مسائل تقدیر اور العقیدة الطحاویة

 مسائلِ تقدیر اور _______ العقیدة الطحاویة

(قسط پنجم) 

___________________

ہدایت و گمراہی کا تعلق بھی تقدیر الٰہی سے ہے : جس طرح مذکورہ بالا بحث میں واضح کیا گیا کہ تقدیر کا خیر و شر دونوں ہی اللہ کی مشیت سے ہے اسی میں سے اھتداء و اضلال بھی اللہ ہی کی مشیت سے ہے؛ بندے اگر چہ ایمان و کفر دنیا میں آنے کے بعد، عقل و شعور کے حصول کے بعد ہی اختیار کرتے ہیں لیکن اللہ نے اپنے علم ازلی سے جان کر اپنے حکمت بھرے اندازے سے ان کی پیدائش سے بے شمار برس پہلے ہی ان کی تقدیر میں ہدایت و گمراہی بھی ثبت فرما دیا جو وہ دنیا میں آنے کے بعد اختیار کرنے والے تھے؛ اسی کو امام طحاوی یوں تحریر فرماتے ہیں : "يهدي من يشاء، ويعصم ويعافي، فضلا، ويضل من يشاء، ويخذل ويبتلي، عدلا. وكلهم يتقلبون في مشيئته، بين فضله وعدله".(متن العقیدة الطحاویة، عقیدہ نمبر ٢٧_٢٨، ص ١١، دار ابن حزم) اللہ تعالٰی ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور (گناہوں کی آلودگی سے) بچاتا ہے اور اپنے فضل سے اسے عافیت بخشتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے (اس کو سوء اعتقاد کی وجہ سے) گمراہ اور رسوا کرتا ہے اور اسے ابتلاء و آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور سب پلٹتے ہیں اس کی مشیت میں اس کے فضل و عدل کے درمیان (ت) -

کیا واقعی ہدایت و گمراہی اللہ ہی جانب سے ہے؟ 

______جی ہاں! یہ بھی عقائد اہل سنت سے ہے کہ اللہ رب العزت نے بندوں کی آزمائش ”لِیَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ (المك/١)“ کے لیے جس طرح ہدایت کو پیدا فرمایا ہے اسی طرح گمراہی کو بھی پیدا فرمایا ہے جس پر اللہ کا فرمان شاہد ہے”فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﳲ(الفاطر/٨)“ لہٰذا ثابت ہو گیا کہ یہ عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ اللہ ہی نے ہدایت و گمراہی کو پیدا فرمایا ہے لیکن یاد رہے کہ.......... 

اللہ نے انسانوں پر ہدایت و گمراہی مسلط نہیں فرمایا ہے بلکہ انھیں مکلف بنایا ہے : اللہ رب العزت نے حق و باطل واضح فرمانے کے بعد بندے کو اختیار دیا کہ تم اس میں سے جسے چاہو اختیار کرو تم پر کوئی جبر نہیں لیکن یاد رہے کہ اللہ ہدایت اور ایمان و اسلام سے راضی ہوتا ہے اور اسی کی طرف بلاتا ہے، اسی لیے امام طحاوی نے "یهدی من یشاء... الخ" سے پہلے فرما "و امرھم بطاعته و نھاھم عن معصیته" اور ایسا ہی قرآن مجید میں جا بجا ارشاد باری تعالیٰ ہے؛ چناں چہ ارشاد فرمایا :

لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ ﳜ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّۚ-فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰىۗ-لَا انْفِصَامَ لَهَاؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۵۶)

ترجمہ : کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑی مُحکَم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں اور اللہ سنتا جانتا ہے -

_____یعنی ایمان و کفر دونوں اللہ نے پیدا فرمایا ہے لیکن اللہ تمھیں ایمان کی دعوت دیتا ہے کفر سے محفوظ رہنے کی ترغیب اگر تم ایمان لائے تو اللہ کی رحمتیں تمھارے ہی لیے ہیں، اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ اگر کفر اختیار کیے تو درد ناک عذاب بھی تمھارے لیے تیار ہے؛ چناں ارشاد ہوا :

وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ- فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا(الکھف/۲۹)

ترجمہ کنز الایمان : اور فرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگر پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد رسی ہوگی اس پانی سے کہ چرخ دئیے ہوئے دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون دے گا کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ - 

یعنی______ ہدایت و گمراہی پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے لیکن یہ صرف انسانوں کی آزمائش کے لیے ہے مگر اس آزمائش کے باوجود رحمٰن رب نے مختلف انداز میں کبھی عقل و شعور دے کر، کبھی دنیاوی اتار چڑھاؤ سے، کبھی مشاہداتی قدرتوں سے، کبھی حق کی طرف بلانے والے رسولوں سے، کبھی اپنے کلام کے ذریعے ہدایت دے کر اور کبھی اپنے اولیاء و علماء کے ذریعے بندوں کی رہنمائی فرمائی کہ مذہب اسلام اور صحیح و کامل ایمان میں ہی تمھاری کامیابی ہے اور بدعقیدگی، کفر میں تمھاری ناکامی؛ دیکھیں اپنے رب کی رحمت اور اس کے فضل کو کہ امتحان میں کس قدر واضح ہیڈلائنس"إِنَّ الاَْبْرَارَ لَفِى نَعِيم (١٣) وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِى جحِيم(الانفطار/١٤)" دے کر ہمیں کامیابی کی طرف بلاتا ہے -

تقدیر اور گمراہی_____ایک مثال کی روشنی میں : اکثر گمراہ و بے دین اپنی بد عقیدگی کو تقدیر پر ٹال کر یہ سوچتے ہیں کہ ہم بری الذمہ ہو گئے کہ جب تقدیر میں ہم گمراہ لکھے جا چکے تھے ہی تو بھلا گمراہی سے کیسے بچ پاتے گویا تقدیر میں لکھے ہونے کی وجہ سے ہم مجبور ہو گئے_العیاذ باللہ_اس کی تردید علمی و عقلی دلائل کی روشنی میں گزشتہ قسط میں ہو چکی ہے لیکن آج پھر ایک مثال کے ذریعے اسے ازبر کر لیں! مگر وہی قاعدہ یاد رہے کہ "وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا" اور "وَأَنَّ اللَّهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ" کے علم کی تمثیل کہاں پیش کی جا سکتی ہے یہ تو بس عقل کے قریب کرنے کے لیے ایک بات ہے کہ............ 

_______اگر کوئی مخلوق ( آدمی) کسی چیز کو بناتا ہے مثلاً کسی نے بلب بنایا تو وہ ضمانت دیتا ہے کہ ایک سال کے اندر خراب نہیں ہوگا اس کے بعد کی کوئی ضمانت نہیں کبھی بھی خراب ہو سکتا ہے حالانکہ اس کے پاس آنے والے پل کی خبر نہیں لیکن گائرینٹی اس وجہ سے دے رہا ہے کہ یہ اس بلب کو بنانے والا ہے اسے معلوم ہے یقینی تو نہیں لیکن تجربے سے کہ اتنے دنوں تک یہ خراب نہیں ہوگا اس کے بعد خراب ہو سکتا ہے ۔

        اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ بلب ایک سال بعد خراب ہونے پر مجبور تھا کیوں کہ اس کے بنانے والے نے یہ کہہ دیا۔ بلکہ ہر کوئی یہ یہی کہے گا کہ بلب کی زندگی ہی اتنی تھی اسی لیے بنانے والے نے پہلے ہی بتا دیا کیونکہ اسے معلوم تھا ۔

       اب سوال کیا جائے کہ اللہ تو خالق کل کائنات ہے اس کے پاس تو علم ازلی وابدی ہے اگر وہ اپنے مخلوق کی تقدیر میں اس کی تخلیق سے پہلے مؤمن صالح یا بد بخت کافر و مشرک لکھ دے تو کیا مخلوق اس کے کہنے اور لکھنے کی وجہ سے مجبور ہوگی؟ تو اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ ہر گز نہیں!! واقعی، اللہ رب العزت نے وہی تحریر فرمایا جو ہم کرنے والے تھے چاہے وہ ہدایت پر عمل پیرا ہونا ہو یا گمراہی اختیار کرنا ہو ۔

_______اور بندہ جو عمل کرتا ہے اس کے متعلق علماء فرماتے ہیں : "ان الله تعالی لا یخلق الطاعة و المعصية في قلب العبد بطریق الجبر و الغلبة بل یخلقھما في قلبه مقرونا باختیار العبد و کسبه" (منح الروض الازھر شرح الفقه الأكبر/١٥١) یعنی_ نیکی اور بدی کو اللہ بندہ کے دل میں زبردستی پیدا نہیں فرماتا بلکہ دونوں کو بندہ کے کسب اور اختیار کرنے کے بعد ہی پیدا فرماتا ہے - (خلق اور کسب کی وضاحت اگلی قسط میں آئے گی ان شاء اللہ) 

گمراہی پیدا ہی کیوں کی گئی؟ ______ ایک سوال یہ بھی بارہا ذہن میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت نے گمراہی پیدا ہی کیوں کیا کہ بندے اسے اختیار کریں اور عذاب میں مبتلا ہوں؛ 

اولا___جب بھی ایسے سوالات ذہن میں آئیں فوراً لا حول پڑھ کر اس سے نکل جائیں کہ اللہ کا فرمان ہے : 

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (الانبیاء/٢٣) جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سے یہ پوچھنا (بطور اعتراض) قطعی جائز نہیں کہ تو کیا کرتا ہے یا تو نے کیا کیا؟ اور مؤمن کی یہی شان ہے - 

ثانیًا_____ لیکن اگر یہ سوال کوئی حکمت الہیہ دریافت کرنے کے لیے کرے یا کسی گمراہ کو سمجھنا ہو تو اس کا جواب بھی قرآن نے جا بجا دیا ہے جس میں مشہور آیت مذکور "لِیَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ (المك/١)" ہے کہ اللہ نے لوگوں کی نا سمجھی کو دور کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ "أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا(المؤمنون/١١٥)" یعنی_کیا تم یہ اس گمان میں ہو کہ یوں ہی پیدا کیے گئے ہو کہ دنیا میں جیسے چاہو ویسے رہو تو ایسا نہیں ہے بلکہ تم تو امتحان گاہ میں ہو؛ اب یہ امتحان کیسا؟ تو اسی امتحان کے لیے دونوں ہدایت و گمراہی پیدا کی گئی ہیں -

ثالثًا_____ اگر کسی کو یہ بھی سمجھ میں نہ آئے تو بس اتنا سمجھ لے کہ اگر اس نے ہدایت کے ساتھ گمراہی بھی پیدا کیا ہے تو اس میں صرف امتحان لینے اور آزمانے کے لیے ہی نہیں بلکہ اور بھی اس کی بے شمار حکمتیں ہیں جن تک ہمارے ناقص عقلوں کی قطعی رسائی نہیں اور نہ ہی اس کے کسی عمل پر انگشت نمائی کا کسی مخلوق کو سرے سے حق ہے کہ کل کائنات اسی کی ہے وہ جس طرح چاہے اسے چلائے، سوال اور اعتراض تو اس کے کام پر ہوتا ہے جو کسی غیر کی ملکیت میں اپنی مرضی چلائے - 

کل عالم اللہ کے فضل و عدل کے درمیان ہے : ان تمام تفصیلات کے بعد یہ بھی واضح ہو جائے کہ اللہ رب العزت پر کوئی چیز واجب نہیں ہے کہ ہر شئی کا خالق و مالک اللہ ہے وہ اپنی ملکیت میں جس طرح چاہے تصرف کرے؛ اسی وجہ سے اگر وہ کسی کے ساتھ بہ سے بہتر کرے تو اس کا فضل ہے نہ کہ اس کا حق یوں ہی اگر کسی کے ساتھ بظاہر کچھ کمی ہو تو _معاذ اللہ_ اللہ کا اس پر ظلم نہیں کہ ظلم تو غیر کی ملکیت میں تصرف کرنے کا نام ہے اور ہر بندہ اللہ کا مالک اللہ ہے تو اگر کسی کو قبولیت ایمان و اسلام کی توفیق ملتی ہے تو اللہ کے فضل سے نہ کہ اسے ایمان سے نوازنا اللہ پر واجب تھا اور اگر کوئی کافر ہوتا ہے تو اللہ کے عدل سے نہ کہ معاذ اللہ اس پر اللہ کا ظلم ہوا؛ اسی کو محقق بابرتی نے یوں تحریر کیا ہے "فمن أراد منه الایمان فھو بفضله لا باستحقاق، ومن أراد کفرہ فھو بعدله لا یکون بذالك ظلما، لأن الظلم ھو التصرف فی غیر ملكه و ھو مصرف في ملکه لا یسأل عما یفعل ، ولأن في ایجاب الأصلح ابطال قوله تعالیٰ : {ذو الفضل العظیم} (الحدید/٢١) لأنه لا فضل فی قضاء حق واجب علیه، وکذا فیه ابطال فی إسم المحسن و المنعم، و المجمل، و المنان إذا لا إحسان و لا افضال، و لا منة في أداء ما ھو واجب علیه" (شرح العقیدة الطحاویة لاكمل الدین البابرتي/ص٥٥) اسی لیے امام طحاوی کے کہا کہ جب اللہ پر کچھ واجب یا اس پر کسی کا حق نہیں؛ تو بندوں کے ساتھ فضل کا معاملہ ہوگا یا پھر عدل کا یعنی کل عالم اللہ کے فضل و عدل کے درمیان ہی گردش میں ہے - 

______اس عبارت نے پورے مضمون میں رہی سہی وضاحت کو اجاگر کر دیا - 

ہدایت و گمراہی کی مجازی نسبتیں : یہ تو واضح ہو گیا کہ ہدایت و گمراہی کا خالق اللہ رب العزت اور اسی کی طرف اس کی تکوینی نسبت بھی ہے لیکن مجازاً ہدایت کی نسبت رسول کریم ﷺ اور قرآن مجید کی طرف بھی فرمانین الٰہیہ سے ثابت ہے اسی طرح علماے کرام و اولیاء عظام کی طرف بھی ہدایت کی نسبت کی جا سکتی ہے؛ یوں ہی گمراہی کی نسبت شیطان، بت اور اس قسم کی دوسری چیزوں کی طرف نسبت کی جا سکتی ہے؛ چناں چہ علامہ سعد الدین التفتازاني علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "نعم قد تضاف الھدایته إلى النبي عليه الصلاة والسلام مجازا بطريق التسبب، كما تسند إلى القرآن، وقد يسند الإضلال إلى الشيطان مجازا كما يسند الی الاصنام ، ثم المذکور فی الکلام المشایخ ان الھدایة عندنا خلق الاھتداء، و مثل ھداہ الله تعلیٰ فلم یهتد مجاز عن الدلالة والدعوة الی الاھتداء، و عند المعتزلة بیان طریق الصواب؛ و ھو باطل لقوله تعالیٰ : "انك لا تهتدي من احببت(القصص/٥٦)" و قوله علیہ السلام: "اللھم اھد قومی(الشفاء)" مع انه بین الطریق و دعاھم الی الاھتداء و المشھور ان الھدایة عند المعتزلة ھی الدلالة المصولة الی المطلوب و عندنا: الدلالة علی طریق یوصل علی المطلوب، سواء حصل الوصول و الاھتداء او لم یحصل ". (شرح العقیدة النسفیة/٧٨-٧٩،دار الهدی الجزائر) 

_____اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ جب ہدایت و گمراہی دونوں کی ایک ساتھ نسبت کی جائے تو اللہ کی طرف کریں اور اگر صرف گمراہی کی نسبت کرنی ہو تو شیطان اور یواے نفس کی طرف کی جائے جیسا کہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے :”بُرا کام کرکے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیت الٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے منجانب اللہ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامت نفس تصور کرے۔“ (بہار شریعت، ج اول، حصہ اول، ص٢٠، المکتبہ المدینہ) 

نوٹ: اسی موضوع کی مزید تفصیلات کے لیے اگلی قسط کا انتظار کریں! 

جاری........ 


✒️ بنت مفتی عبد المالک مصباحی 

5/ستمبر 2020ء


قسط پنجم کا مطالعہ آپ نے کرلیا_

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم