اصول الشاشی مطلق و مقید کا بیان / Usoolush Shashi Mutlaq o Muqayyad Ka Bayan

وَعَلىٰ هَذَا قُلْنَا يَجُوزُ التَّوَضِئ بِمَاءِ الزَّعْفَرَانِ وَبِكُلِّ مَاءٍ خَالَطَهُ شَيْءٌ طَاهِرٌ فَغَيَّرَ أَحَدَ أَوْصَافِهِ لِأَنَّ شَرْطَ الْمَصِيرِ إِلَى التَّيَمُّمِ عَدْمُ مُطْلَقِ الْمَاءِ وَ هَذَا قَدْ بَقِيَ مَاءٌ مُطْلَقًا فَإِنَّ قَيْدَ الْإِضَافَةِ مَا أَزَالَ عَنْهُ اسْمَ الْمَاءِ بَلْ قَرَّرَهُ فَيَدْخُلُ تَحْتَ حُكُمِ مُطْلَقِ الْمَاءِ وَ كَانَ شَرُطُ بَقَائِهِ عَلَى صِفَةِ الْمُنَزَّلِ مِنَ السَّمَاءِ قَيْدًا لِهَذَا الْمُطْلَقِ. 
وَبِهِ يُخَرَّجُ حُكْمُ مَاءِ الزَّعْفَرَانِ وَالصَّابُونِ وَالْأُشْنَانِ وَأمْثَالِهِ وَخَرَجَ عَنْ هَذِهِ الْقَضِيَّةِ الْمَاءُ النَّجِسُ بِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَلٰكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمُ} وَالنَّجِسُ لاَ يُفِيدُ الطَّهَارَةَ وَبِهَذِهِ الإِشَارَةِ عُلِمَ أَنَّ الْحَدَثَ شَرُطٌ لِوُجُوبِ الْوُضُوءِ فَإِنَّ تَحْصِيلَ الطَّهَارَةِ بِدُون وُجُودِ الْحَدَثِ مُحَالٌ.
ترجمه: اور اسی بنیاد پر ہم نے کہا کہ وضو جائز ہے زعفران کے پانی سے اور  ہر اس  پانی سے جس میں کوئی پاک چیز ملی ہو پھر اس کے اوصاف میں سے کسی ایک وصف کو بدل دیا ہو؛ اس لیے کہ تیم کی طرف رجوع کرنے کی شرط، مطلق ماء کا معدوم ہونا ہے اور زعفران وغیرہ کا پانی ماء مطلق ہو کر باقی ہے؛ کیونکہ اضافت کی قید نے ماءِ زعفران سے ماء کا نام زائل نہیں کیا ہے بلکہ اس کو ثابت کیا ہے پس زعفران وغیرہ کا پانی مطلق ماء کے تحت داخل ہو جائے گا اور اس کے اس صفت پر باقی رہنے کی شرط جس پر وہ آسمان سے اترا ہے اس مطلق کے لئے قید ہے ۔
اور اس سے زعفران ، صابن اور اشنان وغیرہ کے پانی کے حکم کی تخریج کی جائے گی اور اس قضیہ سے ﷲ تعالی کے فرمان {و لكن يريد ليطهر کم} کی وجہ سے نا پاک پانی نکل گیا؛ کیوں کہ نا پاک، پاکی کا فائدہ نہیں دیتا ۔ اور {لیطھر کم} کے اشارہ سے معلوم ہوا کہ وضو، واجب ہونے کے لیے حدث ( بے وضو ہونا ) شرط ہے؛ کیوں کہ بغیر وجودِ حدث کے  حصولِ طہارت، محال ہے۔
قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ: الْمُظَاهِرُ إِذَا جَامَعَ امْرَأَتَهُ فِي خِلَالِ الْإِطْعَامِ لَا يَسْتَانِفُ الإِطْعَامَ لِأنَّ الْكِتَابَ مُطْلَقٌ فِي حَقِّ الْإِطْعَامِ فَلَا يُزَادُ عَلَيْهِ شَرُطُ عَدْمِ الْمَسِيسِ بِالْقِيَاسِ عَلَى الصَّوْمِ بَلِ الْمُطْلَقُ يَجْرِى عَلَى إِطْلَاقِهِ وَالْمُقَيَّدُ عَلَى تَقْيِیدِهِ.
وَكَذَلِكَ قُلْنَا الرَّقَبَةُ فِي كَفَّارَةِ الظَّهَارِ وَالْيَمِينِ مُطْلَقَةٌ فَلَا يُزَادُ عَلَيْهِ شَرْطُ الْإِيْمَانِ بِالْقِيَاسِ
عَلَى كَفَّارَةِ الْقَتْلِ.
ترجمه: (حضرت امام اعظم) ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مُظاہر نے جب کھانا کھلانے کے دوران اپنی بیوی سے جماع کرلی تو کھانا کھلانے کا اعادہ نہیں کیا جائے گا؛ اس لیے کہ کتاب، اِطعام کے حق میں مطلق ہے لہذا اس پر عدم جماع کی شرط کو روزے پر قیاس کرکے زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوگا اور مقید اپنی تقید پر۔
اسی طرح ہم نے کہا کہ کفارہ ظہار اور کفارہ یمین میں رقبہ مطلق ہے؛ لہذا کفارہ قتل پر قیاس کر کے اس پر ایمان کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا۔
فَإِنْ قِيلَ إِنَّ الْكِتَابَ فِي مَسْحِ الرَّأْسِ يُوجِبُ مَسْحَ مُطْلَقِ الْبَعْضِ وَقَدْ قَيَّدْ تُمُوهُ بِمِقْدَارِ النَّاصِيَةِ بِالْخَبَرِ وَالْكِتَابُ مُطْلَقٌ فِي انْتِهَاءِ الْحُرُمَةِ الْغَلِيظَةِ بِالنِّكَاحِ وَقَدْ قَيَّدْ تُمُوهُ بِالدُّخُولِ ترجمه: || 2بِحَدِيثِ امْرَأَةِ رِفَاعَةَ
قُلْنَا إِنَّ الْكِتَابَ لَيْسَ بِمُطْلَقٍ فِى بَابِ الْمَسْحِ فَإِنَّ حُكْمَ الْمُطْلَقِ أَنْ يَكُونَ الْآتِي بِأَيِّ فَرْدٍ كَانَ اٰتِياً بِالْمَامُورِ بِهِ والآتِي بِأيِ بَعْضٍ كَانَ هَهُنَا لَيْسَ بِاتٍ بِالْمَامُورِيهِ فَإِنَّهُ لَوْ مَسَحَ عَلَى النِّصْفِ أَوْ عَلَى الثُلُـيْنِ لَا يَكُونُ الْكُلُّ فَرْضًا  وَبِهِ فَارَقَ الْمُطْلَقُ الْمُجْمَلَ وَأَمَّا قَيْدُ الدُّخُولِ فَقَدْ قَالَ الْبَعْضُ إِنَّ النِّكَاحَ فِي النَّص حُمِلَ عَلَى الْوَطْيِ إِذِ الْعَقْدُ مُسْتَفَادٌ مِنْ لَفْظِ الزَّوْجِ وَبِهَذَا يَزُولُ السُّوَالُ وَقَالَ الْبَعْضُ قَيْدُ الدُّخُولِ ثَبَتَ بِالْخَبَرِ وَجَعَلُوهُ مِنَ الْمَشَاهِيْرِ فَلا يَلْزَمُهُمْ تَقْدِيدُ الْكِتَابِ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ.
پس اگر اعتراض کیا جائے کہ کتاب اللہ  (آیۃ مذکورہ) مسحِ راس میں مطلق بعض کے مسح کو واجب کرتی ہے؛ حالانکہ تم نے اس کو خبر کے ذریعہ مقدار ناصیہ کے ساتھ مقید کردیا ہے، اور کتاب اللہ نکاح کے ذریعہ حرمت غلیظہ کے ختم ہو جانے میں مطلق ہے حالانکہ تم نے اس کو رفاعہ کی بیوی کی حدیث کی وجہ سے دخول کے ساتھ مقید کیا ہے؟ 
ہم جواب دیں گے کہ کتاب اللہ باب مسح میں مطلق نہیں ہے؛ کیونکہ مطلق کا حکم یہ ہے کہ اس کے جس فرد کو ادا کرنے والا ہو ما، مور بہ کو ادا کرنے والا شمار ہو اور یہاں مطلق کے ہر فرد کو ادا کرنے والا مامور بہ کو ادا کرنے والا شمار نہیں ہوتا؛ کیوں کہ اگر کسی نے آدھے سر پر مسح کیا یا دو تہائی پر مسح کیا تو یہ کل ممسوح فرض نہ ہوگا ، اور اسی وجہ سے مطلق مجمل سے جدا ہو گیا اور بہر حال قید د خول تو بعض نے کہا کہ آیت میں لفظ نکاح وطی پر محمول ہے اس لئے کہ "عقد " لفظ "زوج" سے مستفاد ہے اور اس سے سوال زائل ہو جائے گا اور بعض نے کہا کہ قید دخول خبر سے ثابت ہے اور محدثین نے اس کو مشہور قراردیا ہے لہذا ان پر خبر واحد کے ذریعہ کتاب اللہ کو مقید کرنے کا التزام وارد نہ ہوگا۔
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم