اصول الشاشی سے مشترک و مؤول کا بیان | Usoolush Shashi Mushtarak o Muawwal

مؤول کا بیان
ثُمَّ إِذَا تَرَجَّحَ بَعْضُ وُجُوهِ الْمُشْتَرَكِ بِغَالِبِ الرَّائِ يَصِيرُ  مُؤَوَّلَا.
وَحُكْمُ الْمُؤَوَّلِ: وُجُوبُ الْعَمَلِ بِهِ مَعَ اِحْتِمَالِ الْخَطَاءِ.
وَمِثْلُهُ فِي الْحُكْمِيَّاتِ، مَا قُلْنَا: إِذَا أَطْلَقَ الثَّمَنَ فِي الْبَيْعِ كَانَ عَلَى غَالِبِ نَقْدِ الْبَلَدِ وَ ذَلِكَ بِطَرِيقِ التَّاوِيلِ وَلَوْ كَانَتِ النُّقُودُ مُخْتَلِفَةً، فَسَدَ الْبَيْعُ لِمَا ذَكَرُنَا. وَحَمْلُ الْأَقْرَاءِ عَلَى الْحَيْضِ وَحَمْلُ النِّكَاحَ فِي الْآيَةِ عَلَى الْوَطْيِّ. وَ حَمْلُ الْكِنَايَاتِ حَالَ مُذَاكَرَةِ الطَّلَاقِ عَلَى الطَّلَاقِ مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ.
ترجمہ: پھر جب مشترک کے معانی میں سے کوئی ایک معنی غالب رائے سے راجح ہو جائے تو وہ مؤول ہو جائے گا۔
اور مؤول کا حکم: احتمالِ خطا کے ساتھ اس پر عمل کا واجب ہونا ہے۔
 اور احکام میں اس کی مثال وہ مسئلہ ہے جو ہم نے کہا  کہ جب عقدِ  بیع میں شمن، مطلق ہو تو وہ غالب نقد بلد پر محمول ہوگا اور یہ بطریق تاویل ہوگا اور اگر نقود مختلف ہوں تو بیع، مذکورہ دلیل کی وجہ سے فاسد ہو جائے گی، اور "اقراء" کو حیض پر اور آیت میں "نکاح" کو وطی پر اور مذاکرۂ طلاق کے وقت" کنایات" کو طلاق پر محمول کرنا اسی قبیل سے ہے۔

وَعَلَى هَذَا قُلْنَا الدَّيْنُ الْمَانِعُ مِنَ الزَّكوةِ يُصْرَفُ إِلَى أَيْسَرِ الْمَالَيْنِ قَضَاءِ لِلدَّيْنِ وَ فَرَّعَ مُحَمَّدٌ عَلَى هَذَا فَقَالَ إِذَا تَزَوَّجَ امْرَأَةً عَلَى نِصَابٍ وَلَهُ نِصَابٌ مِنَ الْغَنَمِ وَنِصَابٌ مِنَ الدَّرَاهِم يُصْرَفُ الدِّينُ إِلَى الدَّرَاهِم حَتَّى لَوْ حَالَ عَلَيْهِمَا الْحَوْلُ تَجِبُ الزَّكَوَةُ عِنْدَهُ فِي نصابِ الْغَنَمِ وَلَا تَجِبُ فِي الدَّرَاهِم.
ترجمہ: اور اسی بناء پر ہم نے کہا کہ دین جو مانع زکوۃ ہے اس کو ایسے مال کی طرف پھیرا جائے گا جس سے دین ادا کرنا آسان ہو اور امام محمد نے اس پر تفریع  پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جب مرد نے کسی عورت سے ایک نصاب پر نکاح کیا اور اس کے پاس ایک نصاب بکری کا ہے اور ایک نصاب درا ہم کا ہے تو دین (یعنی قرض) کو دراہم کی طرف پھیرا جائے گا حتی کہ اگر دونوں پر سال گذر گیا تو امام محمد کے نزدیک بکری کے نصاب میں زکوۃ واجب ہوگی اور دراہم کے نصاب میں واجب نہ ہوگی ۔

وَلَوْ تَرَجَّحَ بَعْضُ وُجُوهِ الْمُشْتَرَكَ بِبَيَانِ مِنْ قِبَلِ الْمُتَكَلِّمِ كَانَ مُفَسَّراً وَحُكْمُهُ أَنَّهُ يَجِبُ الْعَمَلُ بِهِ يَقِينَا. مِثَالُهُ: إِذَا قَالَ لِفُلَانِ "عَلَیَّ عَشرَةُ دَرَاهِمَ مِنْ نَقْدِ بُخَارًا" فَقَوْلُهُ مِنْ نَقْدِ بُخَارًا تَفْسِيرٌ لَهُ فَلَوْلَا ذَلِكَ لَكَانَ مُنْصَرِفاً إِلَى غَالِبِ نَقْدِ الْبَلَدِ بِطَرِيقِ التَّاوِيلِ، فَيَتَرَبَّحُ الْمُفَسَّرُ فَلا يَجِبُ نَقْدُ الْبَلَدِ.

ترجمه: اور اگر متکلم کے بیان سے مشترک کے کسی معنی کو ترجیح حاصل ہو جائے تو وہ مفسر ہوگا۔
 اور مفسر کا حکم یہ ہے کہ اس پر یقینی طور سے عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب کسی نے کہا فلاں کے لیے مجھ پر بخارا کے دراہم میں سے دس درہم ہیں تو اس کا قول "من نقد بخارا " اس کے لیے تفسیر ہوگا اور اگر یہ نہ ہوتا تو بطریق تاویل، غالب نقد بلد کی طرف پھیر دیا جاتا۔
 پس مفسر راجح ہوگا اور نقد بلد واجب نہ ہوگا۔
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم