Yeh Saleeqa Ho To Har Baat Suni Jaati Hai


🥀یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے...!🥀

روئے ارض پر انسانی پیدائش کی تاریخ جتنی قدیم ہے اتنی ہی قدیم تاریخ بات کرنے کی بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ 
انسان کی پیدائش اور گفتگو دونوں ہم عمر ہیں۔ 
قرآن مجید میں تخلیق آدم کے فوری بعد حضرت آدم کے بولنے کا ذکر آیا ہے۔۔۔۔ 
”فرمایا! اے
آدم ان چیزوں کے نام بتادو، پھر جب آدم نے انہیں ان کے نام بتادیئے فرمایا،کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپا تے ہو اسے بھی جانتا
ہوں۔“
(القرآن33:2)۔
اس آیت مبارکہ سے جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے فوری بعد آپ کے بات کرنے کا ہمیں علم ہوتا ہے وہیں پتہ چلتا ہے کہ زبان اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔۔۔۔۔ 
اللہ تعالی ہی نے انسانوں کو اعجاز نطق سے سرفراز فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی اکرم ﷺ نے گفتگو کے فن کو معراج عطا کی۔۔۔۔۔۔ آپ ﷺ کو "جوامع الکلم" سے سرفرازکیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ 
ایمان کی دولت سے مالا مال اور نبی اکرم ﷺ کی محبت سے سرشار انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ گفتگو کے آداب سیکھیں کیونکہ الفاظ و محاورات بھی انسان کے لباس کی طرح شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ و محاورات کی حرمت سے واقف آدمی کو دنیا میں وقار و تمکنت حاصل ہوتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ ومحاروں کا غیر مناسب استعمال انسانی کردار کو مسخ کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ انسان گفتگوکے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ 
گفتگو کے لئے بہترالفاظ کا استعمال آدمی کو جہاں بلند و بالا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے وہیں غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے آدمی کی عزت گھٹ جاتی ہے اور معاشرے میں وہ اپنی حیثیت گنوا بیٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

حضرت لقمان سے ان کے آقانے کہا کہ ایک بکری ذبح کرو اور اس میں سےجو سب سے اچھی چیز ہے اس کو پکا کر لاؤ۔۔۔۔۔۔
حضرت لقمان نے بکری کو ذبح کیا اور اس کے دل اور زبان کو پکا کر اپنے آقا کوپیش کیا۔۔۔۔۔ دوسرے دن بادشاہ نے پھر سے حضرت لقمان کو ایک بکری ذبح کر کے اس میں سے سب سے بدترین چیز کو پیش کرنے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے اپنے آقا کے حکم کے مطابق پھر ایک بکری ذبح کی اور اس میں سے پھر ایک بار دل اور زبان پکاکر پیش کی۔۔۔۔۔۔
یہ دیکھ کر ان کا مالک انھیں تعجب سے دیکھنے لگا اور پوچھا یہ کیاہے؟ میں نے جب آپ کو ذبح کردہ بکری سے بہترین چیز پکا کر لانے کو کہا توآپ نے دل اور زبان لا کر دی اور جب میں نے بدترین شئی کو لانے کو کہا
تب بھی آپ نے دل اور زبان ہی پیش کیئے۔۔۔۔۔۔۔ 
بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ اس پر حضرت لقمان نے فرمایا جناب اگر یہ دونوں چیزیں صحیح ہوں تو یہ بہترین چیزیں ثابت ہوتی ہیں اور اگریہ دونوں چیزیں خراب ہوں تب ان سے بدتر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔ 
اکثر لوگ اپنی گفتگو یعنی کہ زبان کی وجہ سے کرب و اذیت اور ہلاکت کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ زبان کی جب حفاظت کی جاتی ہے تب انسان ناگہانی مصائب سے خود کو محفوظ رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔ انسانی جسم میں گوشت کا ایک ایسا لوتھڑا زبان ہی ہے جو اسے پستی سے بلندی اور بلندی سے پستی تک پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔۔
زبان کے صحیح استعمال سے انسان جہاں سرخرو اور کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کاشمار نیکوکاروں میں ہونے لگتا ہے وہیں بدزبانی کی وجہ سے وہ معاشرے
کا سب سے غیر پسندیدہ شخص گردانا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
اسی لئے کہا گیا ہے کہ ”پہلےتو لو پھر بولو“ بالکل یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی ہے لیکن یہ انسان کی ہڈیاں باآسانی تڑوا سکتی ہے۔۔۔۔۔انسان کی گفتگو اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اچھی اور پر اثر شخصیت کے لئے پر اثر انداز گفت و شنید بھی بےحد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔
آدمی بات کرنے سے پہلے غور و فکر کرےاور الفاظ کے انتخاب و استعمال میں محتاط رہے۔۔۔۔۔ گفتگو کے دوران آواز دھیمی رکھے اور لہجہ بھی مناسب رکھے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔۔۔۔۔۔ زندگی کے ہر موڑ پر شریعت اسلام ہماری رہنمائی و رہبری کے لئے کافی ہے۔۔۔۔۔ زندگی کے تمام معاملات کی طرح اسلام گفتگوکرنے کے بھی ہمیں آداب،طور،طریقے سکھاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ سنت رسول ﷺ سے ہر گھڑی ہمیں کب،کہاں،کیا اور کیسے بات کرنا ہے، رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
گفتگو کی وجہ سے آدمی لوگوں کے دلوںمیں اترتا ہے یا پھر لوگوں کے دل سے اترجاتا ہے۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے انسان کو زبان
و بیان کی عظیم صلاحیت سے نوازا ہے۔۔۔۔۔۔۔ انسان اپنی زبان کی وجہ سے جہاں کامیاب و کامران ہوتا ہے وہیں اپنی زبان کی وجہ سے ذلت و رسوائی اس کامقدر بن جاتی ہے
۔۔۔۔۔ 
اسلاف نے تعلیم و تربیت کا جو منہج اختیار کیا تھاوہ انسان کو فوز و فلاح کی جانب گامزن کرنے والا تھا۔ 
معاشرہ جدیدیت کے نام پر اسلاف کے انداز تعلیم و تربیت سے انحراف کرتے ہوئے آج تباہی کے دہانےپر پہنچ چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ آج تعلیم کے حصول کے لئے والدین بہت زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں لیکن تربیت کے شعبے میں والدین تو کجا اساتذہ بھی تن آسانی سے کام لینے لگے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
دانشوروں کا کہنا ہے کہ پرندے جال میں دانےاور انسان اپنی زبان سے پھنس جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جو انسان اپنی زندگی خوشی و عافیت سے بسر کرنے کے متمنی ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبانوں پر قابو رکھیں اور گفتگو کرنے کے طور طریقوں سے خود کو متصف کریں۔۔۔۔۔۔۔ 
ارسطو کے مطابق گفتگو تین قسم کی ہوتی ہے
۔:Ethos (1)گفتگو کی وہ قسم ہے جو یقین و سچائی سے پر ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کہنے اور سننے والے کے مابین اعتماد کی فضاء پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ گفتگو واضح، بامعنی اور پر اثر ہوتی ہے۔۔۔۔۔ بات کرنے والا مقابل کی ذہنی حیثیت سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور اس کی ذہنی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کرتا ہے جس کی وجہ سے گفتگو بے یقینی اور تشکیک سے بالکل پاک ہوتی ہے۔ 
۔Pathos (2) اس قسم کی
گفتگو میں سننے اور کہنے والے کے بیچ ایک جذباتی تعلق پایا جاتا ہے۔۔۔۔ یہ گفتگو جذباتی عنصر کو اپنے اندر سموئے رہتی ہے۔Logos(3)؛۔ یہ حقائق اورمنطقی عناصر پر مبنی گفتگو کی تیسری قسم ہے جو تجزیاتی فکر،مشاہدے اور حکمت عملی پر منحصر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ دور اندیش اور عقل مند لوگ بولنے سےپہلے سوچتے ہیں جبکہ بے وقوف لوگ بات کرنے کے بعد سوچتے ہیں اوراس طریقہ کار میں سوائے تاسف اور افسوس کے کچھ ہا تھ نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی ملک و معاشرے کی خوشحالی، نظم و ضبط کی پابندی و باقاعدگی کی اہم وجہ شہریوں کے گفتگو کا معیار ہوتا ہے۔۔۔۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک عظمت کی معراج کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کے افراد کی زبانوں سے ادا کیئے جانے والے الفاظ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو خوشامد اور خودستائی پر مبنی نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔۔۔۔ لفظوں کی حساسیت اور حرمت کا احساس جس معاشرے میں نہ ہو وہ بدحالی ، بد اخلاقی اور معاشی ابتری کا مرقع بن جاتے ہیں۔ جب کسی معاشرے میں افراد سچائی، یقین، معیار و اقدار سے متنفر و عاری ہوں وہاں معاشی اور اخلاقی آسودگی کسی بھی طور نہیں پائی جاسکتی۔۔۔۔۔۔ معاشرے کی خوشحالی و آسودگی کا
راست تعلق گفتگو سے ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اس مضمون میں گفتگو کو موثر و مدلل بنانےکے طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ہم کو گفتگو کے آداب و سلیقے سےآراستہ کیا۔۔۔۔۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”لوگو ں میں سب سے محبوب اورآخرت میں مجھ سے زیادہ قریب اچھے اخلاق والے لوگ ہوں گے“
(سننالترمذی)۔ 
اچھے اخلاق والے افراد وہ ہوتے ہیں جن کی گفتگو فحشگوئی،جھوٹ،افترا،چغلل خوری اور کذب بیانی سے پاک ہوتی ہے۔ اللہ تبارک تعالی فرماتا ہے:
”لوگوں سے اچھی باتیں کہو“
(القرآن)۔ 
قرآن ایمان والوں کو اپنی
آواز پست رکھنے کا حکم دیتا ہے،چیخنے چلانے سے سخت منع کرتاہے۔
”اپنی رفتار میں میانہ روی(اعتدال) اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو،یقیناآوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔“
(القرآن)
۔نبی اکرم ﷺ نے
فرمایا کہ فضول گفتگو سے سکوت بہتر ہے۔ 
”جو شخص اللہ اور قیامت کے دنپر ایمان رکھتا ہے تو اس کو چاہیئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموشرہے۔“
(بخاری)
یاوہ گوئی اور لایعنی گفتگو سے خاموشی بہتر ہوتی ہے کیونکہ
خاموشی کو نجات اور فضول گفتگو کو تباہی قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام پاک گوئی اور صالح گفتگو کو رواج دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی گالی گلوچ اور بیہودہ گفتگو سے پاک معاشرے کو پسند فرماتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جنت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعا لی فرماتا ہے: 
”وہاں نہ بے ہودہ باتیں سنیں گے اور نہ گالی گلوچ۔“
(القرآن)۔ 
اسلام گفتگو کو گالی گلوچ سے پاک رکھنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ ایمان والے کبھی
لغو اور فحش گوئی سے کام نہیں لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
آپﷺ نے فحش اور بے ہودہ گفتگو کو سخت نا پسند فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ﷺ نے فرمایا ”مسلمان کو گالی دینا بڑا گناہ ہےاور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔“
(بخاری)۔
اس حدیث کی آڑ میں ہم کسی غیر مسلم کی دل آزاری و دل شکنی ہر گز نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے نبیﷺ نے ہمیں برائی کو بھی اچھائی سے دور کرنے کا حکم دیا ہے۔۔۔۔۔
گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے۔۔۔۔۔
گالی دینے والا کامقصد گالی دے کر دوسرے انسان کی تحقیر و تذلیل کرناہوتا ہے جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے۔۔۔۔۔
”اور بعض لوگ ایسے بھیہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں۔۔۔۔۔۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنےوالا عذاب ہے۔“
(القرآن)
اور
رسول اکرم ﷺ کا انداز تکلم تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے آپ ﷺ کی گفتگو صاف اور واضح ہوتی تھی جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا_
(سنن ابوداؤد)۔
نبی اکرم ﷺ کے انداز تکلم سے ہمیں درس ملتا ہے کہ
ہماری گفتگو صاف واضح ہونے کے ساتھ مختصر اور جامع ہو۔
بات کرتے وقت ہم کو ٹھہر ٹھہر کر بات کرنی چاہیئے تاکہ سننے والے ہماری بات آسانی سے سمجھ پائیں۔۔۔
طویل گفتگو سے پرہیز کرنے کی آپﷺ نے ہم کو تلقین
فرمائی ہے۔۔۔۔۔
”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ گفتگو میں توسط اختیار کروں کیونکہدرمیانے انداز میں ہی خیر ہے۔“
(سنن ابو داؤد)۔
آپ ﷺ نے گھوما پھرا کر بات کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
”لہذا انہیں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے اور جو بات کر یں صاف اور سیدھی بات کریں۔“
(القرآن)۔
گفتگو میں ضد، ہٹ دھرمی سے ہر گز کام نہیں لینا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔ 
بحث و مباحث کے وقت بات دلیل اور شعور سے کریں،کسی کی عزت نہ اچھا لیں۔۔۔۔۔
سیرت رسول ﷺ ہم کو دوران گفتگو الجھنے سے منع کرنے کے علاوہ جہلاء کو قائل کرنے کے بجائے ان سے احسن طریقے سے اعراض کر نے کی تعلیم دیتی ہے۔۔۔۔۔۔
”اور خدا کے بندے تو وہہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے(جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں (سلام کر کے گزر جاتے ہیں)“۔
(القرآن)۔
اس ضمن میں رسول اکرمﷺ نے لوگوں کے عقلی معیار اور رتبے کے مطابق گفتگو کرنے کی ہم کو تعلیم دی ہے۔۔۔۔۔۔
لوگوں کو اکتاہٹ سے محفوظ رکھنے اوراپنی گفتگو میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے مخاطب کے معیار کا لحاظ رکھنا بےحد ضروری ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کو اتنی ہی باتیں بتانے چاہیئے جس قدر ان کوضرورت ہوتی ہے۔
گفتگو انسان کی پہچان ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
بالمشافہ گفتگو و شنید کے ذریعے پچاس فیصد سے زائد مسائل از خود ختم ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ 
اچھی گفتگو خوش خلقی کا ایک بنیادی وصف ہے اسی لئے اللہ رب العزت نےحکم دیا ہے کہ ”لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ“
(القرآن)۔
خوش خلقی معاشرے کو امن کی مضبوط بنیادیں فراہم کرسکتی ہیں۔۔۔۔۔
آج معاشرے کا امن و
چین ایک دوسرے کے خلاف زبانی محاذ آرائی،برے الفاظ و القاب کے استعمال کی وجہ سے مکدر ہوگیا ہے۔۔۔۔۔دینی مجالس ہو یاسماجی تقریبات یا نجی محفلیں اجتماعی بات چیت کے بجائے گروہی گفتگو کی وباء عام ہوچکی ہے جہاں
مخالفین پر کیچڑ اچھا لا جاتا ہے اور ایسی تقریر یا گفتگو کو بہتر سمجھا جا رہا ہے جس میں مخالفین پر زیادہ سے زیادہ کیچڑ اچھالا جائے۔۔۔۔۔۔۔
ہر شخص کے لئےضروری ہے کہ وہ گفتگو کرتے وقت ہر انسان کی ضرورت اور معاشرتی امن کا خاص خیال رکھے۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو خوش کر نے کے لئے کسی پر فقرے کسنا دانائی و دانشوری نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
الفاظ کے انتخاب کے متعلق مشہور نقادلونگنس(Longinus) اپنی شہرۂ آفاق تصنیف “On the sublime” میں رقمطراز ہے ”آپ کے خیالات و تصورات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں جب تک آپکے پاس صحیح اور موزوں الفاظ نہ ہو تو آپ اپنی تحریر و تقریر کو رفعت عطا نہیں کر سکتے۔“
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور اسی مقولہ کی آڑ میں بد تمیزی اور بد اخلاقی کا مظاہر ہ کرنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اگر دیکھا جائےتو بیشتر موقعوں پر سچ کڑوا نہیں ہوتا ہے بلکہ سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتاہے۔۔۔۔۔۔۔ کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر سلیقے،تہذیب و شائستگی سے کی جائے تبیہ بھی کانوں میں شہد کھول دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ اگر سچ بولنے کی آڑ میں مخاطب کی دل آزاری ہے تب یہ سچائی کی تبلیغ نہیں بلکہ ہماری خباثت، تکبر کا پرچار اور انا کی تسکین کا ایک حیلہ ہے۔۔۔۔۔ سلیقہ مند گفتگو کی ایک بہترین مثال خلیفہ ہارون رشید کے دیکھے گئے خواب کی تعبیر کے بیان میں دیکھنے میں آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیفہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ اس کے تمام دانت ٹوٹ گئے ہیں اس نے تعبیر کے لئے ایک درباری کو طلب کیا جس نے کہا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے تمام رشتے دار ہلاک ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تعبیر سے بادشاہ بہت ملول ہوا اور ناراض ہوکر تعبیر بتانے والے کو دربار سے نکال باہر کیا۔۔۔۔۔۔
دوسرے شخص کو تعبیر کے لئے طلب کرنے پر اس نے بتا یا کہ بادشاہ کوبہت طویل عمر ملے گی اور آپ کا انتقال خاندان میں سب سے آخر میں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہ بہت خوش ہوا اور تعبیر بتانے والے کو انعام و اکرام سے نوازا۔۔۔۔۔۔ اسی
لئے سچ کڑوا ہوتا ہے کہنے کے بجائے ہمیں سچ کو پیش کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔ گفتگو کے دوران ہمیں چند باتو ں کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے زبان سے خیر کا کلمہ ہی نکالیں، کسی کی غلطی کی
اصلاح میں حکمت کا پہلو ہر گز نہ چھوڑیں،مخاطب کی قابلیت کا لحاظ رکھتےہوئے بات کریں، ہمیشہ حق، سچائی و صداقت کو اپنا شعار بنائیں، بے جا بحثسے اجتناب کریں،حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑے سے اجتناب کریں، گفتگو کو تکلف و تصنع سے پاک رکھیں،درمیان میں کسی کی بات نہ کاٹیں، باچھیں کھول کر یعنی چیخ چیخ کر بات نہ کریں اور غیبت و چغل خوری سے بہرصورت بچیں۔۔۔۔۔۔
گفتگو میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گفتگو کے
ماحول کا خیال رکھ کر بات کریں۔۔۔۔۔
گفتگو کرنے کے لئے مناسب و موضوع وقتکا انتخاب انتظار کریں۔۔۔۔
بات کرنے سے پہلے سننے والی کی طبیعت و مزاجیعنی موڈ کا خیال رکھیں۔۔۔۔۔۔ بات کرتے وقت یا بات کرنے سے پہلے سننے والے کو ذہنی طور پر تیار کریں۔۔۔۔۔۔۔ گفتگو کے وقت مناسب پوسچر (انداز نشست وبرخاست) آپ کی شخصیت کا تعارف پیش کرتا ہے اسی لئے گفتگو میں تاثیر ووزن پیدا کرنے کے لئے لب و لہجے اور پوسچر کا خاص خیال رکھیں۔
گفتگو سلیقے سے کریں۔۔۔۔۔۔ بے جا تنقید اورتنقید برائے تنقید سے پرہیز کریں۔۔۔۔۔ہر باراپنے مسائل اور پریشانیوں کو موضوع گفتگو نہ بنائیں۔۔۔۔۔۔ گفتگو میں تنوع پیدا کریں اور ایک ہی موضوع پر باربار بات نہ کریں۔۔۔۔ گفتگو کو موثر بنانے کے لئے بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالیں۔۔۔۔۔۔
الفاظ کے انتخاب میں احتیاط برتیں کیونکہ الفاظ بے جان نہیں ہوتے ہیں ان میں روح اور زندگی ہوتی ہے۔ تقریر ہویا تحریر دونوں بھی الفاظ کے محتاج ہوتے ہیں۔ الفاظ شخصیت کے ہی نہیں بلکہ حالات اور روایات کے بھی آئینہ دار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
الفاظ زندگی بناتے بھی ہیں اور زندگی برباد بھی کرتے ہیں۔۔۔۔ جہاں الفاظ کسی کے اشتعال کو بڑھاتے ہیں وہیں غصہ کم کرنے میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ہمارے زبان سے نکلے ہوئے
لفظ کسی کے دل کو مجروح کرسکتے ہیں تو وہیں کسی کے غم کے مداوے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ گفتگو اور الفاظ کا انتخاب انسان کے باطنی حسن کو اجاگر کرتا ہے اسی لئے گفتگو اور الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے
کام لینے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
گفتگو کو نشتر نہ بنائیں کیونکہ اللہ نے ہم کو دلوں کو جوڑنے کے لئے پیدا کیا ہے نہ کہ دلوں کو توڑنے کے لئے، آخر میں اس شعر پر اپنی تحریر کو ختم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
 یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم