مسائل تقدیر اور العقیدة الطحاویة

مسائلِ تقدیر اور _______ العقیدة الطحاویة

(قسط سوم) 

______________________


خلقت انسانی سے قبل تقدیر کس بنیاد پر لکھی گئی؟

    مسائل تقدیر میں سے ایک بڑا الجھانے والا عام مسئلہ ہے جس کے جواب کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے؛ چناں چہ اسی مستتر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ”ضرب لھم آجالا - لم یخف علیه شئی قبل ان خلقھم، و علم ما ھم عاملون قبل ان یخلقھم - “ (متن العقیدة الطحاویة، عقیدہ نمبر ٢٢-٢٣، ص ١٠-١١، دار ابن حزم) ان (مخلوق) کی عمریں مقرر کی، ان کے پیدا کرنے سے پہلے بھی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہ تھی اور اللہ تعالٰی ان کے پیدا کرنے سے پہلے بھی جانتا تھا کہ وہ کیا کچھ کرنے والے ہیں (ت) -

یعنی____ اللہ رب العزت نے جو بندوں کی خلقت اور پیدائش سے پہلے ہی لکھ دیا کہ وہ دنیا میں کب پیدا ہوں گے، کیسے رہیں گے، کیا کریں گے، کہاں جئیں گے اور کب مریں گے سب چیز اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ثبت فرما دیا یہ یوں ہی نہیں بلکہ اس نے اپنے ازلی علم کے ذریعے وہ علم جو تمام مخلوق کی خلقت سے پہلے سے ہی اللہ کے پاس ہے اس سے جان لیا کہ کون بندہ کیا کیا کرے گا، امام طحاوی کے قول ”علم ما ھم عاملون“ میں لفظ ” ما“ عموم کے لیے ہے، یعنی بندے کے ہر ایک فعل کی اللہ کو ان کی خلقت سے پہلے ہی خبر تھی -

اللہ کے اس علم کے متعلق مجھے محقق برباتی علیہ الرحمہ کی یہ عبارت بہت پسند آئی”فھذا إقرار بسبق علم الله تعالی بکل کائن من خلقه قبل کونھم، لأنه تعالی قدیم بصفاته و من صفاته كونه عالما بکل المعلومات قبل کونھم فی الأزل“ (شرح العقیدة الطحاویة لاکمل الدین بابرتی، ص ٥٣) تو یہ (عقیدہ جو امام طحاوی نے ذکر کیا ہے) اقرار کرنا اور ماننا ہے کہ اللہ کا علم سبقت لے جانے والا ہے اس کی مخلوق میں سے ہر ایک کی تکوین اور خلقت پر (یعنی اس کا علم ہر وجود سے پہلے موجود تھا)، اس لیے کہ اللہ تعالٰی اپنی صفات کے ساتھ قدیم ہے اور اس کی صفات سے ہر معلوم شئی کا اس کی خلقت سے پہلے عالم ہونا بھی ہے ازل ہی سے -

_______محقق کمال الدین بابرتی علیہ الرحمہ کی یہ مذکورہ بالا عبارت اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے بہت اچھی ہے کہ اللہ کو جب ہم اس کی صفات کے ساتھ قدیم مانتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ مخلوق کے افعال کا علم بھی اللہ کو جو ہے ان کے کرنے کے بعد نہیں ہے بلکہ اس کا علم بھی اللہ کو ازل سے ہی ہے جس کی بنیاد پر ان کے افعال کو لکھ دیا گیا بس اسی کو تو تقدیر کہتے ہیں اور اسی علم کی بنیاد پر خلقت انسانی سے پہلے ہی ان کے کرنے والے افعال بنام تقدیر تحریر کر دیے گئے - 

اب آئیں_____ہم اس الجھن اور مسئلے کو مزید آسان انداز میں سلجھاتے ہیں نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں -

علم الہی کے سابق ہونے پر قرآنی آیات :

١ _ وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ(۸۰)فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا(۸۱)(الکھف)

 ترجمہ کنز الایمان : اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر پر چڑھاوے۔ تو ہم نے چاہا کہ ان دونوں کا رب اس سے بہتر ستھرا اور اس سے زیادہ مہربانی میں قریب عطا کرے۔

_______یوں تو پورا قرآن ہی علم الہی کے سابق ہونے پر شاہد ہے لیکن اس کی صرف یہ دو آیت بھی اگر غور سے پڑھ لیا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ خلقت افعال و انسان سے قبل تقدیر کس بنیاد پر لکھی گئی؛ ابھی یہ بچہ اس عمر کو پہنچا نہیں ہے، اس نے کچھ کیا نہیں ہے، اپنے والدین کے ایمان کے لیے مضر اور فتنہ ثابت ہوا نہیں ہے لیکن اللہ رب العزت کو اپنے علم ازلی سے یہ معلوم ہو گیا کہ اگر یہ بچہ اس عمر کو پہنچا تو ایسا ہی کرے گا لہٰذا ان کے والدین کی بہتری کے لیے بچے کی تقدیر میں اسی عمر میں موت لکھ دیا گیا اور وہ مر بھی گیا - یہ دلیل ہے کہ اللہ نے اپنے علم ازلی سے وہی کچھ لکھا ہے جو بندہ کرنے والا ہے -

٢ _ وَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(یٰسین/۸۱)

ترجمہ کنز الایمان : اور وہی بڑا پیدا کرنے والا سب کچھ جانتا۔

٣ _ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُۙﰳ(یٰسین/۷۹)

ترجمہ کنز الایمان : اور اسے ہر پیدائش کا علم ہے۔

______ان دونوں آیت میں بھی اللہ رب العزت کے علم ازلی کا بیان ہے کہ اسے خلقت انسانی سے پہلے سے ہی ہر مخلوق کا علم ہے؛ اس طرح کی اور بھی بے شمار آیات ہیں مگر ہم اختصار کے پیش نظر اسی پر بس کرتے ہیں اور احادیث سے بھی صرف نظر کرتے ہیں ورنہ متعدد احادیث میں اس بات کا ذکر ہے اللہ رب العزت نے اپنے علم ازلی سے مخلوق کی خلقت سے قبل ہی ان کی تقدیر تحریر فرما دی ہے -

مزید برآں عقلی دلیل ملاحظہ فرمائیں :

    یہ عقیدہ تو مسلم ہے کہ ہماری تقدیریں ہماری پیدائش سے لاکھوں برس پہلے ہی لکھی جا چکی ہیں مگر کس بنیاد پر؟ ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی!!

اسے سمجھنے کے لیے دنیا میں بے شمار دلائل موجود ہیں کہ کئی موجد دنیا میں ایسے بھی ہوئے ہیں جو کسی شئی کو ایجاد کرنے سے پہلے ہی اپنے ناقص علم کے ذریعے یقینی تو نہیں لیکن اندازہ سے اس کے سارے کام، ایک مقررہ مدت تک اس کے صحیح سے چلنے کی گارنٹی اور محدود مدت کے بعد اس کے خراب ہونے اور فنا ہونے کی خبر وغیرہ سب پہلے ہی ایک ایک کاغز میں لکھ کر رکھ دیتا ہے اور جب اس سامان کو استعمال کیا جائے تو واقعی ویسا ہی پایا جاتا ہے جیسا اس کے موجد نے بتایا تھا-

______اب وہاں ہمیں بات کیسے سمجھ آ جاتی ہے؟ جب ہم ایک مشین لیتے ہیں اور اس کے ساتھ وائرینٹی کارڈ دیکھتے ہیں اس وقت حیریت کیوں نہیں کرتے کہ یہ کیسے ایک سال کی گارنٹی دیتا ہے اسے تو ایک پل کی بھی خبر نہیں ہے؟ اس وقت ہم کیوں نہیں طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا ہوتے؟ 

اگر ہمیں یہاں وائرینٹی کارڈ کی باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں تو تقدیر کے اس مسئلہ کو بھی ہمیں یوں ہی آسانی سے سمجھ لینا چاہیے -

یاد رہے______ یہ سب باتیں صرف سمجھانے اور عقل کو ٹھکانے لگانے کے لیے تھی ورنہ تو اللہ کے علم اس کی ذات اس کی صفات سب تمثیل سے پاک ”لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ“ ہے؛ اس کے لا محدود علم ازلی اور ناقص بندوں کے محدود و ناقص علم میں کیا تناسب -

اللہ رب العزت عقائد اھل سنت پر استقامت عطا فرمائے - 

جاری......


✒️بنت مفتی عبد المالک مصباحی

2/ستمبر 2020ء

١٣/محرم الحرام ١٤٤٢ھ


قسط سوم کا مطالعہ آپ نے کرلیا_


قسط چہارم کے لیے یہاں کلک کریں! 

قسط پنجم کے لیے یہاں کلک کریں! 

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم