وَأَمَّا الْعَامُّ فَنَوْعَانِ عَامٌّ خُصَّ عَنْهُ الْبَعْضُ وَ عَامٌ لَمْ يُخَصَّ عَنْهُ شَيْءٌ، فَالْعَامُ الَّذِي لَمْ يُخَصَّ عَنْهُ شَيْءٌ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْخَاصِ فِي حَقِّ لُزُومِ الْعَمَلِ بِهِ لَا مُحَالَةَ.
ترجمہ: اور رہا عام تو (اس کی) دو قسمیں ہیں (عام خص عنه البعض) وہ عام جس سے بعض افراد کو خاص کر لیا گیا ہو - اور - (عام لم يخص عنه شيئ) وہ عام جس سے کوئی فرد خاص نہ کیا گیا ہو۔ پس وہ عام جس سے کوئی فرد خاص نہ کیا گیا ہو، وہ (عام لم یخص عنه شيء) خاص کے مرتبہ میں ہے، یقینی طور سے اس پر عمل کے لازم ہونے کے حق میں۔
وَعَلَى هَذَا قُلْنَا إِذَا قُطِعَ يَدُ السَّارِقِ بَعْدَ مَا هَلَكَ الْمَسْرُوقُ عِندَهُ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الضَّمَانُ لأَنَّ الْقَطْعَ جَزَاءُ جَمِيعِ مَا اكْتَسَبَهُ السَّارِقُ، فَإِنَّ كَلِمَةَ "مَا" عَامَّةٌ يَتَنَاوَلُ جَمِيعَ مَا وُجِدَ مِنَ السَّارِقِ وَ بِتَقْدِيرِ إِيجَابِ الضَّمَانِ يَكُونُ الْجَزَاءُ هُوَ الْمَجْمُوعُ، فَلَا يُتْرَكُ الْعَمَلُ بِهِ بِالْقِيَاسِ عَلَى الْغَصَبِ.
ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ہم نے کہا کہ جب چور کے پاس ( مالِ) مسروق، ہلاک ہونے کے بعد چور کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو اس پر ضمان واجب نہیں ہوگا؛ کیوں کہ قطعِ ید (یعنی ہاتھ کاٹنا) چور کے تمام جرموں کی سزا ہے۔ اس لیے کہ کلمہ "ما" عام ہے جو چور کے تمام جرموں کو شامل ہے اور ضمان واجب کرنے کی صورت میں سزا، قطعِ ید اور ضمان کا مجموعہ ہوگی۔ پس غصب (کے مسئلے) پر (اِس مسئلہ کو) قیاس کر کے اس (مسئلہ) پر عمل کو ترک نہیں کیا جائے گا۔
وَ الدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ كَلِمَةَ مَا عَامَّةٌ مَا ذَكَرَهُ مُحَمَّدٌ (علیه الرحمة و الرضوان) إِذَا قَالَ الْمَوْلَى لِجَارِيَتِهِ "إِنْ كَانَ مَا فِي بَطْنِكِ غُلَامًا فَانْتِ حُرَّةٌ"، فَوَلَدَتْ غُلَامًا وَجَارِيَةً لَا تُعْتَقُ.
ترجمہ: اور کلمۂ "ما" کے عام ہونے پر دلیل وہ ہے جس کو امام محمد (علیہ الرحمۃ و الرضوان) نے ذکر کیا کہ جب آقا نے اپنی باندی سے کہا: "ان کان ما في بطنك غلاماً فانت حرة" پس باندی نے لڑکا اور لڑکی دونوں کو جنم دیا - تو باندی، آزاد نہ ہوگی۔
وَبِمِثْلِهِ نَقُولُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى {فَاقْرَأْ وُا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ} فَإِنَّهُ عَامٌ فِي جَمِيعِ مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ، وَ مِنْ ضَرُورَتِهِ عَدْمُ تَوَقُفِ الْجَوَازِ عَلَى قِرَاءَةِ الْفَاتِحَهِ، وَ جَاءَ فِي الْخَبرِ أَنَّهُ قَالَ: "لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" فَعَمِلنَا بِهِمَا عَلَى وَجْهٍ لَا يَتَغَيَّرُ بِهِ حُكْمُ الْكِتَابِ بِأَنْ نَحْمِلَ الْخَبَرَ عَلَى نَفْيِ الْكَمَالِ، حَتَّى يَكُونَ مُطْلَقُ الْقِرَاءَةِ فَرْضًا بِحُكْمِ الْكِتَابِ، وَ قِرَاءَةُ الْفَاتِحَةِ وَاجِبَةٌ بحُكمِ الخبرِ.
ترجمہ: اور اس کے مثل، اللہ تعالی کے قول "فاقرءوا ما تيسر من القرآن" میں ہم کہتے ہیں، کیوں کہ (اس میں) کلمہ "ما" قرآن کے اس تمام حصہ کو عام ہے جو آسان ہو اور اس کے لیے لازم ہے کہ جوازِ صلوۃ، قراءتِ فاتحہ پر موقوف نہ ہو - اور حدیث پاک میں آیا ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ پس ہم نے ان دونوں پر اس طریقے سے عمل کیا کہ اس سے حکم؛ کتاب متغیر نہ ہو بایں طور کہ ہم خبر کو نفیِ کمال پر محمول کریں گے ، یہاں تک کہ حکمِ کتاب سے مطلق قراءت فرض ہوگی اور حکمِ خبر سے فاتحہ کی قراءت، واجب ہوگی۔
وَقُلْنَا كَذَلِكَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى {وَ لَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} إِنَّهُ يُوجِبُ حُرُمَةَ مَترُوكِ التَّسْمِيَةِ عَامِدًا. و جاء في الخبر أنه سُئل عن متروكِ التسميةِ عامدًا، فَقَالَ كُلُوهُ فَإِنَّ تَسْمِيَةَ اللَّهِ تَعَالَى فِي قَلْبِ كُلِّ أمْرِءٍ مُسْلِمٍ فَلَا يُمْكِنُ التَّوْفِيقُ بَيْنَهُمَا، لِأَنَّهُ لَوْ ثَبَتَ الْحِلُّ بِتَركِهَا عَامِدًا لَثَبَتَ الْحِلُّ بِتَركِهَا نَاسِيًا، فَحِينَئِذٍ يَرْتَفِعُ حُكْمُ الْكِتَابِ، فَيُتْرَكُ الْخَبَرُ.
ترجمہ: اور اسی طرح باری تعالیٰ کے قول "وَ لَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ" میں، ہم نے کہا کہ یہ (آیت مبارکہ) متروک التسمیہ عامداً (یعنی جان بوجھ کر نام الہی نہ لے کر ذبح کیے جانے والے ذبیحہ) کی حرمت کو ثابت کرتی ہے۔ جب کہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول پاک ﷺ سے متروکُ التسمیہ عامدًا (والے ذبیحہ) کے (کھانے اور نہ کھانے کے) بارے میں سُوال کیا گیا تو حضور ﷺنے فرمایا: اسے کھالو! کیوں کہ ہر مسلمان کے دل میں اللہ کا نام ہے۔ پس ان دونوں (یعنی آیت کریمہ اور حدیث پاک) کے درمیان تطبیق ممکن نہیں؛ کیوں کہ اگر ترک تسمیہ عامداً کی صورت میں ذبیحہ کی حلت ثابت ہو گئی تو (اس حدیث پاک سے) ترک تسمیہ ناسیًا کی صورت میں ذبیحہ کی حلت ( بدرجہ اَولیٰ ) ثابت ہوگی۔لہٰذا اس وقت، کتاب (یعنی آیت مذکورہ) کا حکم مرتفع ہو جائے گا اور خبر کوترک کر دیا جائے گا۔
وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى {وَ أُمَّهَاتُكُمُ الَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ} يَقْتَضِي بَعُمُومِهِ حُرْمَةَ نِكَاحِ الْمُرْضِعَةِ، وَقَدْ جَاءَ فِي الْخَبَرِ "لَا تَحْرِمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ، وَ لَا الْإِمْلَاجَةُ وَلَا الْإِمْلَاجَتَانِ" فَلَمْ يُمْكِنِ التَّوْفِيقُ بَيْنَهُمَا فَيُتْرَكُ الْخَبَرُ.
ترجمہ: اور اسی طرح ﷲتعالیٰ کا قول "و امهاتكم التي ارضعنكم" اپنے عموم کی وجہ سے دودھ پلانے والی کے نکاح کی حُرمت (یعنی حرام ہونے) کا تقاضہ کرتا ہے - اور خبر واحد میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ چوسنا اور دو مرتبہ چوسنا اور ایک مرتبہ پستان کو منہ میں داخل کرنا اور دو مرتبہ داخل کرنا حرام نہیں کرتا ہے۔ پس ان دونوں کے درمیان تطبیق ممکن نہیں؛ لہذا حدیث کو ترک کر دیا جائے گا۔
Tags
ترجمۂ اصول الشاشی