مسائل تقدیر اور العقیدة الطحاویة

 مسائلِ تقدیر اور _______ العقیدة الطحاویة

(قسط دوم) 

_________________


ایمان بالقدر کی اہمیت :

      امام طحاوی نے تقدیر کے متعلق عقائد بیان کرنے کے بعد فرمایا : ”لا راد لقضائه، و معقب لحکمه، و لا غالب لأمره - آمنا بذالك کله، و ایقنا ان کل من عنده“ وقال الطحاوي فی مکان الآخر ” وذلك (أي التقدیر) من عقد الإيمان وأصول المعرفة، والإعتراف بتوحيد الله تعالى و ربوبيته،كما قال تعالى في كتابه: ( وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا )وقال تعالى: ( وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا ) فويل لمن صار لله تعالى في القدر خصيماً ، وأحضر للنظر فيه قلباً سقيماً ، لقد التمس بوهمه في فحص الغيب سراً كتيماً ، وعاد بما قال فيه أفكاً أثيماً“{متن العقیدة الطحاویة، عقیدہ نمبر ٣٠_٣١،و ٦٦_٦٧، ص١١-١٢، و١٨_١٩، دار ابن حزم}

ترجمہ :_____اس کے حکم کو کوئی پیچھے ہٹا نہیں سکتا، اللہ کے حکم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا ہم ان سب پر ایمان لائے اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں اسی اللہ کی طرف سے ہیں؛ یہ بات (صحیح عقائد تقدیر) ایمان کی بنیاد اور معرفت کے اصول میں داخل ہے اور اللہ کی توحید اور اس کی ربوبیت کے اعتراف پر مشتمل ہے؛ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے”اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی خاص تقدیر ٹھہرائی“ نیز اللہ کا فرمان ہے”اللہ کی بات طے شدہ تقدیر کے مطابق ہے“، پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو تقدیر کے بارے میں اللہ کا مخالف بن گیا اور اس نے تقدیر میں غور و فکر کرنے کے لیے بیمار (منکر یا شک کرنے والے) دل کو مصروف کیا اور اس شخص نے محض اپنے وہم کے ساتھ غائب امور کی کرید میں ایک پوشیدہ اور مخفی راز کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور جو بات اس نے اس کے متعلق کہی ہے اس کی وجہ سے وہ جھوٹ باندھنے والا گنہ گار ثابت ہوا - 

    امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالا عبارات میں ایمان بالقدر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لانا بھی لازم و ضروری بلکہ فرض ہے کہ خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر تقدیر کی توضیح فرمائی ہے جن میں سے دو آیتیں آپ نے بطور دلیل پیش کی ہے - اب ہم مزید چند آیات و احادیث اس موضوع پر پیش کرتے ہیں تاکہ حق اور بھی زیادہ واضح ہو جائے - 

ایمان بالقدر کے متعلق دس آیات :

١ _ وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(الصافات /٩٦) 

ترجمہ کنز الایمان : اور اللہ نے تمھیں اور تمہارے اعمال کوپیدا کیا ۔

٢ _ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍؕ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَؕ-قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا(النساء/ ٧٨)

ترجمہ کنز الایمان : تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آلے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو اور اُنہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور کی طرف سے آئی تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے۔

٣ _ وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۠(التکویر /٢٩) 

ترجمہ کنز الایمان : اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ چاہے اللہ سارے جہان کا رب ۔

٤ _ وَ كُلُّ صَغِیْرٍ وَّ كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ(القمر/٥٣) 

ترجمہ کنز الایمان : اور ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔

٥ _اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(القمر /٤٩) 

ترجمہ کنز الایمان : بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی - 

٦ _ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا(الطلاق /٣) 

ترجمہ کنز الایمان : بے شک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے۔

٧ _ مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ(۲۲) لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ (الحدید / ٢٢_٢٣) 

ترجمہ کنز الایمان : نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے قبل اس کے کہ ہم اُسے پیدا کریں بے شک یہ اللہ کو آسان ہے ۔

اس لیے کہ غم نہ کھاؤ اس پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اترونا بڑائی مارنے والا ۔

٨ _ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۠(یٰسین / ١٢) 

ترجمہ کنز الایمان : اور ہر چیز ہم نے گن رکھی ہے ایک بتانے والی کتاب میں ۔

٩ _ اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ٘-(الزمر/٦٢) 

ترجمہ کنز الایمان : اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے - 

١٠ _ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠(الملك/۱۴) 

ترجمہ کنز الایمان : کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا اور وہی ہے ہر باریکی جانتا خبردار۔

______صرف یہ دس آیتیں ذرا توجہ اور دھیان سے پڑھ لیا جائے تو تقدیر پر ایمان لانے اور اس پر استقامت پانے کے لیے کافی ہوں گی ”تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ “ ورنہ تو اس کے علاوہ بھی اللہ رب العزت کی قدرت اور قضا و قدر کو سمجھنے کے لیے بے شمار آیات موجود ہیں - 

ایمان بالقدر اور احادیث :

   اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے جس طرح دیگر ایمانیات کی درستی فرمائی ہے اسی طرح ایمان بالقدر اور تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لانے کی بے شمار مقامات پر تاکید فرمائی؛ مثال کے طور پر یہاں تین احادیث ذکر کی جاتی ہیں اگر مزید کی طلب ہو تو کتب احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ خود صحاح میں باقاعدہ ”کتاب القدر“ کے تحت مختلف ابواب میں منقسم بے شمار احادیث موجود ہیں؛ بہر حال چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

١ _ صحیحین میں مذکور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث جبرئیل کا جز "قَالَ: فأخبرني عَنْ الإيمان؟ قَالَ: "أن تؤمن باللَّه وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر؛ وتؤمن بالقدر خيره وشره.... الخ" (صحیح مسلم، باب بیان الایمان و الإسلام و الإحسان) 

ترجمہ : جبرئیل علیہ السلام نے حضور نبی کریم ﷺ سے سوال کیا : ایمان کیا ہے؟ حضور نے فرمایا : یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر نیز تم ایمان لاؤ تقدیر کے اچھا اور برا ہونے پر - یعنی اول الذکر ایمانیات کی تکمیل آخر الذکر یعنی تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لانے سے ہوگی - 

٢ _ عن حذیفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”لکل أُمة مجوس ومجوس هذه الاُمة الذین یقولون لا قدر من مات منھم فلا تشھدوا جنازته و من مرض منھم فلا تعودوھم و ھم شیعة الدجال و حق علی الله أن یلحقھم بالدجال“ - (ابو داؤد، کتاب السنة، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانه،۴ /۲۹۴، الحدیث:۴۶۹۲) 

ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ہر امت میں مجوسی ہوتے تھے اور اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو کہیں گے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ۔ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک نہ ہونا اور جو ان میں سے بیمار پڑے اس کی عیادت نہ کرنا،وہ دجال کے ساتھی ہیں اور اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں دجال کے ساتھ ملا دے - 

٣ _ عن جابر بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لایؤمن عبد حتی یؤمن بالقدر خیرہ وشرہ وحتی یعلم أن ماأصابه لم یکن لیخطئه ، وانما أخطأہ لم یکن لیصیبه (ترمذی،کتاب القدر، باب ماجاء انّ الایمان بالقدر خیرہ وشرّہ،٤/ ۵۷،الحدیث:۲۱۵۱) 

ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لائے،اسی طرح جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ جو مصیبت اسے پہنچی ہے وہ اس سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔

     ان مذکورہ بالا احادیث سے بھی ثابت ہو گیا کہ تقدیر اور اس کی اچھائی، برائی سب پر ایمان لانا ضروری نہایت ضروری ہے - 

قول فیصل ______

     انھیں آیات و احادیث کی روشنی میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لانا ضروریاتِ اھل سنت سے ہے جو بھی اس کا انکار کرے اور ایمان نہ لائے وہ اہل سنت کی جماعت سے خارج بد مذہب کی گروہ میں شامل ہوگا؛ چناں چہ امام اہل سنت محقق بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ”تقدیر کا منکر رافضی معتزلی گمراہ ہے“ - (فتاویٰ رضویہ،ج١٦،کتاب الشرکہ،ص٥٨٠) 

اسی طرح فقیہ اعظم ہند علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ”تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا“ ۔ (بہار شریعت، ج١،حصہ١،ص١٣) 

المختصر____ مذکورہ بالا تمام تر تفصیلات سے یہ واضح ہو گیا کہ مطلقاً تقدیر پر ایمان لانا لازم و ضروری اور اس کا انکار بدعت و گمراہی ہے - 

جاری......... 


✒️بنت مفتی عبد المالک مصباحی 

1/ستمبر 2020ء

١٢/محرم الحرام ١٤٤٢ھ


قسط دوم کا مطالعہ آپ نے کرلیا_


قسط سوم کے لیے یہاں کلک کریں!


قسط چہارم کے لیے یہاں کلک کریں! 


قسط پنجم کے لیے یہاں کلک کریں! 

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم