اہلسنت والجماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے_

واللہ  تعالیٰ اعلم بالصواب



ازقـــــلــم: مولانا محمـــد اسمــاعیـل خـان امجـدی
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم