اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی ذہانت
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ چار سال کی کم عمر میں قرآن مجید کا ناظرہ مکمل کیا اور چھ سال کی عمر میں ماہ ربیع الاول شریف میں ممبر پر بہت بڑے مجمع میں میلاد شریف پڑھا اور سب کو حیرت زدہ کردیا.
اعلیٰ حضرت خود فرماتے تھے کہ میرے استاد جن سے میں ابتدائی کتاب پڑھتا تھا جب وہ مجھے سبق پڑھادیا کرتے تو میں ایک دو مرتبہ پڑھ کر یاد کرلیتا اور جب مجھ سے سبق سنتے تو حرف بحرف لفظ بہ لفظ سنا دیتا.
استاد روزانہ کا یہ معمول دیکھ کر سخت تعجب کرتے. ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ
"احمد میاں"
یہ بتاءو تم آدمی ہو یا جن یا فرشتہ کہ مجھکو پڑھانے میں دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرنے میں دیر نہیں لگتی.
جناب سید ایوب علی رضوی بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ بعض نا واقف لوگ میرے نام کے آگے حافظ لکھ دیا کرتے تھے حالانکہ کہ میں اس لقب کا اہل نہیں تھا. ہاں اتنا ضرور ہے کہ آگر کوئی حافظ صاحب مجھے ایک رکوع سنادیں تو دوسری بار میں اسکو زبانی یاد کر لیا کرتا اور سنا دیتا.
اور ایسا ہی ہوا کہ آپنے بالترتیب بکوشش ایک ماہ میں قرآن پاک کو مکمل حفظ کر لیا اور یہ اس لئے کہ ان بندگان خدا کا کہنا غلط نہ ثابت ہو. یہ آپکی ذہانت اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا کرم خاص تھا.
تمام علوم درسیہ معقول و منقول سب اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خاں صاحب سے حاصل کر کے ماہ شعبان میں 1286ھ کو فاتحہ فراغ کیا اور اسی دن ایک رضاعت کا مسئلہ لکھ کر والد ماجد صاحب کی خدمت میں پیش کیا جواب بالکل صحیح تھا. والد ماجد نے اپنے لخت عزیز امام احمد رضا خان کی ذہانت کو دیکھ کر اسی دن سے فتویٰ نویسی کا کام ان کے سپرد کر فرمایا.
میرے سرکار اعلیٰ حضرت کوپچاس سے زائد علم و فن پر مکمل دسترس حاصل تھی.
جیسے علم حدیث، علم تفسیر، علم فقہ وغیرہ وغیرہ
آپکے والد مولانا نقی علی خان بہترین عالم دین فقہی اور نیک و متقی پرہیزگار شخص تھے.
آپکے والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خاں پانچ جمادی الآخر 1294ھ کو مارہرہءمطہرہ میں دست حق پرست حضرت آقائے نعمت، دریائے رحمت، سیدالواصلین، مسندالکاملین، قطب اوانہ، امام زمانہ، حضرت سیدنا شاہ آل رسول احمدی تاجدارِ مارہرہ کے ہاتھ پر شرف بیعت حاصل فرمائی اور حضور پر نور مرشد برحق نے آپ کو خلافت و اجازت جمیع و سلاسل عطا فرمائی.
اسکے بعد مارہرہ مطہرہ کا فیضان سرکار اعلیٰ حضرت پر بھی جاری رہا.
سرکار اعلیٰ حضرت نےجمادی الاول 1294ھ میں سرکار مارہرہ مطہرہ میں حضرت خاتم الاکابر عالی جناب حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت ہوئے اور مثال خلافت و اجازت جمیع سلاسل و سند حدیث سے مشرف ہوئے.
اور 1296ھ کو آپکے پیرو مرشد کا وصال ہو گیا
اعلیٰ حضرت اپنے پیرو مرشد اور خانقاہ مارہرہ کے تعلق سے فرماتے ہیں
ایسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا
بول بالے مری سرکاروں کے ہیں.
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے جو تعلیم بظاہر عربی اردو مکتب و مدرسے میں حاصل کی بس وہی تعلیم سے آپنے پوری دنیا میں علم و فن کا لوہا منوایا. انہوں نے کالج اور یونیورسٹی سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی.
اسکے باوجود آپکے علم کا یہ عالم تھا یہ
انہیں اساتذۂ کرام سے فیض یاب ہو کر پوری دنیا کے اندر یکتائے روزگار نظر آئے .
کمال یہ ہے کہ آپنے علم دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و فنون میں بھی آپ لا زوال ہیں.
علم سائینس، علم تکسیر، علم معاشیات،علم حیاتیات، علم نباتیات، علم جغرافیہ، علم تاریخ ، یا علم ریاضی وغیرہ وغیرہ
آپ ہر میدان کے شہسوار نظر آتے ہیں.
اردو ادب میں خصوصی صنف نعت گوئی میں کوئی آپکے عروج کمال تک نہیں پہنچا
آپ نے ایک شعر چار زبانوں کا استعمال کتنے خوبصورت انداز میں کیا ہے..
لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھکو شہ دوسرا جانا.
ایسی مثال ہمیں شاعری میں دیکھنے کو نہیں ملتی
آپکے علم و فن اور کمالات سے غیر بھی محظوظ ہوتے نظر آتے ہیں.
اور یہ بات ہم نے نہیں کہتے کوئی مسلک اعلیٰ حضرت کا پیروکار نہیں کہتا بلکہ اس کا اعتراف دنیا کے نامور شخصیات نے کیا ہے.
دنیا کے عظیم اسکالرس نے کیا ہے.
دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں کیا ہے
دنیا کی عظیم ترین یونیورسٹیوں نے کیا ہے،
میں یہاں صرف اتنا ہی ذکر کروں گا. کہ ہندوستان کی مشہور و معروف یونیورسٹی اور عصری تعلیم کا مرکز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر کے حوالے سے مولوی محمد حسین بریلوی ثم میرٹھی کا بیان ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ غیر ممالک میں تعلیم حاصل کی اور ریاضی (میتھ) میں کمال حاصل کیا تھا. ہندوستان میں کافی شہرت یافتہ تھے. ان کو ریاضی کے مسئلے پر اشتباہ ہوا چند کوششوں کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہوا. تو انہوں نے قصد کیا کہ جرمنی جا کر اس کو حل کیا جائے. حسن اتفاق سے جناب مولانا سید سلیمان اشرف بہاری، پروفیسر شعبہ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے اس کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ آپ بریلی جاکر وقت کے امام، امام اعظم اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے دریافت کیجئے وہ ضرور حل کر دینگے.
اس پر واءس چانسلر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں تعلیم پاکر آیا ہوں پھر بھی مسئلہ حل نہیں کر سکا اور آپ ان صاحب کا نام بتا رہے ہیں کہ جنہوں نے اسکول اور کالج کی شکل بھی نہیں دیکھی تو وہ بھلا کیا بتاسکتے ہیں. کچھ دنوں کے بعد مولانا نے واءس چانسلر صاحب کو پریشان دیکھ کر پھر وہی مشورہ دیا کہ جب آپ جرمنی جا رہے ہیں تو اس سے قبل بریلی جا کر دیکھ لیجیے لیکن انہوں نے بات ماننے سے انکار کر دیا اور کہا
” کہ مولانا عقل بھی کوئی چیز ہے! آپ مجھکو بار بار وہی رائے دے رہے ہیں”
اس پر مولانا نے نے فرمایا!
آخر اس میں حرج کیا ہے ولایت کے سفر کے مقابلے بریلی کا سفر تو مشکل نہیں آپ ایک بار ملاقات تو کریں.
اب مولانا کی یہ بات چانسلر صاحب نے مان لی اور مولانا کو لیکر مارہرہ پہنچے اور وہاں سے سید مہدی حسن میاں صاحب سجادہ نشین مارہرہ کے ہمراہ بریلی شریف پہنچ گئے. سید مہدی میاں صاحب نے اعلیٰ حضرت کی جناب میں پیغام بھیجا کہا بتادو کہ مارہرہ سے سید مہدی حسن آئیں ہیں اور ان کے ساتھ احباب بھی ہیں. اور آپ کی عیادت کرنا چاہتے ہیں. اس وقت اعلیٰ حضرت کی طبیعت نا ساز چل رہی تھی جب آپ نے مارہرہ کا نام سنا تو فوراً اندر آنے کے لئے کہا جیسے ہی سجادہ نشین سید مہدی حسن میاں اعلیٰ حضرت کے پاس آئے آپ نے انکی عزت شایان شان فرمائی.
ساتھ ہی سید مولانا سلیمان اشرف اور وائس چانسلر سے خیرو عافیت دریافت کی.
اسکے بعد واءس چانسلر صاحب نے کہا کہ میں آپ سے ریاضی کا ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لئے آپ کے حضور حاضر ہوا ہوں. اعلٰی حضرت فاضل بریلوی نے کہا کہ فرمائیں تو انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہے اتنی جلدی بتانا مناسب نہیں ہے سکون و اطمینان کے ساتھ بتایا جا سکتا ہے.
اعلیٰ حضرت نے کہا کہ آپ سوال معلوم کیجئے گا انشاءاللہ جواب دیا جائے گا.
اس پر وائس چانسلر نے سوال پیش کر دیا اعلیٰ حضرت نے سنتے ہی فرمایا اس کا جواب یہ ہے،
یہ سن کر ان حیرت ہو گئی اور آنکھوں سے پردہ آٹھ گیا.
بے اختیار بول اٹھے.
” کہ میں نے صرف سنا تھا کہ علم لدنی کوئی شے ہے مگر آج آنکھ سے دیکھ بھی لیا. مجھے جواب سن کر ایسا معلوم ہو رہا ہے، گویا جناب اس مسئلے کو کتاب میں دیکھ رہے تھے کہ سوال سنتے ہی فی البدیہہ تشفی بخش نہایت اطمینان کا جواب عنایت فرمایا”
کچھ عرصے کے بعد جب ایک صاحب کی ملاقات واءس چانسلر صاحب سے شملہ میں ہوئی تو انہوں نے چانسلر صاحب سے معلوم کیا کہ آپ ایک مرتبہ بریلی شریف امام عشق و محبت کے پاس ریاضی کا ایک اہم مسئلہ معلوم کرنے گئے تھے تو آپ نے اعلیٰ حضرت کو کیسا پایا.
” اس پر وائس چانسلر نے کہا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کو بہت ہی ملنسار، خلیق، منکسرالمزاج پایا اور ریاضی بہت اچھی خاصی جانتے تھے با وجود اس کے انہوں نے کسی سے پڑھا نہیں انکو علم لدنی تھا. میرا سوال بہت مشکل تھا اس کے باوجود ایسا فی البدیہہ جواب دیا گویا اس مسئلے پر عرصے سے ریسرچ کیا ہو”.
یہ تھی اعلیٰ حضرت کی ذہانت.
ملک سخن کے شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
از: محمد اویس رضا عطاری
فیضان مدینہ، اوکاڑہ، پنجاب، پاکستان