Mufti Muhammad Ayyoob Khan / حضرت علامہ مفتی محمد ایوب خان نعیمی

حضرت علامہ مفتی محمد ایوب خان نعیمی بھاگل پوری حفظه اللہ تعالیٰ 

( آسمانِ فقہ و افتا کے بدرِ کامل )


از قلم  :  طفیل احمد مصباحی 


فقہِ اسلامی در اصل کتاب اللہ ، سنت ( قرآن و حدیث ) ، اجماعِ امت اور قیاس پر مشتمل وہ پاکیزہ علم ہے جو دارین کی سعادتوں کے حصول کے ساتھ بیشمار دینی و دنیوی مصالح و منافع کو اپنے دامنِ کرم میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ اسلامی بلکہ انسانی معاشرے میں قندیلِ ہدایت روشن کرنے کے ساتھ  جلبِ منافع اور دفعِ مفاسد اس کا طرۂ امتیاز ہے اور اس کی چاروں شاخیں ( فقہِ حنفی ، فقہِ مالکی ، فقہِ شافعی ، فقہِ حنبلی ) پوری امتِ مسلمہ لیے سراپا خیر و برکت ہیں ۔ آج کے اس دورِ قحط الرجال میں جہاں ہر طرف علم و عمل کا چکمتا سورج گہناتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، یہ فقہِ اسلامی ہی ہے جو امتِ مسلمہ کو ہدایت و سعادت اور منزلِ مقصود کی طرف رہنمائی کرتا نظر آتا ہے ۔ فقہِ اسلامی ایک ایسی فکر سلیم اور منہجِ مستقیم کا نام ہے جو قرآن و سنت کے چشمۂ صافی سے سینچا گیا ہے اور اہلِ ایمان کے لیے دنیوی و اخروی فوز و فلاح کا سامان مہیا گیا ہے ۔ یہ وہ عطیۂ الہیٰ ہے جس سے امتِ محمدی کو سرفراز کیا گیا ہے اور اس کی روشنی میں اسے شاہراہِ حیات طے کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے ۔  فقہ اسلامی قرآن وسنت کے عملی احکام کا نام ہے ۔ اس کے بعض و احکام و ارشادات قرآن و سنت کے متعین کردہ ہیں اور بعض احکام کلامِ الہیٰ و حدیثِ نبوی کےاصولوں سے ماخوذ و مستنبط ہیں ۔ ان دونوں کے باہمی امتزاج و ترکیب سے وجود پذیر فقہ اسلامی ایک مستحکم عملی قانون کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے ۔

فقہِ اسلامی کی اہمیت و معنویت کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ : " فقہِ اسلامی ، امتِ مسلمہ کو باہم مضبوط و مربوط کرنے والا وہ نظامِ حیات ہے جس پر اس کی زندگی کی بقا موقوف ہے اور یہ وہ سرمایۂ اعزاز و افتخار ہے جو اس سے پہلے دیگر امتوں کو حاصل نہیں ہوا ۔ نظامِ عالم کا حسن و جمال اور خوبی و کمال اسی پر منحصر ہے ۔ نیز سماجی اور اخلاقی مصالح کا دار و مدار اسی " فقہِ اسلامی " پر ہے " ۔

الفقه الاسلامی جامعة و رابطة للامة الاسلامية و ھو حیاتھا تدوم ما دام و تنعدم ما انعدم و ھو جزء لا یتجزی من تاریخ الامة الاسلامية فی اقطار المعمورة ، و ھو مفخرة من مفاخرھا العظیمة و من خصائصھا التی لم تکن لای امة قبلھا ، اذ ھو فقه عام مبین لحقوق المجتمع الاسلامی بل البشری ، و به کمال نظام العالم فھو جامع للمصالح الاجتماعیة بل و الاخلاقیة ........ فالفقه الاسلامي نظام عام للمجتمع البشری عامة تام الاحکام مکتمل الآراء ، لم یدع شاذة و لا قاذة و ھو القانون الاساسی للدولة الاسلامیة . 

( مقدمة التحقیق ، رد المحتار علی الدر المختار ، جلد اول ، ص : ٢٢ ، دار عالم اللکتب ، الریاض )


فقہ و اُصولِ فقہ جیسے با عظمت اور مہتم بالشان علم کی ترویج و اشاعت اور اس کے فروغ و استحکام میں  اپنی گراں قدر خدمات پیش کرنے والے علما و فقہا میں ہندوستان کی مشہور علمی و ادبی ریاست " بِہار " کے فقہائے عظام و مفتیانِ اسلام ہر دور میں پیش پیش رہے ہیں ۔  فقہ حنفی کے مشہور انسائیکلوپیڈیا "  فتاویٰ عالم گیری  "  کی ترتیب و تدوین میں دو درجن سے زائد بِہار کے مفتیانِ کرام شامل تھے ۔ صوبۂ بہار کے اربابِ فقہ و فتویٰ کی ایک مختصر فہرست ملاحظہ فرمائیں ، تا کہ ان کی فقہی خدمات کا کچھ حد تک اندازہ ہو سکے ۔ اس فہرست میں بیشتر وہ فقہائے کرام ہیں جنھوں نے پوری زندگی فقہ کی امہات کتب کا درس دیا اور اس فن میں کوئی نہ کوئی تصنیفی یادگار بھی چھوڑا ۔


( 1 )  مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ( 2 )  حضرت امام محمد تاج فقیہ ( 3 )  حضرت سید شہباز محمد بھاگل پوری ( 4 ) شیخ ابو تراب پھلواروی ( 5 )  شیخ احمد بن محمد بہاری ( 6 )   مفتی احمد بن محمد حسینی علوی بہاری ( 7 )  مفتی انور علی آروی ( 8 ) فقیہ اعظم مفتی محمد امیر علی خاں ( 9 )  علامہ امیر الحق عظیم آبادی ( 10 )  شیخ ابو الحیات پھلواروی  ( 11 )  مولانا حسن پھلواروی ( 12 )  مولانا خواجہ بہاری ( 13 )  قاضی عنایت اللہ مونگیری - یکے از مؤلفینِ فتاویٰ عالم گیری  ( 14 )  ملا فصیح الدین پھلواروی - یکے از مؤلفین فتاویٰ عالم گیری ( 15 ) ( 16)  ملا قاضی محب اللہ بہاری ( 17 )  تاج العارفین حضرت شاہ مجیب اللہ پھلواروی ( 18 )  شیخ محمد جعفر حسینی پٹنوی ( 19 )  علامہ شیخ رضی الدین بھاگل پوری - یکے از مؤلفینِ فتاویٰ عالم گیری ( 20 ) شیخ عبد الشکور منیری ( 21 )  شیخ معین الدین منیری ( 22 )  مولانا عبد المقتدر بہاری ( 23 ) مولانا مرزا رحیم اللہ بیگ عظیم آبادی ( 24 )  قاضی علی اشرف عظیم آبادی ( 25 )  سید علی اعظم پھلواروی ( 25 )  مولانا عبد الصمد رحمانی مونگیری  ( 26 )  مولانا رحیم اللہ عظیم آبادی ( 27 )  حضرت سید شاہ حسرت عظیم آبادی ( 28 ) حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی مولانا شاہ نصیر الحق محدث عظیم آبادی ( 29 ) مولانا عبد الرشید فوقانی ( 30 )  ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری ( 31 ) مولانا عبد اللہ بایزید پوری گیاوی ( 32 )  مولانا عبد الباری عظیم آبادی ( 33 ) علامہ محمد سلیمان اشرفی بھاگل پوری ( 34 ) مفتی حبیب اللہ نعیمی بھاگل پوری ( 34 )  مفتی طریق اللہ نعیمی رشیدی بھاگل پوری ( 35 )  مفتی شاہ جہاں بھاگل پوری ( 36 )  مفتی ظل الرحمٰن رحمت ضیائی بھاگل پوری ( 37 )  مفتی عمیم الاحسان مونگیری 

یہاں صرف نمونے کے طور پر  37 /  فقہائے بِہار کے اسما بیان کیے گئے ۔ ورنہ مجموعی اعتبار سے ان فقہائے کرام و مفتیانِ عظام کی تعداد سینکڑوں میں ہے ، جن کی پوری زندگی فقہ و افتا کی تدریس اور فتویٰ نویسی میں گذری اور جہاں تک بقیدِ حیات بہاری علما و فقہا کی بات ہے جو مختلف دینی مدارس میں فقہی خدمات انجام دے رہے ہیں ، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔


محققِ حقائقِ شریعت ، رئیس الفقہاء ، استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد ایوب خان نعیمی بھاگل پوری ( شیخ الحدیث و صدر شعبۂ افتا جامعہ نعیمیہ ، مراد آباد ، یوپی ) حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ نعیمی و حضرت علامہ مفتی محمد طریق اللہ نعیمی علیھما الرحمہ کے نام ور اور قابلِ فخر تلمیذ ہیں اور ان دونوں بزرگوں کی علمی جلالت و شانِ تبحر سے علمی و فقہی دنیا خوب اچھی طرح واقف ہے ۔ شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی فرماتے ہیں  : 

"  حضرت مفتی حبیب اللہ نعیمی بھاگل پوری بخاری شریف اس طرح پڑھاتے ہیں جیسے فقہ کی کتاب ہدایہ پڑھا رہے ہیں اور علم حدیث ، اصولِ حدیث و رجالِ حدیث پر اس محدثانہ انداز میں کلام کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے اپنے وقت کے علامہ ابنِ حجر عسقلانی و امام سیوطی گفتگو کر رہے ہیں ۔  " 

تعرف الاشجار باثمارھا . درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور شاگرد اپنے استاذ سے ۔ رئیس الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمد ایوب خان نعیمی دام ظلہ العالی اپنے اساتذۂ کرام کے صحیح معنوں علمی و فکری جانشیں ہیں ۔ اپنی علمی وسعت ، فنی مہارت ، فقہی کمال ، عالمانہ جاہ و جلال اور ذہانت و طباعی میں اس وقت فقہائے اہلِ سنت کے جھرمٹ میں ایک امتیازی حیثیت کے مالک ہیں اور عوام و خواص میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ موصوف اتنے بڑے عالم و مفتی ہیں کہ آج اکابر علما کی ایک بڑی تعداد ان کے دامنِ فیض سے وابستہ اور ان کے خرمنِ علم و فضل کے خوشہ چیں ہیں ۔

حضرت مفتی صاحب قبلہ کی ہمہ جہت دینی ، ملی ، علمی ، فقہی ، تدریسی اور تبلیغی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے ۔ وہ گذشتہ اکسٹھ سال ( 61 ) سے دینِ متین کی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ جامعہ نعیمیہ ، مراد آباد کو خونِ جگر پلا کر سدا بہار گلشن بنانے والوں میں آپ کا نام بھی شامل ہے ۔ اس وقت آپ "  مفتیِ اعظم مراد آباد  " کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ موجودہ فقہائے ہند میں اس وقت آپ " اکابر فقہا " کی لسٹ میں سرِ فہرست گردانے جاتے ہیں ۔ نیز فقہائے بِہار میں آپ کے نام اور کارناموں کو اعتبار کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ علمی و فقہی کارگزاریوں کے علاوہ دعوت و تبلیغ ، رشد و ہدایت ، دعا تعویذ اور اپنے روحانی فیوض و برکات سے بھی قومِ مسلم کو گزشتہ نصف صدی سے مالا مال فر ما رہے ہیں ۔ آپ کی ذات تنِ تنہا ایک انجمن کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس وقت حضرت مفتی صاحب قبلہ بقیۃ السلف اور عمدۃ الخلف کے مقامِ ارفع پر فائز ہیں ۔  اسلاف کرام کی علمی شان ، جوہرِ تقویٰ و طہارت اور ان کی صاف ستھری زندگی کے عملی نمونے آپ کے ذات میں ابھرے ہوئے نقوش کی طرح نمایاں ہیں ۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ یوں تو درس نظامی کے تمام مروجہ علوم و فنون میں مہارت رکھتے ہیں ، لیکن خصوصیت کے ساتھ حدیث و فقہ میں آپ کا علمی پایہ کافی بلند ہے ۔ بخاری شریف کی تدریس کے دوران ان کا محققانہ رنگ و روپ قابلِ دید ہوتا ہے اور جہاں تک فقہ و افتا کی بات ہے تو اس میدان میں آپ کا رہوارِ فکر و قلم صبا رفتار واقع ہوا ہے ۔ دقیق سے دقیق فقہی و شرعی مسائل کو چٹکیوں میں حل فر ما دیتے ہیں ۔ جدید فقہی مسائل میں آپ کو کافی عبور حاصل ہے ۔ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور جیسے عظیم ادارے کے فقہی سیمینار میں آپ کو منصبِ صدارت پر فائز کیا جاتا ہے اور آپ کے علمی و فقہی مباحث کو مستند سمجھا جاتا ہے ۔
جامعِ معقول و منقول حضرت علامہ محمد سلیمان اشرفی ، حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ نعیمی ، حضرت علامہ مفتی طریق اللہ نعیمی اور حضرت علامہ مفتی محمد ایوب خان نعیمی ، صوبۂ بہار کے ضلع بھاگل پور سے تعلق رکھنے والے علم و حکمت اور فقہ و افتا کے وہ عناصرِ اربعہ ہیں جن پر دنیائے اہلِ سنت جتنا بھی ناز کرے ، کم ہے ۔ ان بزرگوں نے اپنے بیش بہا دینی ، ملی اور علمی کارناموں سے پورے عہد کو متاثر کیا ہے ۔

فتویٰ نویسی نہایت حساس اور حد درجہ ذمہ دارانہ عمل ہے ، جس میں فقہی تبحر ، اور مسائلِ دینیہ میں حذاقت و مہارت کے ساتھ دور اندیشی ، حقیقت بینی ، مصالحِ عامہ کی رعایت ، عرف و عادت کا پاس و لحاظ ، غرضِ سائل اور حالاتِ حاضرہ پر عقابی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں خصوصیت کے ساتھ اصولِ فقہ ، اصول و مبادیِ افتا اور قواعدِ فقہیہ میں بصیرت اور ملکہ حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ، تب کہیں جا کر کوئی مفتی فتویٰ دینے کا مستحق سمجھا جاتا ہے ۔

فتویٰ کا لغوی معنیٰ ہے  : 

لوگوں کو مسائلِ شرعیہ سے آگاہ کرنا ، دینی و شرعی احکام و مسائل کو اجاگر کرنا اور دینی و فقہی نوعیت کے سوال کا جواب دینا ۔ 

المعجم الوسیط میں ہے  : 

أَفْتَى فِيْ الْمَسْأَلَةِ ، أَبَانَ الْحُكْمَ فِيْهَا .

یعنی کسی مسئلہ میں اس کا حکم ظاہر کرنا ، افتا یا فتویٰ دینا کہلاتا ہے ۔ 

اَلْفَتْوَىٰ : اَلْجَوَابُ عَمَّا يُشْكِلُ مِنَ الْمَسَائِلِ الشَّرْعِيَّةِ أَوِ الْقَانُوْنِيَّةِ .

فتویٰ سے مراد وہ جواب ہے جو مشکل مسائلِ شرعی یا مسائلِ قانونی میں دیا جاتا ہے ۔

( المعجم الوسيط ، جلد : 2 ، ص : 673 ، دار الدعوة ، بیروت ) 

شرعی احکام بتانے اور دینی مسائل کا جواب دینے کے معنیٰ میں قرآن مقدس میں لفظِ افتا سے ماخوذ افعال اور صیغوں کا استعال متعدد مقامات پر ہوا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے  : 

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ .

( قرآن کریم ، سورۃالنساء ، آیت : 176 ) 

یعنی لوگ آپ سے فتویٰ ( شرعی حکم ) دریافت کرتے ہیں ۔ آپ فر مادیجیے کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں حکمِ شرع بیان فرماتا ہے ۔ 

قرآنِ مجید میں خوابوں کی تعبیر بتانے کو بھی فتویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے : 

يَا أَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ .

( قرآن مجید ، سورہ یوسف ، آیت : 43  ) 

اے درباریو ! مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو ۔


مذکورہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ فتویٰ شرعی مفہوم میں سوالات کا دلائلِ شرعی کی روشنی میں جواب دینے کا نام ہے ۔ فتویٰ ، زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں ہوسکتا ہے ۔ فتویٰ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود حضرتِ انسان کی تاریخ ۔ ہر نبی اپنے اپنے مبارک دور میں اپنی امت کو ان کے دینی و شرعی سوالات کے جوابات دیتے رہے ہیں ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ ہمایوں میں بھی اس کا سلسلہ جاری رہا اور جب آپ کے بعد انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ و السلام کی آمد کا سلسلہ موقوف ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد فتویٰ دینے کی ذمہ داری راسخ العلم علما و فقہا کے سپرد ہو گئی ۔ ساڑھے چودہ سو سال سے فتویٰ نویسی و فتویٰ دہی کا مبارک سلسلہ جاری ہے ۔


جیسا کہ ما سبق میں بتایا گیا کہ فتویٰ نویسی نہایت دشوار کام اور زہرہ گداز منصب ہے ۔ معمولی عالم یا پھر ہر ایرے غیرے کو فتویٰ دینے کا شرعی حق و اخلاقی اختیار نہیں ہے ۔ فتویٰ وہی دے سکتا ہے جو  " جامعِ شرائطِ فتویٰ  " ہو ۔ اکابر علمائے کرام و مفتیانِ اہلِ اسلام نے فتویٰ نویسی کے مندرجہ ذیل اصول و شرائط بیان کیے ہیں  : 
  

( ١ )   مفتی کے سامنے جو سوال پیش کیا جائے اسے بغور سنے ، پڑھے ۔ سوال کا منشا کیا ہے ؟ اسے سمجھنے کی کوشش کرے ۔ ضرورت ہو تو سائل سے مخفی گوشوں کے تعلق سے وضاحت بھی طلب کرے ۔ 


( ٢ )   سوال تفصیل طلب ہو اور الگ شقوں کو جواب دینے میں یہ احتمال ہو کہ سائل اپنے لیے اس شق کو اختیار کر لے گا جس میں اس کا نفع ، یا سرخروئی یا عافیت ہو ، گو کہ اس کا معاملہ اس شق سے وابستہ نہ ہو تو اپنی طرف سے شق قائم کر کے جواب نہ دے ، بلکہ تنقیح کے ذریعے صورتِ واقعہ کی تعیین کرے اور پھر جواب دے ۔ 

( ٣ )   جواب میں سوال کی مناسبت سے جتنے جزئیات مل سکیں سب پر اچھی طرح غور کر لے ، جو جزئیہ سوال کے مطابق ہو اسی کو نقل کرے ۔ 
 
( ٤ )   جواب مذہب کی کتبِ معتمدہ مستندہ سے دے ۔ کتبِ ضعیفہ سے استناد نہ کرے ۔ 

( ٥ )   پیش آمدہ سوال کے تعلق سے جزئیات دو طرح کے ہوں ، یا ایک ہی جزئیہ میں دو طرح کے احتمالات ہوں تو اصحابِ ترجیح میں سے کسی فقیہ نے جس قول ، یا جس احتمال کو ترجیح دیا ہو ، اسے اختیار کرے ۔ 

( ٦ )   اور اگر ترجیح بھی مختلف ہو تو اصحابِ تمیز نے فتاویٰ کے لیے جسے اختیار فرمایا ہو ، اس پر فتویٰ دے ۔ اگر وہ مفتیٰ بہ قول کی دریافت سے عاجز ہو تو اپنے سے افقہ کی طرف ( سائل کو ) رجوع کرنے کا حکم دے ، یا خود رجوع کرے ۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو توقف کرے کہ اب جواب دینا فتویٰ نہیں " طغویٰ " ہوگا ۔

( ٧ )   جواب تمام ضروری گوشوں کو محیط ہو ۔ اس کے لیے وسعتِ مطالعہ ، استحضار اور تیقّن نا گزیر ہے ۔
 
( ٨ )   جواب کا تعلق کسی دشواری کے حل سے ہو اور حل مختلف ہو تو جواب میں اس حل کو اختیار کرے جو قابلِ عمل ہو اور جو حل کسی وجہ سے قابلِ عمل نہ ہو تو اس کا ذکر عبث ہوتا ہے ۔ 

( ٩ )    مفتی کو بیدار مغز ، ہو شیار ہونا چاہیے ۔ غفلت برتنا اس کے لیے درست نہیں ۔ کیوں کہ اس زمانے میں اکثر حیلہ سازی اور ترکیبوں سے واقعات کی صورت بدل کر لوگ فتویٰ حاصل کر لیتے ہیں اور دوسروں کے سامنے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فلاں مفتی نے مجھے فتویٰ دیا ۔ محض فتویٰ ہاتھ میں ہونا ہی اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں ، بلکہ مخالف پر اس کی وجہ سے غالب آ جاتے ہیں ۔ اس کو کون دیکھتا ہے کہ واقعہ کیا تھا اور سوال میں کیا ظاہر کیا گیا تھا ۔ 

( ١٠ )   مفتی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بردبار ، خوش خلق ، ہنس مکھ ہو ۔ نرمی سے بات کرے ۔ غلطی ہو جائے تو ( اپنا قول و فتویٰ ) واپس لے ۔ اپنی غلطی سے رجوع کرنے میں کبھی دریغ نہ کرے ۔ یہ نہ سمجھے کہ مجھے لوگ کیا کہیں گے کہ غلط فتویٰ دے کر رجوع نہ کرنا ، حیا سے ہو یا تکبر سے ، بہر حال حرام ہے ۔

( ١١ )   ان تمام امور کے ساتھ ایک امرِ لازم یہ بھی ہے کہ جامعِ شرائطِ فتویٰ ، ماہر مفتی کی خدمت میں شب و روز حاضر رہ کر افتا کی تربیت حاصل کرے ، جد و جہد کا خوگر بنے اور کثرتِ مشق و مزاولت سے خود مندرجہ بالا امور کا ماہر بنے ................  جو عالمِ دین ان اوصاف و شرائط کا جامع ہو ، وہی نقلِ فتویٰ ( فتوی دینے ) کا اہل ہے اور وہی قابلِ اعتماد و لائقِ استناد مفتیِ ناقل ہے اور اس کے فتاویٰ اس سے نیچے درجے کے علما کے لیے حجت اور واجب العمل ہیں ۔


( فقہ اور افتا کی تدوین و تاریخ ، ص : 52 - 54 )


مندرجہ بالا اصول و شرائط سے فتویٰ نویسی کی دشواریوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ حضرت علامہ مفتی محمد ایوب خان نعیمی حفظه اللہ تعالیٰ کو فتویٰ نویسی میں مہارتِ تامہ حاصل ہے ۔ اصول و فروع ، متون و شروح اور فقہ حنفی کے دلائل و جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور دورانِ فتویٰ مذکورہ اصول کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔ سوال کے بین السطور ، سائل کے مطمعِ نظر اور مستفتی کی مراد کو ایک نظر میں بھانپ لیتے ہیں اور مصالحِ عامہ کی رعایت کرتے ہوئے دلائل و شواہد کی روشنی میں دو ٹوک انداز میں حکمِ شرع بیان فرماتے ہیں ۔ فتویٰ نویسی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ تقریباً چالیس سال سے نعیمی دار الافتاء ، مراد آباد کو زینت بخشے ہوئے ہیں اور مسائلِ شرعیہ و احکامِ فقیہہ کی زلفِ برہم سنوارنے کے ساتھ دینی و شرعی معاملے میں قوم و ملت کی صحیح رہنمائی فرما رہے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ کے فتاوے کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے ، جو تقریباً 25 / جلدوں پر مشتمل ہیں ۔ یہ وقیع فتاویٰ اور گراں قدر علمی تحقیقات ، فقہِ حنفی کے سرمایے میں قابلِ قدر اضافہ ہونے کے ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ و استحکام کا بھی ذریعہ ہیں ۔ اس مجموعۂ فتاویٰ کے مطالعے سے جہاں حضرت مفتی صاحب قبلہ کی علمی جلالت اور فقہی مہارت عیاں ہوتی ہے ، وہاں ان کے تحقیقی شعور و وجدان کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ 

پوری دنیائے اہلِ سنت کے لیے بالعموم اور اربابِ علم و افتا کے لیے بالخصوص یہ اعزاز و مسرت کی بات ہے کہ آپ کا مجموعۂ فتاویٰ بنام  "  المواھب النعیمیه فی الفتاویٰ الایوبیه  "  تحقیق و تخریج و مفید حواشی کے ساتھ عنقریب منظرِ عام پر آنے والا ہے ۔ لائقِ مبارک باد ہیں شہزادۂ مفتی اعظم مراد آباد ، سفیرِ امن و محبت ، مبلغ اسلام حضرت علامہ مفتی مسعود رضا نعیمی دام ظلہ العالی جن کی قیادت و سرپرستی اور خاص توجہ سے یہ گراں قدر علمی و فقہی سرمایہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ۔ حضرت مفتی مسعود رضا صاحب قبلہ گذشتہ دو دہائیوں سے امریکہ جیسے اسلام بیزار ملک میں رہ کر دین و سنیت کی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ موصوف کا شمار شہرِ بھاگل پور ( بہار ) کے با صلاحیت اور با وقار علمائے کرام میں ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کے صدقے ان کی عمر و اقبال میں برکتیں عطا فرمائے ۔ 


حضرت مفتی معروف رضا مصباح نعیمی کا ایک گراں قدر علمی کارنامہ   :  


تصنیف و تالیف کی طرح تحقیق و تخریج اور ترتیب و تدوین کا کام بھی نہایت دشوار اور صبر آزما ہوتا ہے اور اس کے لیے محنت و مشقت ، جاں سوزی و جگر کاوی اور سب سے بڑھ کر جذبۂ ایثار و اخلاص کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جو لوگ اس منزل کے مسافر رہ چکے ہیں ، وہ اس کی صعوبتوں سے بخوبی واقف ہوں گے ۔  کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ ، ماخذ کی تلاش ، کتب بینی ،  حوالوں کی نشان دہی اور زیرِ تحقیق و تخریج کتابوں میں درج عبارتوں کا اصل ماخذ سے مقابلہ ۔ یہ کام کتنا دشوار ہے ، اس سے اہلِ علم خوب واقف ہیں ۔ اس صبر آزما اور زہرہ گداز کام کی انجام دہی کے لیے ایسے ہی با حوصلہ اور شاہین صفت افراد کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔

 عالمِ نبیل ، فاضلِ جلیل ، خطیبِ عصر حضرت علامہ مفتی ڈاکٹر معروف رضا مصباح نعیمی حفظه الباری ( سربراہِ اعلیٰ رضوی نعیمی دار الافتاء و خواجہ معین الدین لائبریری ، کشن گنج ، بہار ) نئی نسل کے علمائے اہلِ سنت میں بہت سارے اوصاف و خصوصیات کے حامل ہیں ۔ ذی استعداد عالم ، ماہر مفتی اور شاہین صفت مصنف و محقق ہیں ۔ اسلامیات و فقہیات کے ایک ممتاز اسکالر ہیں ۔ اتنی کم عمری میں جس انداز سے بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں ، اس سے ان کی ذہانت و لیاقت ، ہوش مندی و سلیقہ شعاری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ دین و دانش کی خدمات کے حوالے سے مولانا موصوف نے بیک وقت کئی مورچوں کو سنبھال رکھا ہے اور بقدرِ استطاعت نہایت خلوص اور لگن کے ساتھ قوم و ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ ، تصنیف و تالیف اور روحانی علاج و معالجہ کے ذریعے ایک جہاں کو فیضیاب کر رہے ہیں اور حدیث پاک " خیر الناس من ینفع الناس " کا مصداق بن کر دوسروں کو دعوتِ فکر و عمل دے رہے ہیں ۔ ماشاء اللہ ! اپنے علم سے بھی بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اپنے مال و متاع سے بھی قوم و ملت کی نفع رسانی کا کام انجام دے رہے ہیں ۔ احقر العباد ( محمد طفیل احمد مصباحی ) اپنے جن ہم عصر علمائے کرام کے بے لوث دینی و علمی کارناموں سے متاثر ہے ، مفتی معروف رضا مصباح نعیمی ان میں سے ایک ہیں ۔ " المواھب النعیمیه فی الفتاویٰ الایوبیه " کی تحقیق و تخریج ان کا ایک زبردست علمی و تحقیقی کارنامہ ہے ، جو بڑے بڑے کارناموں پر بھاری ہے ۔ جس کام کے لیے ایک تنظیم اور اکیڈمی کی ضرورت تھی ، اس کام کو انہوں نے نہایت محنت و مشقت اور کمالِ عرق ریزی سے تنِ تنہا انجام دیا ہے ۔ خالقِ لوح و قلم نے 
موصوف کو علم و ادب اور فکر و فن کے ساتھ قرطاس و قلم کی دولتِ بے بہا سے نوازا ہے اور وہ اس دولت کا استعمال دین کی ترویج و اشاعت کے لیے بڑی فراخ دلی کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ اب تک مندرجہ ذیل کتابیں ان کی نوکِ قلم سے منصۂ شہود پر آ چکی ہیں  :

( 1 )  نعیم الفقه فی الجزئیات الشرعیه  ( 2 )  نعیم النحو شرح ھدایۃ النحو  ( 3 )  فیوض النعیمی شرح اصول الشاشی  ( 4 )  اللمعات الازھریه علیٰ التفسیرات الاحمدیه  ( 5 )  مصباح المشکوٰۃ لاحکام الزکوٰۃ ( 6 )  فتاویٰ دار العلوم صدیق اکبر - معروف به فتاویٰ عثمانیہ  ( 7 )  فتاویٰ مصباح الشریعه - معروف به فتاویٰ بہار و بنگال  ( 8 )  خطباتِ بہار

زیرِ نظر کتاب  "  المواھب النعیمیه فی الفتاویٰ الایوبیه  " کی تحقیق و تخریج کر کے مفتی معروف رضا صاحب نے ایک بہت بڑا علمی کارنامہ انجام دیا ہے ، جس کے لیے وہ دنیائے علم و ادب کی طرف سے تحسین و تبریک کے مستحق ہیں ۔ اگر مولانا موصوف اپنی عنانِ توجہ اس جانب مبذول نہ کرتے تو شاید دیگر کتبِ فقہ و فتاویٰ ( جو ہنوز تشنۂ طباعت ہیں اور محققین کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں ) کی طرح یہ فقہی سرمایہ بھی اپنی علمی و فقہی افادیت سے عوام و خواص کو فیضیاب نہیں کر پاتا ۔ لیکن مقامِ شکر و اطمینان ہے کہ مولانا موصوف نے اپنی انتھک کاوشوں اور شبانہ روز محنتوں سے اس کی افادیت کو عام کیا ، بلکہ دنیائے اہل سنت پر ایک عظیم احسان کیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں شاد و آباد رکھے ۔ آمین ۔
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم