پس - اس( اختلاف) پر تخریج کیا جائے گا - تیسرے حیض میں رجعت اور اس کے زوال کا حکم - اور غیر زوج کے ساتھ نکاح کو صحیح قرار دینے اور اس کو باطل کرنے کا حکم - اور (مطلقہ کو) محبوس کرنے اور چھوڑ دینے کا حکم - سکنیٰ اور خرچ دینے کا حکم - اور خلع اور طلاق کا حکم - مطلقہ کی بہن کے ساتھ شوہر کے نکاح کا حکم - اس (مطلقہ) کے علاوہ (شوہر کے لیے) چار عورتوں کے ساتھ نکاح کا حکم - اور میراث کے احکام _ ( باوجودیکہ میراث کی تفاصیل کثیر ہیں۔)
وَكَذٰلِكَ قَوْلُه تَعَالَى {قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ} خَاصٌ فِي التَّقْدِيرِ الشَّرْعِي، فَلَا يُتْرَكُ الْعَمَلُ بِهِ، بِإعْتِبَارِ أَنَّهُ عَقْدٌ مَالِيٌّ، فَيُعْتَبَرُ بِالْعُقُودِ الْمَالِيَّةِ، فَيَكُونُ تَقْدِيرُ المَالِ فِيهِ مَوْكُولاً إِلَى رَأَي الزَّوْجَيْنِ، كَمَا ذَكَرَهُ الشَّافِعِيُّ.
وَفَرَّعَ عَلَى هٰذَا أَنَّ التَّخَلِّى لِنَفْلِ الْعِبَادَةِ أَفْضَلُ مِنَ الْإِشْتِغَالِ بِالنِّكَاحِ. وَ أبَاحَ إبْطَالَهُ بِالطَّلَاقِ كَيْفَ مَا شَاءَ الزَّوْجُ مِنْ جَمْعِ وَتَفْرِيقٍ. وَ أَبَاحَ إِرْسَالَ الثَّلاثِ جُمُلَةً وَاحِدَةً وَ جَعَلَ عَقْدَ النِّكَاحِ قَابِلا لِلْفَسْخِ بِالْخُلْعِ.
ترجمہ: اسی طرح باری تعالیٰ کا قول "قد علمنا ما فرضنا عليهم في زواجهم" تعیینِ شرعی میں خاص ہے؛ لہذا اس پر عمل ترک نہیں کیا جائے گا۔ اس قیاس کی وجہ سے کہ "نکاح ایک مالی عقد ہے؛ پس اس کو عقود مالیہ پر قیاس کیا جائے اور اس میں مال کی تعیین زوجین کی رائے کے سپرد ہو۔" جیسا کہ اس کو امام شافعی نے ذکر کیا ہے۔
اور امام شافعی نے اس پر یہ تفریع پیش کی ہے کہ نفلی عبادت کے لیے وقت فارغ کرنا، نکاح میں مشغول ہونے کی بہ نسبت افضل ہے - اور - نکاح کے ابطال کو طلاق کے ذریعہ مباح قرار دیا ہے، شوہر جس طرح چاہے، ایک ہی ساتھ طلاق دے کر یا متفرق طریقہ سے - اور - ایک ہی لفظ سے تین طلاقوں کے دینے کو مباح قرار دیا ہے - اور - خُلع کے ذریعہ نکاح کو قابل فسح قرار دیا ہے۔
وَكَذٰلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى {حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} خَاصٌ فِي وُجُودِ النِّكَاحِ مِنَ الْمَرْأةِ، فَلَايُتْرَكُ الْعَمَلُ بِهِ بِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: { أَيُّمَا إمْرَأَةٍ نَكَحَتْ نَفْسَهَا بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ بَاطِلٌ بَاطِلٌ.}
وَ يَتَفَرَّعُ مِنْهُ الْخِلافُ فِي حَلَّ الْوَطئِ، وَ لُزُوْمِ الْمَهْرِ، وَ النَّفَقَةِ، وَالسُّكْنىٰ، وَ وُقُوعِ الطَّلَاقِ، وَ النِّكَاحِ بَعْدَ الطَّلَقَاتِ الثَّلٰثِ عَلَى مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ قُدمَاءُ أَصْحَابِهِ، بِخِلَافِ ما اخْتَارَهُ الْمُتَأخِّرُونَ مِنْهُمْ.
اور یوں ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان "حتی تنکح زوجا غیرہ" عورت کی جانب سے نکاح کے پائے جانے میں خاص ہے؛ لہذا اس (خاص) پر اس روایت کی وجہ سے عمل ترک نہیں کیا جائے گا جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ "جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔
اور اس سے اختلاف متفرع ہوگا: وطی کے حلال ہونے میں - مہر، نفقہ اور سُکنی کے لازم ہونے میں - طلاق کے واقع ہونے میں - اور - تین طلاقوں کے بعد نکاح کے (انعقاد کے صحیح) ہونے میں متقدمین شوافع کے مذہب کے مطابق، بر خلاف اس کے جس کو متأخرین شوافع نے اختیار کیا ہے۔
وَأَمَّا الْعَامُّ فَنَوْعَانِ عَامٌّ خُصَّ عَنْهُ الْبَعْضُ وَ عَامٌ لَمْ يُخَصَّ عَنْهُ شَيْءٌ