امام ‏احمد ‏رضا ‏فاضل ‏بریلوی ‏کا ‏عشق ‏رسول/ ‏Imam ‎Ahmad ‎Raza ‎Ka ‎Ishq ‎e ‎Rasool ‎



امام احمد رضا کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم



معزز قارئین! یقیناََ آپ نے اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے بہت سے اوصاف پڑھیں ہوں گے کیونکہ میرا امام کسی ایک فن میں ماہر نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی نے آپکو علم لدونی عطا فرمایا تھا۔ بڑے بڑے علماء کی عقلیں جہاں پر ختم ہو جائیں وہاں سے بھی آگے جانے والے میرے امام ہیں۔ 

علماء کرام نے اعلی حضرت فاضل بریلوی کے بارے میں 120/ سے زیادہ علوم گنوائے ہیں جن میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔ 

ان سے علوم و فنون کے ساتھ ساتھ اعلی حضرت علیہ الرحمہ ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے_
نثر ہو یا نظم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ان کی جتنی تحریریں ہیں ،   ان کے ایک ایک جملے سے عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نظر آتا ہے۔ (پیغام رضا ۷۹۹۱)

جامعہ ہمدرد دہلی کے وائس چانسلر بھی امام احمد رضا کے عشق کا اعتراف ان جملوں سے کرتے ہیں کہ ان کے ایک ایک جملے سے عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پھوٹا پڑتا ہے ،  

امام احمد رضا نے اپنے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عشق کیا کہ جب بھی کبھی عشق کی بحث چھڑتی ہے، تو ذہن ہمیشہ امام احمد رضا ہی کی جانب منتقل ہوتاہے کہ اگر عشق کی محفل ہوگی تو اس میں امام احمد رضا کا ذکر ضرور ہوگا_   
 امام احمد رضا کا ترجمہ قرآن پڑھا جائے تو اس میں عشق کی خوشبواور ان کے فتاﺅں کا مجموعہ فتاوی رضویہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں عشق کی خوشبوملے گی ۔ کیوں ؟
 کیوں کہ ان کتابوں کا مصنف ایک ایسا عاشق ہے کہ جس کو سید العشاق کہا جاتا ہے ۔اس نے جب اپنی قلم کو اٹھا یا تو بغیر اپنے محبوب کے ذکر کے آگے نہ بڑھا ۔


عشق کی دو قسمیں ہیں !
عشق حقیقی و عشق مجازی ۔
 عشق حقیقی وہ عشق ہے جو خدا ورسول سے دل وجان سے کیا جائے اور جس کے پاس عشق حقیقی ہوگا وہ دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران رہے گا ۔
 عشق مجازی وہ عشق ہے جو دنیا کی مال ودولت اوردنیا کی فانی چیزوں سے کیاجائے ۔ اور جس کے پاس عشق مجازی ہوگا یعنی جس کے اندر دنیا کی محبت ہوگی وہ ہمیشہ خسارے میں رہیگا ۔

لیکن اس معاملہ میں بھی امام احمد رضااپنے ہم عصروں پر سبقت لے گئے، اس لئے کہ آپ کا عشق مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھا، یعنی اللہ ورسول سے محبت کی جس کا ثمرہ یہ ملا کہ کامیابی بھی ان کے قدم کو چومتی ہے،  تو اپنی معراج سمجھتی ہے ۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ امام احمد رضا نے عشق حقیقی کیا تو کس طرح کیا ؟

محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ محب اپنے محبوب کی یاد میں ہر وقت بے چین و بے قرار رہتا ہے، اسے محبوب کو دیکھے بغیر چین نہیں آتا ۔ امام احمد رضابھی بریلی کی چٹائی پر بیٹھے خدا ورسول کی یاد میں زیارت حرمین طیبین کے واسطے تڑپ رہے ہیں اور دیار حبیب کی کشش ہے کہ کشاں کشاں ان کے جان ودل اور ہوش وخردہر ایک کو محبوب پر ور دگار کے قدموں پہ ڈال دیتی ہے ۔اسی درد بھرے لمحات میں دل کی کرب آواز سے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جان و دل ہوش خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا....! 

اے رضا! تیری جان گئی تیرا دل گیا ،تیرا ہوش گیا تیری عقل گئی حتی کہ تیرا سارا سامان گیا

 اور تم نہیں جاتے یہیں چٹائی پر بیٹھے تڑپ رہے ہو ۔ 

محبوب پروردگار نے اپنے محب پر کرم فرمایا اور امام احمد رضا کو بار گاہ اقدس کی حاضری نصیب ہو گئی ۔

جس طرح صحابہ کرام نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے رسول با وقار کا دیدار کیا تھا، اسی طرح یہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنارکھتے ہیں،اپنے محبوب کے دیدار کے لئے تڑپ رہے ہیں ، جب زیارت حرمین شریفین کے لئے مدینہ طیبہ میں حاضر ہوئے تو شوق دیدار میں روضہ حضور کے سامنے کھڑے ہو کر رورہے ہیں درود وسلام کا ہدیہ بھی پیش کر رہے ہیں اور یہ امید لگائے کھڑے ہیں کہ آج حضور ضرور نگاہ کرم فرمائیں گے، اپنی زیارت سے مشرف فرمائیں گے ،لیکن اس شب زیارت نہ ہوسکی ۔ آپ کا دل بہت ٹوٹا اور اسی ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ آپ نے ایک نعت پاک لکھی ، جس کے شروع کے چند اشعار یہ ہیں :

وہ سوئے لالہ زار پھر تے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

اس نعت پاک کے مقطع میں اپنی دلی آرزو پورا نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی عجزو انکساری کے ساتھ درد بھرے انداز میں فرماتے ہیں ۔
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں


یہ نعت لکھ کر مواجہہ شریف کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر اپنی قلبی کیفیات حضور کے سامنے عرض کردیں ۔آقا کو اپنے اس عاشق کی یہ دل شکستگی گوارا نہ ہوئی۔ 
پھر کرم فرمایا اور ایسا کرم فرمایا کہ عالم خواب میں نہیں بلکہ عالم مشاہدہ میں بچشم سر بیداری کے حالت میں اسی رات اپنی زیارت سے مشرف کردیا
 ۔اسطرح امام احمد رضاخان کے دل بیقرار کو چین آگیا ۔ آ پ نے اسی چین اور قرار کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا :
اک تیرے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
انس کا انس اسی سے ہے جان کی وہی جان ہے

اعلیٰ حضرت عشق کے اس منزل پر فائز تھے کہ اپنے معشوق کے خلاف ذرہ برابربھی لب کشائی برداشت نہیں کرتے تھے، اور عشق کاتقاضہ بھی یہی ہے ۔اسی عشق کے تقاضے کے پیش نظرآپ نے گستاخان رسول کی سرکوبی کرتے ہوئے فرمایاہے کہ :
دشمن احمد پہ شدت کیجئے
ملحدو ں سے کیا مروت کیجئے
شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب
اس برے مذہب پہ لعنت کیجیے



اسی عشق مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاثمرہ ہے کہ آج ہر سنی کی زبان پر اعلیٰ حضرت کانغمہ اورترانہ رہتاہے، ارشاد خداوندی کہ ’تم میری یادکرو میں تمہار اچرچاکروں گا‘  کے مصداق آج اعلیٰ حضرت کا ذکر بلندسے بلندتر ہوتا نظر آرہا ہے اور اسی عشق کی برکت ہے کہ ان کا نام اہلسنّت وجماعت کی شناخت اور پہچان بن گیا ہے یعنی مسلک اعلیٰ حضرت سنی خوش عقیدہ سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں کی پہچان ہے۔
یہ علا مت سچے سنی خوش عقیدہ کے لئے
اہلسنّت کوملا ہے مسلک احمدرضا

محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عشق کاتقاضہ یہی ہے کہ ان کی شان میں ادنیٰ توہین کرنے والوں کوٹھکانے لگادیاجائے۔
اللہ کریم اپنے آقا ومولیٰ سے سچی محبت وعقیدت رکھنے کی توفیق عطافرمائے اوراس عاشق صادق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی مرقد انور پر رحمت وانوار کی بارش برسائے۔ اوران کے عشق کی خوشبو سے ہمیں بھی مستفیض فرمائے۔
آمین۔

ابر رحمت ان کی مرقدپر گہر باری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

آمین


✍🏻 محمد اویس رضا عطاری


فیضان مدینہ، اوکاڑہ، پنجاب،  پاکستان

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم