فَصْلٌ فِي الْمُشْتَرَكِ وَالْمُؤَوَّلِ
الْمُشْتَرَكَ مَا وُضِعَ لِمَعْنِيَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ أَوْ لِمَعَانٍ مُخْتَلِفَةِ الْحَقَائِقِ.
مِثَالُهُ قَوْلُنَا "جَارِيَةٌ" فَإِنَّهَا تَتَناوَلُ الأمَةَ وَالسَّفِينَةَ - وَ - "الْمُشْتَرِي" فَإِنَّهُ يَتَنَاوَلُ قَابِلَ عَقْدِ الْبَيْعِ وَ كَوْكَبَ السَّمَاءِ - وَ - قَوْلُنَا "بَائِنٌ" فَإِنَّهُ يَحْتَمِلُ الْبَيْنَ وَالْبَيَانَ.
وَحُكْمُ الْمُشْتَرَكِ أَنَّهُ إِذَا تَعَيَّنَ الْوَاحِدُ مُرَادً بِهِ سَقَطَ اعْتِبَارُ إِرَادَةِ غَيْرِهِ وَ لِهَذَا أَجْمَعُ الْعُلَمَاءُ (رَحِمَهُمُ اللّٰهُ تَعَالَى) عَلَى أَنَّ لَفَظَ الْقُرُوءِ الْمَذْكُورِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مَحْمُولٌ إِمَّا عَلَى الْحَيْضِ كَمَا هُوَ مَذْهَبُنَا أَوْ عَلَى الطُّهْرِ كَمَا هُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ.
ترجمه: (یہ فصل، مشترک اور مؤول کے بیان میں ہے۔) مشترک: وہ لفظ ہے جو دو یا چند مختلفۃ الحقیقۃ معانی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔
مشترک کی مثال ہمارا قول "جاریۃ" ہے کہ وہ" باندی" اور " کشتی" کو شامل ہے اور (اس کی مثال) کلمہ "مشتری" ہے کہ وہ "عقد بیع قبول کرنے والے" اور "آسمان کے ستارے" کو شامل ہے اور (اس کی مثال) ہمارا قول " بائن" ہے کہ وہ" فرقت" اور "ظہور" کا احتمال رکھتا ہے۔
اور مشترک کا حکم یہ ہے کہ جب ایک معنی کسی دلیل کی وجہ سے مراد ہو کر متعین ہو جائے تو دوسرے معنی کے مراد لینے کا اعتبار ساقط ہو جائے گا۔
پس اسی وجہ سے تمام علماےکرام (رحمہم اللہ) کا اس پر اتفاق ہے کہ لفظ" قرو ء" جو کتاب میں مذکور ہے وہ یا تو "حیض" پر محمول ہے جیسا کہ ہمارا مذہب ہے یا "طہر" پر جیسا کہ امام شافعی کا مذہب ہے۔
وَقَالَ مُحَمَّدٌ (رحمه الله) إِذَا أَوْصَى لِمَوَالِى بَنِي فُلانٍ، وَ لِبَنِي فُلانٍ مَوَالٍ مِنْ أَعْلَى وَ مَوَالٍ مِنْ أَسْفَلَ، فَمَاتَ، بَطَلَتِ الْوَصِيَّةُ فِي حَقِّ الْفَرِيقَيْنِ لِاسْتِحَالَةِ الْجَمْعِ بَيْنَهُمَا وَعَدْمُ الرُّجْحَانِ. وَ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ (رحمه الله) إِذَا قَالَ لِزَوْجَتِهِ "أَنْتِ عَلَىَّ مِثْلُ أُمِّي" لَا يَكُونُ مُظَاهِرًا لِأنَّ اللَّفظَ مُشْتَرَكٌ بَيْنَ الْكَرَامَةِ وَالْحُرمَةِ، فَلَا يَتَرَجَّحُ جِهَةُ الْحُرُمَةِ إِلَّا بِالنِّيَّةِ.
ترجمہ : اور حضرت امام محمد (علیہ الرحمۃ و الرضوان) نے فرمایا کہ جب کسی نے "بنی فلاں" کے لیے وصیت کی اور" بنی فلاں" کے کچھ موالی اعلیٰ (آزاد کرنے والے) بھی ہیں اور کچھ موالی اسفل (آزاد کردہ) بھی ہیں۔ پس وصیت کرنے والا مر گیا تو دونوں فریق کے حق میں وصیت باطل ہو جائے گی؛ کیوں کہ ان دونوں کو جمع کرنا محال ہے اور مرجح موجود نہیں ہے۔
اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا کہ جب کسی نے اپنی بیوی سے کہا "انت علی مثل امی" تو یہ شخص ظہار کرنے والا شمار نہ ہوگا؛ کیونکہ لفظ "انت علی مثل امی" کرامت اور حرمت کے درمیان مشترک ہے؛ لہذا بغیر نیت کے حرمت کی جہت کو ترجیح حاصل نہ ہوگی۔
وَعَلَى هَذَا قُلْنَا لَا يَجِبُ النَّظِيرُ فِي جَزَاءِ الصَّيْدِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى {فَجَزَاءُ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ} لِاَنَّ الْمِثْلَ مُشْتَرَكٌ بَيْنَ الْمِثْلِ صُورَةً وَبَيْنَ الْمِثْلِ مَعْنَى وَهُوَ الْقِيمَةُ وَقَدْ أُرِيدَ الْمِثْلُ مِنْ حَيْثُ الْمَعْنَى بِهَذَا النَّصِ فِي قَتْلِ الْحَمَامِ وَالْعُصْفُورِ وَنَحْوِهِمَا بِالْاِتِّفَاقِ، فَلَا يُرَادُ الْمِثْلُ مِنْ حَيْثُ الصُّورَةِ إِذْ لا عُمُومَ لِلْمُشْتَرَكِ أَصْلاً، فَيَسْقُطُ اعْتِبَارُ الصُّورَةِ لِاسْتِحَالَةِ الْجَمْعِ.
ترجمہ: اور اسی اصل پر ہم نے کہا کہ جزاء صید میں مثل صوری واجب نہ ہوگا کیونکہ باری تعالیٰ نے فرمایا ہے: " پس اس پر بدلہ ہے اس مارے ہوئے کے برابر مویشی میں سے" کیونکہ لفظ مثل، مثل صوری اور مثل معنوی یعنی قیمت کے درمیان مشترک ہے اور چڑیا اور کبوتر وغیرہ کے قتل میں بالا تفاق مثل معنوی مراد ہے؛ لہذا مثل صوری مراد نہ ہوگا کیونکہ مشترک کے لیے بالکل عموم نہیں ہے لہذا جمع کے محال ہونے کی وجہ سے مثل صوری کا اعتبار ساقط ہو جائے گا۔
Tags
ترجمۂ اصول الشاشی