مسائل تقدیر اور العقیدة الطحاویة

 مسائلِ تقدیر اور _______ العقیدة الطحاویة

(قسط اول) 

___________________

امام طحاوی اور العقیدة الطحاویة : امام احمد بن محمد بن سلامہ ابو جعفر طحاوی، (٢٣٩ھ __ ٣٢١ھ) بڑے محدث، فقیہ اور علم کلام کے ایک بڑے عالم کا نام ہے کہ جن کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں : ”کان اوحد اھل زمانه علما“ کہ اپنے زمانہ میں علم کے اعتبار سے یگانہ تھے (میزان الاعتدال، ج١، ص٢٧٧) - اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کے بارے میں فرمایا : ”الإمام العلامة الحافظ، صاحب تصانیف البدیعه“ کہ وہ امام، علامہ، حافظ اور عمدہ کتابوں کے مصنف تھے (تذکرة الحفاظ، ج٣، ص٢٨) - امام طحاوی کی انھیں عمدہ اور مفید ترین تصانیف میں سے عقائدِ اہل سنت و الجماعت کے موضوع پر ایک مختصر مگر جامع اور مستند ترین جموعہ بنام ”العقیدة الطحاویة“ پوری دنیا میں مشہور و معروف ہے اگر چہ اس رسالے کے اور بھی کئی نام شمار کیے جاتے ہیں لیکن ”العقیدة الطحاویة بیان عقائد اھل سنة و الجماعة“ کے نام سے ہی یہ سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے- 

    امام طحاوی کی یہ کتاب اگر چہ بظاہر نہایت چھوٹی اور مختصر ہے مگر عقائد کے موضوع پر بڑی جامع، عمدہ اور معتبر ہے - اس کا انداز تحریر و ترتیب بھی نہایت آسان اور عام فہم ہے مگر اس کے باوجود اس متن کی مختلف زبانوں میں مختصر و مفصل بے شمار شرحیں لکھی گئیں جو اس کی مقبولیت پر دال ہیں - اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امام طحاوی نے اختصار کے ساتھ اسلام کے قریباً تمام بنیادی عقائد کو شمار کرا دیا ہے؛ لیکن_______ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس مستند ترین مختصر متن میں کس عقیدے پر امام طحاوی نے سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اور حق و باطل میں فرق واضح کیا ہے؟ 

جی! وہ عقیدہ تقدیر اور مسائل قدر و قضا ہے؛ امام طحاوی نے”العقیدة الطحاویة“ میں مسائل تقدیر پر مختلف جہات سے روشنی ڈالی ہے اور حق کو واضح کرنے کی سعی کامل کی ہے؛ اسی لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ انھیں عقائد و مسائل تقدیر کی مزید تسہیل کر کے اس دور کے متذبذبین و منکرین قضا و قدر کو عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں کچھ سمجھانے کی ناقص کوشش کی جائے - اللہ رب العزت حق لکھنے اور امت مسلمہ کو حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے - آمین ثم آمین یا رب العالمین _

(سوشل میڈیا پر اسے قسط وار شائع کیا جائے گا - ان شاء اللہ عزوجل_) 


تقدیر، قضا، قدر اور حکم کسے کہتے ہیں؟

   امام طحاوی نے تقریر کا بیان اس اسلامی عقیدے سے کیا ہے : ”خلق الخلق بعلمه و قدر لھم اقدارا“(متن العقیدة الطحاویة، عقیدہ نمبر ٢٠-٢١، ص١٠، دار ابن حزم) ترجمہ : اس(اللہ) نے مخلوق کو اپنے علم سے پیدا کیا اور اس نے سب کی تقدیر ٹھہرائی؛ 

یعنی__ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم قدیم کی بنا پر جو تمام مخلوق کے متعلق ان کے پیدا ہونے سے بہت پہلے مقرر انداز کر کے حکم لگایا اور لوح محفوظ میں ثبت فرمایا اسی کو تقدیر کہتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں یوں ذکر فرمایا ہے :”اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(القمر،۴۹)“ بے شک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی (ت) - اسی اندازے کا نام تو تقدیر ہے کہ تبھی تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کر کے یوں ذکر کیا جاتا ہے : ”سئل ابو حنیفة رحمه الله عن القدر فقال : قد بین الله تعالی ذالك و قرأ قوله تعالی”اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ“فما بقی فی العام شئی الا و ھو داخل فیه“ (شرح عقیدة اھل السنة و الجماعة (العقیدة الطحاویة) لاکمل الدین محمد بن محمد بابرتی، ص٥٢) کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے تقدیر کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : اللہ نے اسے (مسائل تقدیر کو) بیان فرما دیا ہے اور آپ نے پڑھا اللہ رب العزت کا فرمان ”بے شک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی“ تو کون سی چیز ہے جو اس عموم میں شامل نہیں یعنی اللہ رب العزت نے ہر شئی کی خلقت سے پہلے ہی اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ایک انداز سے پیدا فرمایا ہے اور ساتھ ہی دنیا میں آ کر کیا کریں گے کیا نہیں کریں گے سب کو ثبت فرما دیا اسے ہی تقدیر کہتے ہیں - 

   واضح رہے کہ ______ مسلۂ تقدیر میں قضاء و قدر اور حکم کے الفاظ اکثر ایک ہی معنی میں مستعمل ہوتے ہیں، اگر چہ دوسرے موقعوں پر یہ الفاظ جدا جدا معنوں میں بھی مستعمل ہوتے ہیں۔ چناں چہ شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ”اشعتہ اللمعات شرح مشکوة“ باب الایمان بالقدر میں فرماتے ہیں کہ:

فی القاموس”قدر بتحریک، قضاء و حکم۔ و فی "النہایہ" قدر آنچہ قضاء و نمودہ و حکم کردہ الہٰی تعالیٰ از امور و سکون۔ نیز آمدہ و لیلة القدر شبے کہ تقدیر نمودہ میشورد در وے ارزاق واعمار بندگان۔ و در "صراح" گفتہ:قدر بسکون و حرکت اندازہ کردہ خداے بر بندہ از حکم و ازیں عبارت ظاہر شد کہ قضاء و قدر بیک معنی است ۔ انہتی _(اشعتہ اللمعات شرح مشکوة، کتاب الایمان، باب الایمان بالقدر، ج١، ص٨٦) 

[قاموس میں ہے: قدر قاف و دال کی حرکت کے ساتھ، بمعنی قضاء و حکم۔ نہایہ میں ہے:قدر وہ امور جن کا الله تعالٰی نے فیصلہ اور حکم فرما دیا ہے۔ قدر بسکون دال بھی آیا ہے۔ لیلتہ القدر وہ رات جس میں لوگوں کے رزق اور ان کی عمروں کا اندازہ متعین کیا جاتا اور ان کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ صراح میں ہے: قدر بسکون و فتح دال، بندے پر الله کے حکم کا اندازہ۔ ان عبارت سے ظاہر ہوا کہ قضاء و قدر ایک ہی معنی ہے]

    اس سے ثابت ہوا کہ تقدیر کو قضاء و قدر و حکم بھی کہتے ہیں_

جاری............! 

✒️بنت مفتی عبد المالک مصباحی

31/اگست 2020ء

١١/محرم الحرام ١٤٤٢ھ


قسط اول کا مطالعہ آپ نے کرلیا_

 قسط دوم کے لیے یہاں کلک کریں! 

قسط سوم کے لیے یہاں کلک کریں!

قسط چہارم کے لیے یہاں کلک کریں! 

قسط پنجم کے لیے یہاں کلک کریں! 

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم