کافر کی رقم سے مسجد بنوانا, مرمت کروانا, یا اس کی زمین پر نماز ادا کرنا کیسا؟






کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ
زید،  بکر اور خالد یہ تین اشخاص،  وہابی ہیں اب رہی بات یہ کہ  زید،  بکر اور خالد ماہواری دو ہزار روپے 2000 مسجد میں چندہ دے رہے ہیں، تو کیا یہ رقم، مسجد کے لیے لینا جائز ہے؟



📝الجواب بعون الملک الوھاب:

اگر اس نے مسجد بنوانے کی صرف نیت سے مسلمان کو روپیہ دیا یا روپیہ دیتے وقت صراحتاً کہہ بھی دیا کہ اس سے مسجد بنوا دو, مسلمان نے ایسا ہی کیا تو وہ مسجد ضرور ہو گئی اور اس میں نماز پڑھنی درست ہے,
" لانه إنما يكون اذنا للمسلم بشراء الآلات للمسجد بماله و بمجرد هذالايصير وكيلا و إن فرض التوكيل فحيث لم يعين جنس المشري لا يقع الشراء إلا للمسلم لان الجهالة الفاحشة تبطل الوكالة ، في الدرالمختار الأصل انها(اي الوكالة) إن جهلت جهالة فاحشة و هي جهالة الجنس كدابة بطلت اھ (مخلصاً) و معلوم ان الشراء متي وجد نفاذا علي المشتري نفذ عليه فعلي كل كانت الآلات ملك المسلم و قد جعلها مسجدا فصح "
کیونکہ یہ اس کی طرف سے مسلمان کو اس کے مال سے مسجد کے لئے سامان خریدنے کا اذن ہوا اور محض اتنی بات سے وہ وکیل نہ ہوا اور بالفرض توکیل مان بھی لیں تو جب جن سے شراء غیر معین ہے تو شراء مسلمان کے لئے ہی واقع ہوگئی اس لیے کہ جہالت فاحشہ وکالت کو باطل کر دیتی ہے,
(📄درمختار میں)
 قاعدہ یہ ہے کہ اگر وکالت جہالت فاحشہ کے ساتھ مجہول ہو یعنی جہالت جنس ہو جیسے دابہ کا مجہول ہونا تو وکالت باطل ہو جاتی ہے الخ (مخلصاً) اور یہ بات معلوم ہے کہ شراء جب  مشتری پر نفاذ پائے تو نافذ ہوجاتی ہے بہرصورت وہ خریدا ہوا سامان مسلمان کا مملوک ہوا اور اس نے مسجد بنادی تو صحیح ہے,

⚜یوں ہی مسجد قدیم کی درستی و مرمت کافر کرے تو اسکی مسجدیت میں نقصان نہ آئے گا
" لان المسجد إذا أتم مسجدا لا يعود غير مسجد أبدا "
(کیونکہ مسجد بن جانے کے بعد کبھی بھی وہ غیر مسجد نہیں بن سکتی) اسی طرح کچھ مسجد کو اگر پکی کرادے فرش اور دیواریں  پختہ بنوا دیں جب بھی اس کی مسجدیت میں حرج نہیں اس میں نماز درست ہے کہ یہ دیواریں اگرچہ ملک کافر رہیں گی کہ وہ مسجد کے لئے وقف کرنے کا اہل نہیں مگر دیوار حقیقت مسجد میں داخل نہیں,
"حتي لو لم تكن او رفعت لم يتطرق الي المسجد خلل الاتري إن المسجد الحرام لاجدران فيه أصلا و إن بناء الكعبة لو رفع كما وقع في زمن سيدنا عبد الله بن الزبير رضي الله تعالى عنهما لصحت الصلاة إليها كما نصوا عليه "
یعنی مسجد کی دیواریں اگر بالکل نہ ہوں یا مرتفع ہو جائیں تو مسجدیت میں کوئی خلل نہیں آتا,
 کیا تو نہیں دیکھتا کہ مسجد الحرام میں دیواریں نہیں ہیں اور اگر کعبۃ اللہ کی عمارت مرتفع ہو جائے

📑جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہُ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا تو تب بھی اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہے, فقہاء نے اسکی تصریح کی ہے, یونہی مسالہ کہ فرش پختہ کرنے کو ڈالا چٹائی کی طرح ایک شئی زائد ہے اور جواز نماز یوں کہ اگرچہ وہ مسالہ ملک کافر پر رہے گا مگر اس پر نماز اس کے اذن سے ہے
" فكان كالصلاة في ارض الكافر بإذنه بل أولى "
 تو یہ کافر کی زمین میں اس کے اذن سے نماز پڑھنے کی مانند ہوا یا اس سے بھی اولی ہے, ہاں ایسی چیز کا قبول کرنا مسلمانو کو نہیں چاہیے کہ مسجد کو ملک کافر سے آلودہ کرنا ہے,
" و قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا لا نستعين بمشرك "
یعنی تحقیق رسول اللہ صلی اللہُ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا ہم مشرک سے استعانت (یعنی مدد) نہیں کرتے, اور اس میں یہ بھی قباحت ہے کہ جب وہ فرش ملک کافر پر باقی ہے تو اگر کسی وقت وہ یا اس کے بعد اس کا وارث اس پر نماز سے منع کر دے تو نماز نا جائز ہو جائے گی جب تک فرش کھود کر زمین صاف نہ کر لیں,
رہی پہلی صورت کہ مشرک اپنی زمین میں مسجد بنوادے اگر مشرک نے وہ زمین کسی مسلمان کو ہبہ کردی اور مسلمان نے مسجد بنوائی تو جائز ہے اور اس میں نماز مسجد میں نماز ہے اور اگر بے تملیک مسلم اپنی ہی ملک رکھ کر مسجد بنوائی تو وہ مسجد شرعاً مسجد نہ ہوئی
" لان الكافر ليس اهل لوقف المسجد و في جواهر الاخلاطي جعل ذمي داره مسجدا للمسلمين و بناه كما بني المسلمون و إذن لهم بالصلاة فيه فصلوا فيه ثم مات يصير ميراثالورثه و هذا قول الكل "
کیونکہ کافر مسجد کو وقف کرنے کا اہل نہیں جواہر الاخلاطي میں ہے کہ ذمی نے اپنے گھر کو مسلمان کے لئے مسجد بنا یا اور مسلموں کی طرح اسکی تعمیر کرائی پھر مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کو کہا اور انھوں نے اس میں نماز پڑھی بعد اذآں وہ ذمی مر گیا تو وہ اس کے وارثوں کو بطور میراث ملے گی اور یہی سب کا قول ہے, اس میں نماز ایک کافر کے گھر میں نماز ہے جس پر نماز مسجد کا ہرگز ثواب نہیں مگر جب کہ اس کے اذن سے ہے نماز درست ہے اگر منع کر دے گا تو اب اجازت نہ رہے گی اور زمین غضب میں  نماز کی طرح مکروہ ہوگی
" للتصرف في ملك الغير بغير إذنه "
(ملک غیر میں بلا اذن مالک تصرف کرنے کی وجہ سے)

(📚فتاویٰ رضویہ شریف جدید ج (١٦) ص (۲۹٦) مکتبہ دعوت اسلامی )

🌹واللہ و رسولہ اعلم بالصواب🌹
          ___________💠⚜💠___________
✍🏻از: مولانا محمد راشد مکی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والـنورانی،  ملک پور،  کـٹیـہـار، بہار، ہند
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم