Bhains Ki Qurbani ‎ ‎Ka ‎Sharee ‎Hukm / بھینس کی قربانی کا شرعی حکم


بھینس کی قربانی کا شرعی حکم 


تحریر از: محمد شہباز ملک
۹۳ شمالی ، سرگودھا

شرعی حکم : بھینس اور اس کی جنس کے نر اور مادہ کی قربانی گائے کی طرح ہر حال میں جائز ہے ، اس میں شرعا کسی طرح کوئی قباحت نہیں ، بھینس اور گاٸے کا ثواب بھی برابر ہے ۔  مفسرین ، محدثین ، تمام فقہاء اور تمام مسالک کا اس پر اتفاق ہے کہ بھینس کی قربانی شرعاً ہر حال میں جائز ہے ۔

قرآن کریم نے قربانی کے لیے" بَھِیمَۃ الاَنْعَام "کا انتخاب فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے :

(وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِيْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْـاَنْعَامِ (سورۃ الحج 22:28)

''اور وہ مخصوص ایام میں ب" بَھِیمَۃ الاَنْعَام " پر اللہ کا نام ذکر (کر کے انہیں ذبح) کریں"

پھر خود قرآنِ کریم نے فرمایا کہ  " بَھِیمَۃ الاَنْعَام " مراد  "ثمانیۃ ازواج" یعنی آٹھ جانور ہیں ۔

مشہور تابعی بزرگ مفسر لیث بن ابوسلیم  (م : 138/148ھ)کا قول ہے :الْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .''بھینس اور بختی (اونٹ کی ایک قسم) ان آٹھ جوڑوں میں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔''

(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5،)(تفسیر در منثور :3/31)(تفسیر غرائب القرآن :1/205)(تفسیر فتح القدیر: 2/195)

حضرت علی المرتضٰی (کرم اللہ تعالی وجہہ) کے شاگرد حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے۔

’’اَلْجَا مُوْسُ بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ‘‘ یعنی گائے اور بھینس برابر ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ، (مصنف ابن ابی شیبہ:ج7،ص65 رقم:10848)

امام ابن المنذر فرماتے ہیں:’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘اور اس بات پر امت کا اجماع ہےکہ بھینس کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے۔(الاجماع کتاب الزکاۃ ص43حوالہ:۹۱)

فقہ حنفی میں بھی بلاتفاق بھینس وغیرہ کی قربانی جائز ہے : "وتجوز بالجاموس لانہ نوع من البقر "یعنی بھینس کی قربانی جائر ہے کیونکہ وہ بھی گائے کی جنس سے ہے ۔(البحر الرائق ۹/۳۲۴، فتاوی تاتارخانیہ ۱۷/۴۳۴،فتاوی  شامی ۹/۴۶۶، المحیط البرھانی)

فقہ مالکی کے بانی حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  ’’اِنَّمَا ھِیَ بَقَرٌ کُلُّہَا‘‘یہ بھینس گائے ہی ہے(یعنی گائے کے حکم میں ہے) ۔۔۔(مؤطا امام مالک:ص294 ،باب ما جا ء فی صدقۃ البقر)

ایک مقام پرفرماتے ہیں۔’’اَلْجَوَامِیْسُ وَالْبَقَرُ سَوَائٌ‘‘گائے اور بھینس برابر ہیں (کتاب الاموال لابن عبید:ج2،ص385،رقم:812)

فقہ شافعی کے معروف عالم ابوزکریا،یحییٰ بن شرف،نووی رحمہ اللہ (676-631ھ) لکھتے ہیں : بھینس کی قربانی بالکل جائز ہے ،

(المجموع: 3/393)(تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)

فقہ حنبلی کے بانی حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ)سے بھینس کی قربانی کے بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے فرمایا: لَا أَعْرِفُ خِلَافُ ھٰذَا .''یعنی بھینس کی قربانی جائز میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ''(مسائل الإمام أحمد رقم المسئلۃ : 2865)

اہل سنت کے امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں : بھینس کی قربانی جائز ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جدید ج20ص304)

دیوبند کے مشہور عالم مولا انعام الحق شعیب لکھتے ہیں : اس بات پر جمہور علماء اور ائمہ اسلام کا اجماع واتفاق ہے کہ بھینس کی قربانی کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے۔ (دار الافتاء جامعہ بنوریہ ، ذوالحجہ  ۱۴۳۷، اکتوبر ۲۰۱۶)

اہل حدیث کے معروف عالم قاضی محمد عبداللہ (خانپوری ) لکھتے ہیں : تمام علماء کا اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ سب بہیمۃ الانعام  کی قربانی جائز ہے کم از کم بھینس کی قربانی میں کوئی شک نہیں ہے۔( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ج20 شمارہ42 ،43 ص9)

غیر مقلدین کے مشہور عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری کا لکھتے ہیں :

عرب لوگ بھینس کو بقرہ (گائے ) میں داخل سمجھتے ہیں،عموم بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی ہے۔(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص807اخباراہل حدیث ص11 دہلی)

بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جب حضورﷺ نے بھینس کے متعلق کچھ نہیں فرمایاتو قربانی کیسے جائز ہوگی؟یہ سوال ہی کم علمی کی دلیل ہے کیونکہ بھینس ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں پانی ہو ۔عرب چونکہ ریگستانی ملک ہے اس لیے بھینس وہاں نہیں ہوتی ۔حضورﷺنے’’ بقرہ‘‘ (گائے )کاذکر فرماکر اصولاً بیان فرمایاہے اور شریعت محمدیہ اصول پر مبنی ہے۔بھینس کو اردو میں بھینس،عربی میں الجاموس،بنگالی میں موہیش،بلوچی میں میھی،پشتو میں میخہ،پنجابی میں منجھ،سندھی میں پرمینھن، کشمیری میں منیش اور انگریزی میں Buffaloکہتے ہیں۔تو کیا قرآن وحدیث میں ہر زبان کا لفظ استعما ل ہونا چاہئے تھا؟نہیں بلکہ اسلام ہمیں قاعدہ وضابطہ فراہم کرتا ہے جس کے مطابق وقت،حالات اور مختلف زمانے کے احکام مرتب ہوتے ہیں۔

اس سلسلے تمام علمائے لغت ِعرب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بھینس بھی گائے کی نسل ہے :

لغت کے بڑے  بڑےمعرف  حضرات لکھتے ہیں :    وَالْجَامُوسُ نَوْ

عٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''یعنی بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔''

(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7) (الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1) (تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106) (لسان العرب : 43/6) (المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)(تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15) (المعجم الوسیط : 134/1)

قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے بھینس کی جنس کی قربانی کا جواز ثابت ہے، گائے اور بھینس کی قربانی کے ثواب میں بھی کوئی فرق نہیں ، لہذا عوام کسی طرح کی تشویش میں مبتلا نہ ہوں اور حسبِ معمول قربانی کا فریضہ سر انجام دیں! 
  واللہ تعالی اعلم ورسولہ
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم