Waqt Ki Ahammiyyat o Ifadiyyat ‎/ وقت ‏کی ‏اہمیت ‏و ‏افادیت ‏


🥀 وقت کی اہمیت و افادیت...! 🥀

✍️تحریر: العاشقی.....!

               وقت، اللہ ربّ العزت کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک ایسی نعمت ہے جس کا انسانی دنیا کو مزین کرنے میں ایک اہم کردار ہے ۔وقت بے حساب اہمیت کا حامل ہے۔ روز مرہ کا مشاہدہ ہے،جس شخص کو وقت کی اہمیت کا جتنا ادراک ہوتا ہے وہ اپنےوقت کا اسی قدر صحیح استعمال کرتا ہے، وقت کی پابندی اور وقت کا صحیح استعمال آدمی کی کامیابی کا بڑا سبب ہے،اسی لیے اگر دنیا کی جتنی بھی کامیاب شخصیات کی زندگی کو دیکھا جائے تو وقت کی پابندی ان کی زندگی کا اہم عنصر نظر آئیگا،اسی طرح جس معاشرہ کے افراد کو وقت کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے وہ معاشرہ کامیاب معاشرہ ہوتا ہے۔
مزہب اسلام میں بھی وقت كی اہمیت كا خاص مقام ہے،اسلام کے سارے بنیادی احکام اوقات سے مقید ہے؛ہر نماز کا وقت محدود ہے اس وقت سے ایک منٹ آگے یا پیچھے ہو تو نماز ناقص رہتی ہے،اسی طرح رمضان اور عید کی تعیین کے لیے چاند دیکھنا لازمی ہے، روزہ کھولنے اور بند ہونے میں بھی وقت کے اہتمام کا خاص مقام ہے؛حالانکہ ان احکام کی ادائیگی میں ایک منٹ یا ایک دن کی تاخیر وتقدیم سے حکم کے بنیادی مقصد پر کوئی فرق نہیں پڑیگا،لیکن اسلام نے ہر عبادت کا وقت مقرر کرکے زندگی کے دوسرے شعبوں میں ہماری رہنمائی کی ہے۔

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جا بجا ’’وقت‘‘ کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اوقات کی قسم کھائی ہے۔ چناں چہ سورۃ الفجر میں، وقتِ فجر اور عشرہ ذوالحجہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:
"وَالْفَجْرِO وَلَيَالٍ عَشْرٍO
(الفجر، 89 : 1 - 2)"
’’فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔‘‘

پھر ایک مقام پر رات اور دن کی قسم بھی کھائی۔اور فرمایا: 
وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىO وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىO
(الليل، 92 : 1 - 2)

’’رات کی قسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپالے) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔‘‘

اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ میں وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَالضُّحَىO وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىO
(الضحيٰ، 93 : 1 - 2)

’’قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘

جب کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ عصر میں زمانے کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَالْعَصْرِO إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍO
(العصر، 103 : 1 - 2)

’’زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے) بیشک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)‘‘

مذکورہ تمام آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے وقت فجر، صبح، چاشت، رات، دن اور زمانے کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ ہمیشہ کسی غیر معمولی اور اہم شے کی ہی قسم کھاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جو اس نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ان کے ذریعے درحقیقت انسانی دنیا خاص کر قوم مسلم کو جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب لیا جائے گا۔

احادیث مبارکہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت کی اہمیت کو بیحد وضح کیا ہے۔

1۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
🌕 نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس: الصحة والفراغ.
( بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، 5 : 2357، رقم : 6049)
( ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب الصحة والفراغ. . . ، 4 : 550، رقم : 2304)
(معجم الاوسط ج 6 ص 193)

’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘

جب صحت ہوتی ہے تو لوگ نیک اعمال نہیں کرتے، اور جب بڑھاپے کی لڑکھڑاتی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو تسبیح پر تسبیح پڑھتے ہیں، یاد رہے جوانی کے عبارت کہیں زیادہ فضیلت کی حامل ہے، بڑھاپے کی عبادت سے، اور جب فرصت ہوتی ہے تو اعمال کو عبادات کو ٹال دیتے ہیں کہ کل کریں گے، افسوس صد افسوس کہ ان کا کل آتا ہی نہیں ہے، جس کے نتیجے میں اپنی جوانی کی فرصت کو یوں ہی موج ومستی اور غفلت میں ضائع کرکے بڑھاپے میں کف افسوس ملتے ہیں، جس کا جوانی کے مقابلے میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا، اسی وجہ سے تو علماء فرماتے ہیں کہ وقت ہی اصل زندگی ہے اس کا صحیح استعمال کر کےاس کو اس طرح گزارو کہ وہ آپ کو راہ رست پر لا کر جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔

2۔ حضرت ابو بَرزَہ اَسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
🌕 لا تزول قدما عبد حتى يسأل عن عمره فيما أفناه، وعن علمه فيما فعل، وعن ماله من أين اكتسبه وفيما أنفقه، وعن جسمه فيما أبلاه.
(ترمذي، السنن، کتاب صة القيامة والرقائق، باب ما جاء ہي شأن الحساب والقصاص، 4 : 612، رقم : 2417)

’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا : 1۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری، 2۔ اس نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا، 3۔اس نے مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا۔ 4۔اس نے اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘


انسان اپنی زندگی میں کوئی بھی کام کرے تو اس سے پہلے یہ ضرور سوچے کہ اس کام میں میرے لیے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ موجود ہے یا نہیں۔ اگر کسی کام میں کوئی فائدہ نہیں ہے تو وہ فضول اور لایعنی کام ہے اور اس سے اپنے وقت کی حفاظت کرنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔ اگر ہم نے ہر کام کرنے سے پہلے اس سوچ کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا تو ہمارے لیے اپنے اوقات کو ضائع ہونے سے بچا نا آسان ہوجائے گا اور روز قیامت حساب و کتاب میں آسانی ہوگی۔ 

3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
🌕 إن قامت الساعة وفي يد أحدكم فسيلةً فإن استطاع أن لا تقوم حتى يغرسها فليغرسها.
(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 191، رقم : 13004)

’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لئے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہئے۔‘‘

ہم اپنے قیمتی لمحات کو ادھر ادھر چوپالوں میں پیٹھ کر گزار دیتے ہیں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر مختصر وقت میں کوئی نیکی کا کام ملے تو اسے چھوٹا سمجھ کر چھوڑ نہ دینا اور ہوٹلوں میں وقت ضائع مت کر دینا بلکہ اس چھوٹی نیکی کو بھی کر لینا۔ 

4۔ حضرت مَعقہل بن يَسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
🌑 ليس من يوم يأتي على ابن آدم إلا ينادى فيه : يا بن آدم ! أنا خلق جديد ، وأنا فيما تعمل عليك غدًا شهيد ، فاعمل في خيرًا أشهد لك غدًا ، فإني لو قد مضيت لم ترني أبدًا ، قال : ويقول الليل مثل ذلك.
(أبو نعيم أصبهاني، حلية الأولياء، 2 : 303)

’’اولادہ آدم پر ہر نیا آنے والا دن (اسے مخاطب ہوکر) کہتا ہے : اے ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، میں کل (یوم قیامت) تمہارے عمل کی گواہی دوں گا پس تم مجھ میں عملہ خیر کرنا کہ میں کل تمہارے حق میں اسی کی گواہی دوں، اگر میں گزر گیا تو پھر تم مجھے کبھی بھی دیکھ نہیں سکو گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی طرح کے کلمات رات بھی دہراتی ہے۔‘‘

ہر آنے والا وقت انسان کو تنبیہ کرتا ہے اے انسان اگر میں گزر گیا اور تونے صحیح استعمال نہیں کیا تو اس کا بھی روز جزا تجھ سے حساب لیا جائے گا۔ 

5۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ہرمایا:
🌕 اغتنم خمسًا قبل خمس : شبابك قبل هرمك، وصحتك قبل سقمك، وغناك قبل فقرك، وفراغك قبل شغلك، وحياتك قبل موتك.
(حاکم، المستدرک، 4 : 341، رقم : 7846)

’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو : بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجی سے پہلے تونگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘

تمام احادیث کریمہ ہمیں وقت کی اہمیت و قدر کا پتہ دے رہی ہیں۔

🥀اکابرین کی نظر میں وقت کی اہمیت🥀

صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کبار رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کی صحیح معنی میں قدر کی، تبھی تو صدیاں گزرنے کے باوجود حقیقی معنی میں زندہ ہیں۔ وقت کی اہمیت پر ان عظیم ہستیوں کے چند اقوال و احوال ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے:
أني لأمقت الرجل أن أراه فارغًا، ليس ہي شيء من عمل الدنيا ولا عمل الآخرة.
(ابن ابي شيبة، المصنہ، 7 : 108، رقم : 34562)
’’بے شک مجھے اس فارغ شخص سے نفرت ہے جسے کسی دنیاوی اور اخروی عمل کی پرواہ نہیں۔‘‘

 اسی پر حضرت ابودَرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ابن آدم، أنت أيام کلما ذهب يوم، ذهب بعضک.
(بيهقي، شعب الإيمان، 7 : 381، رقم : 10663)

’’اے ابنِ آدم! تو ایام کا مجموعہ ہے، پس جب (تیرا) کوئی دن گزرتا ہے تو تیرا (زمانۂ حیات کا) کچھ حصہ ڈھلتا ہے۔‘‘


3۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أدرکت أقواماً کان أحدهم أشح علي عمره منه علي دراهمه ودنانيره.
(ابن مبارک، الزهد، 1 : 4، رقم : 8)
’’میں نے ایسے لوگوں کا زمانہ پایا ہے جن میں سے ہر ایک درہم و دینار کی نسبت اپنی (طاعت و عبادت کی مجاہدانہ) زندگی کو زیادہ ترجیح دیتے تھے_ 

مذکورہ اقوال و احوال اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارے اکابرین وقت کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے تھے اور اس پر عمل پیراں بھی تھے۔عربی کے معروف عالم ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے  "الوقت فی حیاۃ المسلم“ میں قرآن و سنت کی روشنی میں وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ میں وقت اور مسلمان کی زندگی میں اسکی قدرو قیمت کے عنوان سے اخبارات میں لکھ رہا تھا کہ دوران مطالعہ میں نے دیکھا کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے معاملے میں اتنے فکر مند تھے کہ ان کی یہ فکر مندی ان کے بعد کے لوگوں کی درہم و دینار کی حرص سے بھی بڑھی ہوئی تھی فکر مندی کے باعث ان کے لئے علم نافع، عمل صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا اور اسی کے نتیجے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ پھر میں آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کس طرح اپنے اوقات کو ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایک دن وہ بھی تھا کہ دنیا کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ اسلامی فرائض و آداب وقت کی قدرو قیمت اور اسکی اہمیت کو اپنے ہر مرحلے میں بلکہ ہرجزو میں بھر پور طریقے سے واضع کرتے ہیں اور انسان کے اندر کائنات کی گروش اور شب و روز کی آمد ورفت کے ساتھ وقت کی اہمیت کا احساس اور شعور بیدار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت برق رفتار ہوتاہے اور گزرا ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا اور نہ ہی اس کاکوئی بدل ہوتا ہے اس لئے یہ انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اور اسکی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر عمل اور نتیجہ کےلئے وقت درکار ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیت میں انسان کا حقیقی سرمایہ وقت ہی ہے لیکن اس کے باوجود آج جب ہم طلبہ علوم نبویہ اور عصریہ پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت کو ضائع کرتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے ایسے اسباب و عوامل ہیں جس کی وجہ سی وہ وقت کو ضائع بھی کردیتے اور انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ذیل میں چند اسباب درج کیئے جارہے ہیں


(1)طلبہ کا اپنے گروپ میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے گپ شپ لگانا_

(2)فیس بک، واٹسپ اور موبائل فون کا کثرت سے استعمال کرنا_

(3)غلط عادت کا ہوجاناجیسے فلمیں و کامیڈی دیکھنا ،گانا دیکھنا و سننا اور لڑکیوں سے بات کرنا وغیرہ_

(4)زیادہ وقت کھیل اور سونے میں گزارنا اور کلاس اور مسجد سے غیر حاضر رہنا_

(5)ایک دوسرے کی غیبت چنغل خوری کرنا، عیب جوئی کرنا ،ایک دوسرے کو لڑانے کی کوشش کرنا، طلبہ کے سامنے اساتذہ اور اساتذہ کے سامنے طلبہ کی کمیوں کو بتانا یا پھر تہمت لگانا اور اپنے آپ کو بہت زیادہ کامیاب اور لائق و فائق سمجھنا_

اگر عصر حاضر کے طلبہ مذکورہ بالا اسباب کا خاتمہ کردے اور وقت کا صحیح استعمال کرنے لگے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کامیاب انسان ہونگے اور بہت سارے فائدے انہیں حاصل ہونگے_

       غرض یہ کہ ہمیں من حیث القوم ضیاع وقت کی اس بیماری پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب سے پہلے اپنے اوقات کی قدرو قیمت اپنے ذہن میں بٹھائیں اور پھر ان اوقات کا درست استعمال کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ ترقی وہی قوم کرتی ہے جو اپنے اوقات کی حفاظت کرتی ہے اور ان کا درست استعما ل کرتی ہے۔ جو قوم اپنے اوقات کو ضائع کرتی ہے ترقی کبھی اس کا مقدر نہیں ہوتی ہے۔ عربی کا ایک مقولہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ”وقت کی مثال تلوار کی ہے، اگر اس کا صحیح استعمال کیا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تمہیں کاٹ دے گی“۔ ہمیں وقت کی اس کاٹ سے اپنی حفاظت کرنی ہے_

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم