Imam Ahmad Raza Ka Ilmi O Fiqhi Muqaam / اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا علمی و فقہی مقام_ از: اویس رضا عطاری قادری




امام اہلسنت فاضل بریلوی کا علمی و فقہی مقام 


امام احمد رضا فاضل بریلوی کا علمی و فقہی مقام / مضمون نگار: محمد اویس رضا عطاری قادری


 اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان ( قدس سرہ العزیز) نے "فتاویٰ رضویہ" کے "کتاب الطہارۃ" کے "باب التیمم" میں ایک نادر فتویٰ تحریر فرمایا، جس میں آپ نے ایک سو اکیاسی (181 ) ایسی چیزوں کے نام گنوائے ہیں ،جن سے تیمم کیا جاسکتا ہے، اس میں 74/ منصوصات (یعنی وہ مسائل و احکام ہیں جنھیں فقہاءِ متقدمین نے بیان فرمایا ہے) اور 107 مزیدات (یعنی وہ مسائل واحکام جنھیں آپ نے اپنے اجتہاد و استنباط سے بیان فرمایا) شامل اشیا ہیں_ اور پھر ایک سو تیس (130) ایسی اشیا ( یعنی چیزوں) کے نام تحریر کیے ہیں، جن سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے، ان میں 58/ منصوصات اور 72/ زیادات ہیں_

 اسی طرح امام اہلسنت، امام احمد رضا، فاضل بریلوی (نور اللہ مرقدہ) نے وضو کے لیے پانی کی اقسام پر بحث کرتے ہوئے ایسے پانی کی ایک سو ساٹھ (160) قسمیں بیان کی ہیں، جن سے وضو کرنا جائز ہے اور وہ پانی جن سے وضو جائز نہیں، اس کی ایک سو چھیالیس (146) اقسام بیان فرمائی ہیں_

 اوراسی طرح پانی کے استعمال سے عجز کی ایک سو پچہتر (175)صورتیں بیان فرمائی ہیں_

 امام اہلسنت، فاضل بریلوی (قدس سرہ العزیز) نے ایک سوال کہ ”باپ پر بیٹے کا کس قدر حق ہے؟“  کے تحت احادیث مرفوعہ کی روشنی میں تفصیلی جواب دیتے ہوئے اولاد کے ساٹھ (60) حقوق بیان فرمائے اور فرمایا کہ یہ حقوق پسر اور دختر (بیٹا اور بیٹی)  دونوں کے لیے مشترک ہیں اور پھر بیٹے کے خاص پانچ حقوق لکھے اور دختر کے لیے خاص پندرہ حقوق لکھے_

اس طرح آپ نے اولاد کے کل اسی (80) حقوق تحریر فرمائے ہیں_

ہم نے صرف یہ تین مثالیں آپ کے سامنے اختصار و اجمال کے ساتھ پیش کی ہیں ،  ورنہ فتاویٰ رضویہ کے جہازی سائز بارہ ضخیم جلدیں اس قسم کی تحقیقاتِ نادرہ و عجیبہ سے لبریز پڑی ہیں اور جن کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ

 "اعلیٰ حضرت کے قلب و دماغ میں سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) کی سی مجتہدانہ ذہانت و بصیرت ہے_" 

 اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کی جملہ خوبیوں میں ایک بہت بڑی خوبی بلکہ امتیازی شان یہ بھی ہے کہ آپ استفتاء (سوال) کا جواب اسی زبان میں دیتے تھے، جس زبان میں سوال کیاجاتا تھا_

 مثلاً

 آپ کے پاس دنیا بھر سے سینکڑوں سوالات آتے تھےتھے:

 اگر سوال عربی زبان میں ہوتا تو آپ جواب بھی عربی زبان میں دیتے تھے،

 اگر سوال فارسی زبان میں ہوتا توآپ کا جواب بھی فارسی میں ہوتا تھا،

 یہاں تک کہ آپ نے انگریزی زبان میں سوال کا جواب بھی انگریزی زبان میں ہی تحریر فرمایا اور 

 اگر سوال منظوم شکل میں ہوتا تھا تو آپ کا جواب بھی منظوم ہوتا 

اور اس کے علاوہ 

»اگر سوال میں سائنسی انداز اختیار کیا جاتا توآپ بھی جواب سائنسی انداز میں تحریر فرماتے تھے_

(بحوالہ: علوم سائنس اورامام احمدرضا)


عقائد اسلام کے جو ارکان مرجھا چکے تھے، ان کے احیاء کے لیے آپ نے جو کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

 تمہید ایمان، 

حُسام الحرمین،

 سبحان السبوح، 

خالص الاعتقاد، 

الکوکبۃ الشہابیہ،

 انباء المصطفیٰ، 

تجلی الیقین وغیرہ،

 اور اعمالِ صالحہ کے احیا کے لیے فتاویٰ رضویہ کی بارہ ضخیم جلدیں آپ کی مجددانہ بصیرت پرشاہد عادل ہیں_ 


وہ امام احمد رضا ، جو ”وعلمناہ من لدنا علما “ کی تعبیر

 ”انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٰوء“ کی تفسیر

 اور”والرّاسخون فی العلم “کی مکمل تصویر تھے


 وہ امام احمد رضا، جس نے اپنی علمی و فقہی بصیرت سے بے شمار پیچیدہ مسائل پر مستند فتوے ارشاد فرمائے

 وہ امام احمد رضا، جس نے عرب و عجم تک علم و حکمت کی قندیلیں روشن کردیں _

 وہ امام احمد رضا، جنھیں عرب و عجم کے علماء کرام نے خراج عقیدت پیش کیا

 وہ امام احمد رضا، جو ”العلماء ورثۃ الانبیاء “ کے حقیقی مصداق تھے۔

 *الغرض اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار وہبی اور کسبی خصوصیات سے نوازا تھا_

جلیل القدر مجدد حضرت ابو 

ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” بے شک اللہ تعالیٰ اس امّت کے لیے ہر سو سال کے سرے پر ایک آدمی بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا_

(سنن ابوداؤد، مشکوٰۃ المصابیح) 

مجدد کی سب سے بڑی علامت ونشانی یہ بیان کی گئی ہے کہ گزشتہ صدی کے آخر میں اس کی پیدائش اور شہرت ہوچکی ہو اور موجودہ صدی میں بھی وہ مرکز علوم وفنون سمجھا جاتاہو، یعنی علماءِ کرام کے نزدیک اس کے احیاءِ سنت و ازالہ بدعت اور دیگر خدماتِ دینیہ کاخوب چرچا اور شہرت ہو_

علماء کرام کی بیان کردہ علامات کے سو فیصد مصداق اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان بریلوی رحمہ اللہ ثابت ومسلّم ہیں_

جن کو حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عرب و عجم کے ممتاز علماءِ کرام اور مشائخِ عظام نے (چودھویں صدی کے) مجدد کے عظیم لقب سے پکارا_

علماء اسلام کے بیان کیے ہوئے اصول کے مطابق اگر اہل حق چودھویں صدی کی فضائے اسلام پر نگاہ ڈالیں تو اُنہیں مجددیت کا ایک درخشاں آفتاب اپنی نورانی شعاعوں سے بدعت و ضلالت اور کفر و شرک کی تاریک و دبیز تہوں کو چیرتا ہوا نظر آئے گا_

جس کی بے مثال تابانی سے ایک عالم چمک و دمک رہا ہے اور وہ فخر روزگار مجدد دین و ملّت اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خان بریلوی، حنفی، قادری ہیں_

 اس لیے کہ آپ کی ولادت باسعادت 10/ شوال المکرم 1272ھ میں ہوئی اور آپ کا وصال 25 صفر المظفر 1340ھ میں ہوا_


 یوں آپ نے تیرھویں صدی میں ستائیس سال، دو مہینے اور بیس دن پائے، جس میں آپ کے علوم و فنون، درس و تدریس، تالیف و تصنیف، افتاء اور وعظ و تقریر کا شہرہ ہندوستان سے عرب و عجم تک پہنچا اور چودھویں صدی میں چالیس سال ایک مہینہ اور پچیس دن پائے۔ جس میں حمایت دین، نکایت مفسدین، احقاق حق و ازہاق باطل، اعانت سنّت اور اماتت بدعت کے فرائض منصبی کو کچھ ایسی خوبی اور کمال کے ساتھ آپ نے سرانجام دیا جو آپ کے جلیل القدر مجدد ہونے پر شاہد عدل ہیں_


 شاہکار نعتیہ کلام اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان بریلوی رحمہ اللہ علوم دینیہ کے عالم و فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و سخن کا بھی اعلیٰ ذوق و شوق رکھتے تھے_

اور آپ فن شاعری میں بھی بڑاکمال رکھتے تھے، لیکن آپ کا ذوقِ سلیم حمدوثناء اورنعت ومنقبت کے علاوہ کسی اور صنف سخن کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔آپ کے اس شعر و سخن کے کلام میں بھی وہی عالمانہ وقار ہے۔ وہی قرآن و حدیث کی ترجمانی ہے، وہی سوز و ساز اور کیف و سرور کا سامان ہے۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ سر تا پا جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار رہتے تھے۔آپ نے جس والہانہ عقیدت سے اور جذبہ عشق و محبت میں ڈوب کر جو آقائے نامدار حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیں لکھیں ہیں، اُن کا ایک ایک لفظ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلا ہوا تھا جو سامع کے قلب و دماغ میں اتر کر سامع کے دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع کو روشن کردیتا ہے_


آپ کے مشہورِ زمانہ ”سلام“ کی گونج پورے عالم اسلام میں اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے گوشہ گوشہ میں کہیں بھی اور کسی بھی وقت سنی جاسکتی ہے_


وہ مشہورِ زمانہ سلام یہ ہے: 

مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام 

شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام.. ... !


 اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ کے نعتیہ دیوان ”حدائق بخشش“ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے شاہ کار

نعتیہ کلام میں حمد و ثناء اور نعت و منقبت کو چار مختلف زبانوں (عربی، فارسی، اردو اور ہندی) میں پیش کیا ہے اور آپ کے شاہ کار نعتیہ کلام میں وہ مشہورِ زمانہ نعت جس میں آپ نے کمالِ مہارت، برجستگی کلام اور قوتِ تحریر کا ایک عظیم شاہ کار کلام پیش فرمایا ہے اور ایک ہی نعت کے ہر شعر میں چار مختلف زبانوں (عربی، فارسی، اردو اور ہندی) کو بڑے خوب صورت اور دل نشین انداز میں یکجا کر کے موتیوں کی مالا کی طرح پرو دیا ہے_

اس عظیم شاہکار نعت کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں: 

لم یاتِ نظیرک فی نظر مثل تونہ شد پیدا جانا

جگ راج کوتاج تورے سر سوہے تجھ کوشہہ دوسراجانا



البحرعلیٰ والموج طغیٰ من بے کس و طوفاں ہوش رُبا

منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیّا پار لگا جانا




اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ مزار اعلی حضرت پہ لاکھوں رحمتوں کا نزول فرمائے_

 اللهم آمين بجاہ النبی الامین الکریم.


مضمون نگار: محمد اویس رضا عطاری

 0092348 4172418

فیضان مدینہ، اوکاڑہ، پنجاب، پاکستان

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم