جنگ آزادی میں ٹیپو سلطان ودیگر علماء اسلام کا کردار📝مولانا محمد ھاشم رضا مصباحی




  اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز ہندوستان کو تن کے گورے من کے کالے انگریز ظالم کے مظالم اور اس کے ناحق قبضہ و اقتدار سے نجات دلانے کے لیے مسلمانان ہند خصوصا علمائے اہلسنت نے دیگر اقوام ہند کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر جنگ آزادی لڑی اور ملک کے لیے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دیا

جس کی بدولت 15 اگست 1947ء کی صبح کو ہندوستان میں آزادی کا آفتاب طلوع ہوا۔
         
ہندوستان کے سر فروش مجاہدین اسلام اور قائدین جنگ آزادی کی فہرست کافی طویل ہے
 انہیں میں میدان کارزار کے ایک عظیم مرد مجاہد بہادر سپاہی نڈر جرنیل اور نامور ہیرو ہے جن کو دنیا شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان کے نام سے جانتی ہے۔
ٹیپو سلطان کا پورا نام ابو الفتح فتح علی ٹیپو سلطان ہے
1163ھ مطابق 1752ء 20 ذی الحجہ کو دیون ہلی میں پیدائش ہوئی
ٹیپو سلطان بانئ سلطنت میسور حیدر علی کے لائق و فائق فرزند ہیں
پانچ سال کی عمر میں عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی امور جہانبانی فنون سپہ گری اور شہسواری مہارت حاصل کی۔
         ٹیپو سلطان اپنے والد حیدر علی کی طرح ایک دلیر اور بہادر مرد جانباز تھے جو ہندوستان کی آزادی کے لیے تا دم آخر کوشاں رہے
جنگ آزادی کی تاریخ ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی کے کارناموں کو ذکر کیے بغیر ناقص و نا تمام ہے۔
ٹیپو سلطان اپنے باپ حیدر علی کے انتقال کے بعد ۱۷۸۲ء میں سریر آرائے تخت ہوئے اور انگریزوں سے نبرد آزمائ شروع کی۔

ٹیپو سلطان کی انگریزوں سے 1767ء اور 1799ء کے درمیان چار جنگیں ہوئیں
جن میں سلطان نے ہمت و جواں مردی کے ساتھ فرنگی طاقت سے مقابلہ کیا، اور شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ انگریزوں کو ناکوں چنے چبوانے پر مجبور کر دیا۔
ٹیپو سلطان کے اندر وطن کو غیر ملکیوں سے آزاد کرانے کا جذبہ کس قدر موجزن تھا اس کا اندازہ ان کے اس نعرے سے لگایا جا سکتا ہے جو انہیں نے سب سے پہلے بلند کیا کہ "ہندوستان ہندوستانیوں کے لیے ہے"۔
اسی لیے سلطان خود بھی انگریزوں کے مقابلہ میں سینہ سپر رہے اور ہندوستان کے دیگر راجوں مہاراجوں اور امرا کو انگریزوں سے جنگ پر آمادہ کیا

چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ کہ اگر سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہو نے دیا جائے تو پھر ہندوستان پر ہر گز قبضہ نہ ہو سکے گا
اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنوبی ہند کے امرا کو اپنے ساتھ ملا لیا مگر ٹیپو سلطان تا دم آخر اپنے ارادوں پر قائم رہے یہاں تک کہ اس مرد مجاہد نے 4 مئی 1799ء  کو سر نگا پٹم کے معرکہ میں جام شہادت نوش کیا۔
سلطان نے ایک بہادر سپہ سالار کی حیثیت سے نہایت بہادری،استقلال،اولوالعزمی،اور عزم بالجزم کے ساتھ اپنے سینہ میں وطن کی آزادی کی خواہش لیے ہوئے انگریزوں سے معرکہ آرائی کی اور ان کے مقابلہ میں مضبوط چٹان بن کر کھڑے رہے

 اگر سلطان اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جاتے تو ہندوستان کی تاریخ ہی کچھ اور ہوتی

 سلطان کے بعد سلطنت خداداد کا خاتمہ ہوگیا اور انگریزوں کی فرط مسرت سے دل کی کلیاں کھل اٹھیں اور ان کے حوصلہ اس قدر بلند ہوئے
 کہ جب جنرل ہارس کو سلطان کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے ان کی نعش پہ کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے کہ "آج ہندوستان ہمارا ہے"

 افسوس کہ وطن عزیز کے ان جانباز مجاہدین اسلام اور قائدین تحریک حریت کی وطن کے لیے بے لوث خدمات اور قربانیوں کو مذہبی تعصب کی بنا پر فراموش کیا جارہا ہے اور ان کے نام کو تاریخ کے صفحات سے مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

آج اکثریتی فرقہ کے لوگ اپنے ہم مذہب قائدین اور آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا نام تو اچھل اچھل کر لیتے ہیں
مگر انگریزوں سے تادم آخر بر سپر پیکار رہنے والے اس مرد مجاہد (ٹیپو سلطان) کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں

مسٹر گاندھی اور پنڈت جوہر لعل نہرو کی قیادت اور ان کی خدمات کو تو خوب سراہا جات ہے
 لیکن انگریزوں  کے خلاف سب سے پہلے فتوی جہاد جاری کرنے والے عظیم قائد علامہ فضل حق خیرآبادی جن کو جزیرہ انڈمان (کالا پانی) کی سزا دی گئی اور ۳۳ دیگر علمائے اسلام کے تذکرہ نہیں کیا جاتا جن کے فتوے نے وطنیوں کے دل میں آزادی کی روح پھونکی

آج اسلام دشمن عناصر کی طرف سے شریعت اسلامیہ کے فتووں پر تو خوب ہنگامہ کیا جارہا ہے فتویٰ دینے والے علما پر طعن وتشنیع تو خوب کی جاتی ہے
ذرا اس تاریخی فتوی کی اہمیت کو بھی تو یاد کرو ذرا اس کی تاثیر  بھی تو دیکھو
جس کے جاری ہوتے ہی ہندوستان میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگیا تھا انگریزوں کے خلاف جنگ کی ایک عظیم لہر دوڑ گئی تھی

آج بھگت سنگھ کی قربانی پر تو خوب فجر جتایا جاتا ہے مگر اسی ملک کے لئے پھانسی کے پھندے کو چومنے والے ہزاروں علماء کرام کی شہادت کو یاد نہیں  کیا جاتا
تاریخ کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ

 ایک اندازے کے مطابق بائیس لاکھ علما کو پھانسی دی گئی

ایک اندازے مطابق پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی دی گئی

کس کس کی قربانی کی بات لکھیں کس کس کی خدمات کا تذکرہ کس کس کی شہادت کا ذکر

مفتی عنایت احمد کاکوروی جن کو جزیرہ انڈمان بھیجا گیا
مولانا کفایت علی کافی مرادآبادی جنہوں نے تختہ دار پر پہنچنے کے بعد بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھی
مولانا وہاج الدین مرادآبادی
مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی مولانا فیض احمد اویسی مولانا رحمت اللہ کیرانوی مولانا رضا علی خان بریلوی
ودیگر علما ہیں جن کی قربانی کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا
اور بھی ہزاروں علما ہیں جنہوں نے اپنے اہل وعیال کی پرواہ کئے بغیر اپنا مال وجان سب کچھ داو پر لگا دیا پھانسی کے پھندے کو چوما انگریزوں کی طرف سے ناقابل برداشت اذیتوں کو جھیلا اور ملک کو آزاد کراکے ہی چھوڑا

اس کے باوجود آج مسلمانوں کو شک وشبہ کے دائرہ میں رکھ کر تعصب کی آنکھوں کی آنکھوں سے دیکھا جارہا ہے ان کی قربانیوں کو فراموش کر کے ان کو غدار وطن اور دیش دیوہیکل ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے

 ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسکولس اور کالجز کے نصابوں میں تحریک  آزادی ہند کے قائدین اور مجاہدین اسلام  کی حاتم وخدمات اور جنگ آزادی میں ان کے کردار پر مشتمل کتابوں کو شامل کریں
تاکہ ہمارے بچے اور آنے والی نسل اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کریں بہ وقت ضرورت دوسروں کو جواب دے سکیں اور یوم آزادی کے موقع پر قوم کو اسلام کے ان مجاہدین کی قربانیوں سے روشناس کرایا جائے۔
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم