ماہ صفر اور آخری بدھ / Maah e Safar Aur Aakhri Budh

 

ماہ صفر المظفر اور آخری بدھ / Maah e Safar Aur Aakhri Budh

ماہ صفر اور آخری بدھ


تحریر: محمد رجب علی مصباحی، گڑھوا، جھارکھنڈ 

رکن:مجلس علماے جھارکھنڈ 


ماہ صفر المظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ  ہےجو بے شمار فضائل و برکات کا جامع اور محاسن و محامد کاسرچشمہ ہے۔

کتب احادیث کے اندر متعدد احادیث کریمہ اس کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرتی ہیں اور اس کی قدر و منزلت کو دوبالا کرتی ہیں ۔

لیکن بعض لوگوں نے اسے اپنے زعم باطل سے منحوس و بے برکتی گردانا ہے جوکہ سراسر جہالت و ضلالت ہے کیونکہ کہ رب تعالیٰ نے کسی بھی ساعت اور گھڑی کو منحوس اور بے برکتی نہیں بنایا بلکہ ہر ایک کو فضائل و کمالات کا معجون مرکب بنایا اوراگر بندہ مومن کوئی بھی عبادت رضائے الہی اور توکل علی اللہ کو سپربنا کر کرے، تو رب تعالیٰ اس کے حسن نیت کی بنیاد پر بے پناہ برکتوں کا تحفہ عطا فرماتا ہے خواہ وہ ماہ صفر ہو یا کوئی اور۔

واضح رہے کہ نفع و ضرر کا مالک حقیقی رب تعالیٰ کی ذات کریمہ ہے اگر رب کریم کسی کے حق میں نفع مقدر فرما دیا ہے تو کوئی بھی بشر انسانی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اگر اس کے در پرنقصان و خسران دستک دے تو کوئی اسے ٹال نہیں سکتا جیسا کہ رب تعالیٰ کا اعلان عام ہے:

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ


نیز نبی کریم صلی اللہ تعالی  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا فَقَالَ:


«يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ».رواه الترمذي) 


ترجمہ:ترجمہ:ابوالعباس عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:میںایک روز رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھا،آپ نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! میں تجھے چندباتوں کی تعلیم دیتاہوں:

تواللہ تعالیٰ کی حفاظت کر،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر،ہمیشہ اسے اپنے سامنے پائےگا،جب بھی کچھ مانگنا ہو،اللہ تعالیٰ سے مانگ، اور جب بھی مدد طلب کرنی ہو،اللہ تعالیٰ سے طلب کر،اچھی طرح جان لے اگر ساری امت جمع ہوکر تجھے کوئی فائدہ پہنچاناچاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے سواکوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی اور اگر ساری امت اکٹھی ہوکر تیراکوئی نقصان کرناچاہے تو اللہ تعالیٰ کے نوشتۂ تقدیر کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتی، قلم اٹھالئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔(اس حدیث کو امام ترمذی aنے روایت فرمایا ہےاور اسے (حسن صحیح) قراردیاہے۔

ان دلائل و براہین سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ نفع و نقصان کا مالک حقیقی اللہ رب العزت ہے اور انسان سبب عارضی ہے ۔

علاوہ ازیں اس کا منحوس ہونا انسانی تفکرات پر مبنی ہے کیوں کہ جس دن جس کا کوئی کام اچھا ہوا وہ دن اس کے حق میں مبارک ومسعود ہو گیا اور جس کا کام تعطل کا شکار ہوا اس کے نزدیک منحوس ہوگیا،اس طرح ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ہر دن مبارک یا منحوس ہے جس کا مبارک ہونا تو شریعتا ثابت ہے لیکن منحوس ہونا انسان کی کج فہمی اور جہالت کا پیش خیمہ ہے۔

اس مہینے کی ایک اور وبا آخری بدھ ہے اس روز لوگ باغیچوں اور پرلطف جگہوں کی سیر و تفریح کرتے ہیں اور انواع و اقسام کے لذیذ پکوان بنا کر فاتحہ دیتے ہیں کھاتے ہیں علاوہ ازیں "غسل صحت" بھی کرتے ہیں اور پان پتے پر نہ جانے کیا لکھ کر غسل کرنے کا بھی رواج عروج پر ہے، اور یہ سب محض اس مناسبت سےکرتے ہیں کہ اس بدھ کو سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو اپنی بیماری سے افاقہ ہوا تھا اور صحت یابی نصیب ہوئی تھی۔

یہ واضح رہے کہ بزرگان دین کے نام سے فاتحہ دلانا اور ان کے روح طیبات کو ایصال کرنا ہمہ وقت جائز ومستحسن اور باعث خیر و برکت ہے اور رہا دیگر لغویات و خرافات تو ان کا انحصار محض جہالت و نادانی پر ہے شریعت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس آخری بدھ کو سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا مرض اور بڑھ گیا تھا اور اتنی شدت اختیار کر لی کہ اسی مرض مبارک میں آپ چشمان عالم سے روپوش ہوگئے جیسا کہ سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں:

: آخری چہارشنبہ کی کوئی اصل نہیں نہ اس دن صحت یابی حضورﷺ کا کوئی ثبوت۔بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے اور ایک حدیثِ مرفوع میں آیا ہے’’اٰخِرُ اَرْبِعَائِ مِنْ الشَّھْرِ یَوْمُ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ ‘‘ اور مروی ہوا کہ ابتدائے ابتلائے سیّدنا ایّوب عَلَی نَبَیِّنَا وَعَلیْہِ الصَّلَوٰۃُ وَالتَّسْلِیْمُ اسی دن تھی اور اسے نحس سمجھ کرمٹی کے برتن توڑ دینا گناہ اضاعتِ مال ہے۔بہرحال بے اصل وبے معنی ہیں،وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ 

(احکام شریعت ح:٢، ص:١١٠)


دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں :

” آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کوئی ثبوت بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ۔ “


(فتاوی رضویہ،ج:٢٣،ص:٢٧١،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)


    بہار شریعت میں ہے : ”ماہ صفر کا آخر چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے، لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں ، سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں ، پوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے ، خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس روز غسل صحت فرمایا تھا اور بیرون مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں ، بلکہ ان دنوں میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مرض شدت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلاف واقع ہیں ۔ “


(بہار شریعت،ج:٣،ح:١٦،ص:٦٥٩،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم