مسائل تقدیر اور العقیدة الطحاویة

 مسائل تقدیر اور _______ العقیدة الطحاویة

(قسط چہارم) 

____________________

تقدیر کا خیر و شر اللہ کی مشیئت ہی سے ہے: عقائد اہل سنت میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیئت و ارادہ اور تقدیر میں لکھے ہونے ہی سے دنیا میں ہر کام ہوتا ہے اب چاہے اچھائی ہو یا برائی کہ خیر و شر دونوں کا خالق اللہ ہی ہے لیکن اللہ نے اچھائی کا حکم دیا ہے اور برائی سے منع کیا ہے؛ اسی عقیدہ کو امام طحاوی نے یوں تحریر فرمایا ہے : ”وأمرهم بطاعته، ونهاهم عن معصيته. وكل شيء يجري بتقديره ومشيئته، ومشيئته تنفذ، لا مشيئة للعباد إلا ما شاء لهم، فما شاء لهم كان، وما لم يشأ لم يكن“.(متن العقیدة الطحاویة، عقیدہ نمبر ٢٤_٢٥_٢٦، ص ١١، دار ابن حزم) اس (اللہ تعالٰی) نے ان (مخلوق) کو اپنی اطاعت کا حکم دیا اور اپنی معصیت سے منع کیا ہے، ہر چیز اسی کی قدرت اور مشیئت سے جاری ہوتی ہے، اسی کی قدرت نافذ ہے، بندوں کے لیے اس کے چاہنے کے علاوہ بندے کی مشیئت کچھ نہیں، پس وہ ان کے لیے جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، جو نہ چاہے نہیں ہوتا (ت) - 

______امام طحاوی کے اس جملے سے جبریہ اور قدریہ دونوں کا رد ہو گیا - 

جبریہ کے باطل عقیدے کا رد : فرقہ جبریہ یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ تقدیر میں لکھ دینے کی وجہ سے بندے مجبور محض ہو جاتے ہیں یہ سرے سے غلط ہے کہ اللہ نے بندے کو اختیار خیر و شر کی قوت عطا فرمائی ہے اور ساتھ ہی خیر کا حکم اور شر کی ممانعت بھی فرما دی ہے،جس پر اللہ کے نبی کی پوری زندگی اور اللہ کا قرآن شاید ہے، مثال کے طور پر یہ کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے : إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ (آل عمران/١٩) بے شک اللہ کے یہاں پسندیدہ دین صرف اسلام ہی ہے؛ اس کے علاوہ سب باطل - 

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ (الزمر/٧) اور وہ اپنے بندے کے کفر پر راضی نہیں - 

_______اللہ رب العزت نے بندے کو عقل و شعور عطا فرمانے کے بعد خیر و شر کے درمیان واضح الفاظ کے ذریعے فرق بھی کر دیا لیکن ان پر جبر نہیں کیا کہ تمھیں صرف اسلام ہی قبول کرنا ہے بلکہ فرمایا : وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ (الکھف/٢٩) اے نبی ﷺ آپ فرما دیجیے! حق تمھارے رب کی جانب سے ظاہر ہو چکا ہے تو اب جو چاہے وہ ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے - لیکن اس کے بعد ہی متصل فرمایا :إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ بے شک ہم نے کافروں کے لیے درد ناک عذاب بھی تیار کر رکھا ہے - 

_____الغرض یہ تینوں آیات مذکورہ عقیدہ اہل سنت پر مضبوط دلیل اور جبریہ کا زبردست رد ہے -

قدریہ کے باطل عقیدے کا رد : اور اس کے بعد کے جملے میں تردید ہے قدریہ کا کہ جو اللہ کی مشیئت اور اس کی تقدیر صرف خیر میں مانتے ہیں اور شر میں نہیں بلکہ بعض تو شرور کا خالق شیطان کو مانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان کے شر کے انتخاب میں مشیئتِ شیطان کا دخل ہوتا ہے؛ اس باطل عقیدے کی تردید امام طحاوی نے کر دی کہ ہر خیر و شر کا خالق محض اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے اور اس میں اللہ ہی کی مشیئت ہوتی ہے کہ خود اللہ رب العزت نے فرمایا : "وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ" (الصافات /٩٦) اور اللہ نے تمھیں اور تمہارے اعمال کوپیدا کیا -

______اس آیت میں بلا تقید اللہ نے فرما دیا کہ اللہ نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے اعمال کو بھی اب وہ اعمال خیر ہو یا کہ شر؛ کیوں کہ "اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ٘" -(الزمر/٦٢) 

 اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے -

اور یہ بھی کہ بندے کے ہر کام میں صرف اللہ ہی کی مشیئت شامل ہوتی ہے "وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۠" (التکویر /٢٩) اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ چاہے اللہ سارے جہان کا رب -

المختصر_____ صرف یہی تین آیات یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہر خیر و شر کا خالق صرف اللہ ہی ہے اور یہ بھی کہ بندے کا ہر عمل اللہ کی مشیئت ہی سے ہوتا ہے؛ چاہے وہ عملِ خیر ہو یا شر - مگر یاد رہے..............

مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی میں بڑا فرق ہے : ان مذکورہ بالا تفصیلات کا علم ہونے کے بعد اور ان عقائد کو جاننے کے بعد انسان کے ذہن میں فوراً ایک بڑا الجھا دینے والا مسئلہ یہ آتا ہے کہ بھلا اعمال بد اور شر میں اللہ کی مشیت ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اللہ ان افعال سے بھی راضی ہوتا ہے؟ پھر اللہ کی مشیت اور اس کے ارادہ پر راضی ہونا تو اچھی بات ہے اس کے باوجود اعمال بد پر گرفت کیسی؟

_______علم کی کمی اور مشیت کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے طرح طرح کے وساوس ذہن میں آتے ہیں ایمان و عقیدہ کو خراب کر جاتے ہیں؛ اسی کج فہمی کی وجہ سے کئی کمزور ایمان والے اسلام مخالف کی پڑھائی ہوئی پٹی کو صحیح سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنے ایمان سے ہاتھ دھو جاتے ہیں؛ آج اس کی جیتی جاگتی کئی مثالیں ہماری نظروں کے سامنے ہیں مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ساتویں صدی ہجری میں ہی ابن زید ثقفی زندیق (بے دین) نے اسلام کے اس پیچیدہ اور مشہور مسئلہ تقدیر اور قضاء و قدر کے متعلق ایک نظم لکھ کر عوام اسلام میں الحاد و بے دینی پھیلانا چاہا؛ اس کی نظم کا ایک شعر مشیت الٰہی کے تعلق سے بھی ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں :

اذا شاء ربی الکفر منی مشیة 

فھل انا عاص فی اتباع المشية؟

جب میرے کفر کو میرے رب نے چاہا تو میں اس کی چاہت میں کس طرح راضی نہ ہوں؟ 

_______اُس بد بخت کے اِس نظم کے رد میں بے شمار علماء نے قلم اٹھایا اور اس کے باطل عزائم کو شکست دیا مگر وہ جوابات عربی میں ہیں جسے ہم یہاں ذکر کرنا زیادہ مناسب نہیں سمجھتے چناں چہ مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی صاحبداد خان جمالی علیہ الرحمہ کا جواب من و عن نقل کرتے ہیں؛ آپ اس مصرع کا جواب یوں لکھتے ہیں:

     یہاں زندیق خدا تعالٰی کی مشیّت کی آڑ میں یہ مغالطہ دینا چاہتا ہے کہ مشیّت بمعنی ارادہ خدائی اور رضائے خدائی دونوں ہی ایک چیز ہے حالاں کہ ان میں بڑا فرق ہے۔ خدا تعالٰی کی رضا خاص ہے جس کا تعلق محض نیک کاموں سے ہے اور خدا کی مشیّت اور ارادہ اور تقدیر اور قضا اور حکم عام ہیں جس کا تعلق ہر ایک نیک کام اور برے کام سے ہے اور ہر خیر و شر اور نفع و نقصان اور عزت و ذلت سب یکساں طور پر ہے۔ ہمارے عوام بھائی خاص اور عام کے فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ "شرح عقائد"مطبوعہ مجتبائی صفحہ 27 میں ہے کہ :

إن الإرادة و المشية و التقدير یتعلق بالکل، و الرضا و المحبة و الأمر لا یتعلق إلا بالحسن دون القبيح - (شرح العقائد النسفیه،ص٢١٦) 

یعنی : ارادہ اور مشیت اور تقدیر کا تعلق سب نیک و بد سے ہے اور خدا کی رضا اور محبت اور امر کا تعلق خاص نیک کاموں سے ہے نہ کہ برے کاموں سے ۔

______اس سے ثابت ہوا کہ ارادہ اور مشیت دو قسم ہے۔ ایک کا تعلق ہر خیر و شر سے تقدیر کی طرح ہے اور دوسرے کا تعلق فقط نیک کاموں سے جسے امر اور رضا اور محبت بھی کہا جاتا ہے -

فائدہ عظیمہ :

     علم عقائد اہل سنت میں خدائی ارادہ اور خدائی مشیّت اور خدائی تقدیر اور خدائی قضا اور خدائی حکم اکثر ایسے چیزوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں جس کا تعلق ہر ایک خیر و شر اور ہر ایک نفع و نقصان سے ہے دوسری طرف خدائی رضا اور خدائی امر اور خدائی محبت کے الفاظ خاص ان چیزوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں جس کا تعلق خاص نیک کاموں سے ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى (النحل/٩٠) 

یعنی : بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے - 

 وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(النحل/۹۰)

اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔

اور ارشاد ہے :

وَ لَا یَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَۚ-

حق تعالٰی بندوں کے کفر کرنے سے راضی نہیں ہے - 

اور ارشاد ہے :

وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ (التوبه/١٠٨) 

حق تعالٰی زیادہ پاکیزگی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے - 

_______اور زندیق کے مذکورہ شعر کے مضمون اور اعتراض کا جواب قرآن عظیم اپنے معجزانہ انداز میں پیشن گوئی کے طور پر پہلے سے بیان فرما دیا ہے؛ چناں چہ”تفسیر مظہری“ میں ہے کہ :

 لو شاء الله خلاف ما نحن عليه ما أشركنا ولا آباؤنا ولا حرمنا من شيء مما حرمناه يعنى ان الله قادر على ان يحول بيننا وبين ما نحن عليه حتى لا نفعله فلولا انه رضى بما نحن عليه وأراد منا وأمرنا به لحال بيننا وبين ذلك وهذا الاستدلال مبنى على جهلهم وعدم تفرقهم بين المشية بمعنى الارادة وبين الرضا فان إرادته تعالى متعلق بالخير والشر ما شاء الله كان وما لم يشأ لا يكون وانه تعالى لا يرضى لعباده الكفر. (التفسير المظھري، سورة الأنعام،تحت ١٤٧،ج٣،ص٣٠١-٣٠٢)

ترجمہ : یعنی خدا تعالی ہمارے شرکیات وغیرہ گناہوں سے راضی نہ ہوتا تو ہمیں یہ کرنے ہی نہ دیتا اور ہمارے اور گناہوں کے درمیان ایسی رکاوٹیں ڈالتا کہ ہم گناہ کرنے ہی نہ پاتے اگر وہ چاہتا ہو تو بے شک ایسا کرنے پر قادر ہے تو ہم اس کی چاہت کے خلاف کچھ نہ کر سکتے؟

      اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض کفّار کی جہالت پر مبنی ہے کہ مشیت بمعنی ارادہ اور رضا کے درمیان فرق کو نہ سمجھ سکے اور ظاہر ہے کہ ارادہ اور مشیت کا تعلق ہر خیر و شر سے ہے اور خدا تعالی کی رضا کا تعلق خاص خیر سے ہے اور ( ولَا یَرضٰی لِعِبَادِہِ الکُفرَ ) اس کی دلیل ہے۔

        اور جس مضمون کو زندیق مذکور نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے قرآن عظیم نے سورہ انعام پارہ آٹھ/ 8 میں کفار کے اس اعتراض کا بہترین جواب دیا ہے جسے " تفسیر کبیر" میں امام محمد بن عمر رازی قدّس سرّہ ( متوفی ٦٠٦ھ / 1209ع) نے پوری تشریح کے ساتھ کفار کے اعتراض اور قرآن عظیم کے جواب کو سمجھایا ہے اس سے بہتر تشریح ہو نہیں سکتی۔

قال الإمام الفخر الرازي في تفسير قوله تعالى {سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ} آية (پ:٨، سورة الأنعام ١٤٧)

وتقريره: أنهم احتجوا في دفع دعوة الأنبياء والرسل على أنفسهم بأن قالوا: كل ما حصل فهو بمشيئة الله تعالى وإذا شاء الله منا ذلك فكيف يمكننا تركه؟

وإذا كنا عاجزين عن تركه فكيف يأمرنا بتركه؟ وهل في وسعنا وطاقتنا أن نأتي بفعل على خلاف مشيئة الله تعالى؟ فهذا هو حجة الكفار على الأنبياء فقال تعالى: قل فلله الحجة البالغة وذلك من وجهين:

الوجه الأول: أنه تعالى أعطاكم عقولا كاملة وأفهاما وافية وآذانا سامعة وعيونا باصرة وأقدركم على الخير والشر وأزال الأعذار والموانع بالكلية عنكم فإن شئتم ذهبتم إلى عمل الخيرات وإن شئتم إلى عمل المعاصي والمنكرات وهذه القدرة والمكنة معلومة الثبوت بالضرورة وزوال الموانع والعوائق معلوم الثبوت أيضا بالضرورة وإذا كان الأمر كذلك كان ادعاؤكم أنكم عاجزون عن الإيمان والطاعة دعوى باطلة فثبت بما ذكرنا أنه ليس لكم على الله حجة بالغة! بل لله الحجة البالغة عليكم.

والوجه الثاني: أنكم تقولون: لو كانت أفعالنا واقعة على خلاف مشيئة الله تعالى لكنا قد غلبنا الله وقهرناه وأتينا بالفعل على مضادته ومخالفته وذلك يوجب كونه عاجزا ضعيفا وذلك يقدح في كونه إلها.

فأجاب تعالى عنه: بأن العجز والضعف إنما يلزم إذا لم أكن قادرا على حملهم على الإيمان والطاعة على سبيل القهر والإلجاء وأنا قادر على ذلك وهو المراد من قوله: "ولو شاء لهداكم أجمعين" إلا أني لا أحملكم على الإيمان والطاعة على سبيل القهر والإلجاء لأن ذلك يبطل الحكمة المطلوبة من التكليف فثبت بهذا البيان أن الذي يقولونه من أنا لو أتينا بعمل على خلاف مشيئة الله فإنه يلزم منه كونه تعالى عاجزا ضعيفا كلام باطل.

ترجمہ : یعنی امام فخر الدین رازی قدّس سرّہ سورہ انعام کی آیت سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ} الآیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں جس کی تشریح یہ ہے کہ کفار نے حضرات انبیا علیہم السلام کی دعوت اسلام اور دعوت ایمان کو ٹھکرانے کے لیے یہ عذر تراشا اور حجت پکڑی کہ ہر چیز خدا تعالی کی مشیت (چاہت) اور اس کے ارداہ سے ہوتی ہے اور جب خدا تعالی نے ہم سے اور ہمارے آبا و اجداد سے ہمارا مشرک ہونا اور نافرمان ہونا چاہا ہے تو پھر ہمارا شرک وغیرہ نافرمانی کو ترک کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے اور جب ہم اس کے ترک کرنے سے عاجز ہیں تو ہمیں شرک و کفر ترک کرنے کا حکم کیسے دیتا ہے؟ اور خدا تعالی کی مشیّت کے خلاف کوئی فعل کرنا کیا ہمارے بس کی بات ہے؟ اور کیا مشیّتِ خداوندی کے خلاف کرنے پر ہمیں طاقت ہے؟

_______کفار کی یہی حجت و دلیل حضرات انبیا علیہم السلام کے مقابلہ میں ہے جس کے جواب و تردید میں حق تعالی نے اپنے حبیب اکرم ﷺ سے فرمایا کہ آپ مشرکین سے کہہ دیجیے کہ حق تعالی کی حجت ہی دلوں کی گہرائیوں میں پہنچنے والی چیز ہے اور حجتہ اللہ کے دو معقول و مقبول طریقے ہیں:

١ _ ایک طریق تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے تمہیں کامل عقل عطا فرمائی اور بہت سمجھ بخشی۔ اور کان سننے کے لیے اور آنکھیں دیکھنے کے لیے دے کر ہر ایک نیک کام اور برے کام کرنے پر بغیر رکاوٹ کے تمہیں قدرت دی، پھر اگر چاہو تو نیک کام بھی کر سکتے ہو اور اگر چاہو تو برے کام بھی کر سکتے ہو اور تمہیں یہ قدرت و اختیار دینا سب کو معلوم ہے اس قدرت و اختیار کے ہوتے ہوئے تمہارا یہ کہنا کہ ہم ایمان لانے سے عاجز ہیں، سراسر باطل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ تمہاری حجت کچھ نہیں بلکہ حق تعالیٰ کے لیے حجت بالغہ ہے۔ 

٢ _ دوسرا طریق یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہمارے شرکیہ و کفریہ اعمال و افعال اگر خدا تعالیٰ کی مشیت کے خلاف سر زد ہوئے ہیں تو بے شک ہم کو خدا تعالیٰ پر غلبہ حاصل ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت میں ہمارے افعال و اعمال کا سر زد اور واقع ہونا اور ان ممنوعہ افعال سے ہمیں روکنے پر خدا تعالیٰ کا قادر نہ ہونا اس چیز کا زبردست ثبوت ہے کہ وہ ہمیں روکنے سے عاجز ہے اور جو خود عاجز و ضعیف ہو وہ معبود اور خدا ہونے کے قابل نہیں۔ 

تو اس اعتراض کا خدا تعالیٰ نے یہ جواب کہ ہمارا عاجز و ضعیف ہونا اس وقت لازم آئے گا جب کہ ہم زبردستی سے ان کے ایمان لانےاور اطاعت قبول کرانے کے قادر نہ ہو بلکہ ہم تکوینی و تخلیقی طور پر ان سے زبردستی ایمان و اطاعت قبول کرانے پر قادر ہیں۔ جیسا کہ اس جگہ پر آیت (فلو شاء لھدیکم اجمعین) ہمارے قادر مطلق ہونے پر صاف دلالت کرتی ہے۔ یعنی تخلیقی اور تکوینی طور پر خدا تعالیٰ زبردستی کرنا چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر پیدا کرتا جیسا کہ فطری طور پر خدا تعالیٰ حضرات انبیاء کرام اور حضرات ملائکہ کرام کو معصوم پیدا کرنے پر قادر ہے۔

ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الجمعة/٤) 

مگر______ایسی زبردستی کی ھدایت کرنے سے خدا تعالیٰ کی مطلوبہ حکمت ضائع ہوتی ہے اور بندوں کی تکلیف اور امتحان لینے والی حکمت باطل و بے سود رہ جاتی ہے جس کا ذکر جا بجا قرآن میں موجود ہے:

خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ [پ ۲۹ سورہ الملک ۲]

موت اور حیات کو اس واسطے پیدا فرمایا تاکہ خدا تعالیٰ تمہیں آزمائے کہ تم میں کا کون عملوں کے لحاظ سے اچھا ہے۔ 

    بلا تشبیہ جیسا کہ مدرسوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کو امتحان کے وقت سوالات کا پرچہ دے کر انہیں آزادی سے جواب دینے پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو چاہیں جواب لکھیں تاکہ ہر ایک کی صلاحیت و لیاقت معلوم ہو جائے کہ کون پاس ہونے کے لائق ہے اور کون فیل ہونے کے۔ اس تشریح سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ جو بندوں کو دنیا میں ڈھیل دیتا ہے اور گناہ پر بروقت نہیں پکڑتا اس میں بھی اس کی حکمت کار فرما ہے یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ عاجز و ضعیف ہے اس لیے بر وقت گرفت نہیں فرماتا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

 إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ۔[پ ۴ سورہ آل عمران ۱۷۸]

ہم کفار کے لیے دنیا میں ڈھیل اس لیے دیتے ہیں کہ گناہوں میں بڑھتے رہیں اور آخرت میں ان کے لیے عذاب رسوائی ہے۔ (الھام القدیر فی مسئلة القدیر، ص٤٧تا٥٤) 

الحاصل_____ پوری بحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ واقعی مشیت الٰہی اور رضائے خدائی میں بڑا فرق ہے، مشیت عام ہے خیر و شر کے لیے اور رضا خاص ہے خیر کے لیے؛ مشیت کے عموم پر فرمان الٰہی "مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۠" شاہد ہے اور رضا کے خاص ہونے پر "وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ " دال ہے کہ اللہ اپنے بندے کے ہر باطل سے جدا عقیدہ پر ہی راضی ہے - 

______اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ دعا ہے کہ عقائد اہل سنت ہی پر ثابت قدم رکھے - آمین ثم آمین 

جاری......... 


بنت مفتی عبدالمالک مصباحی 

3/ستمبر 2020ء

١٤/محرم الحرام ١٤٤٢ھ


قسط چہارم کا مطالعہ آپ نے کرلیا_


قسط پنجم کے لیے یہاں کلک کریں! 

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم