ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی خدمات و تحقیقات / Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali





ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی، خدمات و تحقیقات
تحریر از: مفتی محمد حنیف قریشی

          پچھلے دنوں ایک خطاب کے سلسلے میں لاهور جانا پڑا تو کچھ نون لیگیوں نے مجھےکہا  کہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالى کو بھول جاؤ 
وه الیکشن میں کچھ نهیں کر سکے گا 
اس نے NA124 سے الیکشن لڑنے  کا اعلان تو کر دیا هے مگر هم اسے یہ الیکشن جیتنے نهیں دیں گے
هم اشرف آصف جلالى كو NA 124 میں هرا دیں گے
ان نون لیگیوں کی یہ گفتگو سنی تو دلی رنج هوا اور سوچا کہ ایک تحرير قلمبند کر کے نواز یزید کے چیلوں کو باور کرا دوں کہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالى کا اهلسنت میں کیا مرتبہ و مقام هے 
تو يہ بنده ناچیز محمد حنيف قريشى نواز یزید کے چیلوں کو بتا دینا چاھتا هے کہ
اهلسنت نهیں بھول سکتے اس اشرف آصف جلالی كو 
جو هر سنی کے ماتھے کا جھومر هے
جس نے هر موقع پر آگے بڑھ کر سنیوں کی قیادت کی 
جب نجدیوں نے سنیوں پر شرک کے فتوے داغے تو اسی اشرف آصف جلالى نے 
"میرے لیے الله کافی هے" 
جیسی مایہ ناز کتاب لکھ کر نجدیوں کے منہ بند کراۓ

جب حضور کی نورانیت کا انکار هوا تو اسى اشرف آصف جلالى نے 
"نورانیت مصطفى كا انكار آخر كيوں"
جیسی عظيم ترين کتاب لکھ کر سنیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا 

فقہ حنفى پر اعتراض هوۓ تو ان کا رد بصورت كتاب اشرف آصف جلالى نے کیا 

منافقین جشن عید میلاد النبی پر بھونکے تو اشرف آصف جلالى نے اس پر کتاب لکھ ڈالی 

حاضر و ناظر كا مسئلہ در پیش آیا تو ڈاکٹر اشرف آصف جلالی اس پر میدان میں آگئے اور اس موضوع پر ایک الگ کتاب لکھ دی 

بد مذهبوں نے قران کی غلط تفسير كر کے اهلسنت کو بدعتی اور مشرک ثابت كرنے کی کوشش کی تو ڈاکٹر صاحب نے وقت كى نزاكت كا ادراک کرتے هوۓ حكمت و بصيرت كا ثبوت ديا اور 
"مفھوم قران بدلنے کی واردات" 
کے عنوان سے دو جلدوں پر مشتمل ایک مایہ ناز کتاب تصنيف كر کے بدمذھبوں کے ایک ایک اعتراض کے پرخچے اڑا ڈالے 

درود و سلام کا انکار هوا تو ڈاکٹر صاحب نے اس پر کتاب لکھ ڈالی

الغرض اسلام و سنيت كے لیے ڈاکٹر اشرف آصف جلالى صاحب کی کس کس خدمت کا ذكر كروں سمجھ نهیں آتا 
اور اهلسنت كيسے بھول سکتے هیں وه وقت اور وه گھڑیاں جب لاهور كے شيخ الاسلام صاحب اور کینیڈین بابا طاھر القادری نے اپنے امریکی آقاؤوں کو خوش كرنے کے لیے غازى ملت غازى ممتاز حسين قادرى کو قاتل قرار دے دیا اور سلمان تاثير كو بے قصور ثابت كرنے کی سر توڑ کوشش كرنے لگا 
تو اس وقت کون تھا وه مرد مجاھد جس نے آگے بڑھ کے ثابت کیا کہ ممتاز قادری 
قاتل نهیں عاشق هے
دھشتگرد نهیں هیرو هے
مجھے آج بھی یاد هے وه دن جب کنز العلماء قبلہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالى نے امیر المجاھدین علامہ حافظ خادم حسين رضوى كى موجودگی میں ساڑھےچار گھنٹے پر مشتمل علمی اور تحقيقى ليكچر دے کر طاھر القادری کے ایک ایک اعتراض كا قران و حديث اور فقہ حنفى سے ايسا رد کیا کہ آج تک کسی منھاجی میں همت نہ هوئی کہ اس لیکچر کا جواب دینے کی کوشش بھی کرے 
دور کیوں جائیں ابھی حال هى ميں جب نون لیگ کے چیلے اهل حديث مولوى سينٹر ساجد میر نے پاکستان بھر کے علماء کو مناظرے کا چیلنج دیا اور دعوی کیا کہ قانون ختم نبوت ميں کوئی تبدیلی نهیں هوئی 
تو ڈاکٹر صاحب هی وه واحد شخصيت تھے جو تن تنہا میدان میں آ کھڑے هوئے اور میڈیا کے سامنے سینٹر ساجد میر کو ایکسپوز کر کے رکھ دیا اور یقینا یہ ڈاکٹر صاحب كى شخصيت كا علمى رعب تها كہ سينٹر ساجد میر کو همت نہ هوئی کہ وه اهلسنت کے اس شیر کے سامنے بھی آ سکے
اور اس سب علم وتحقيق كے باوجود ڈاکٹر صاحب عاجزى و انكسارى کے ایسے پیکر هیں کہ جسکی مثال ڈھونڈنا مشکل هے اور اس بات کا اندازه هر وه شخص بخوبى لگا سکتا هے جس نے ڈاکٹر صاحب كى صحبت اختيار كى هو

لیکن اس دن سے میرا دل خون کے آنسو رو رھا هے اور غم و رنج كى جس کیفیت سے میں دوچار هوں وه میں هی جانتا هوں جس دن سے میں نے امیر المجاھدین علامہ خادم حسين رضوى صاحب کے کچھ معتقدین کو فیسبوک پر ڈاکٹر صاحب کے خلاف نازيبا زبان استعمال كرتے هوئے دیکھا 
میں ابھی تک اس بات پر یقین کرنے سے قاصر هوں کہ کوئی سنی ، اعلی حضرت كو ماننے والا ، يا رسول اللہ كہنے والا بھی ڈاکٹر صاحب جیسے محسن اهلسنت كے خلاف ايسى زبان استعمال کر سکتا هے 
لیکن میں کیا کروں حقيقت يہی هے
ممکن هے اس كى بنياد وه اختلاف هو جو ايک عرصے سے ڈاكٹر صاحب اور خادم صاحب کے درمیان چل رها هے 
مگر مسئلہ تو یہ هے کہ همیں کس نے یہ اختيار ديا هے کہ هم کسی ایک عالم کی جانبداری کرتے هوۓ دوسرے عالم دین پر تنقید کریں 
ڈاکٹر صاحب اور رضوى صاحب کے آپس کے اختلافات هیں جو آج نهیں تو کل ختم هو جائیں گے 
ڈاکٹر صاحب بهى اهلسنت کے ایک عظيم عالم و محقق هیں اور رضوى صاحب بهى حافظ قران اور عالم دين هیں وه ایک دوسرے پر تنقيد كر سکتے هیں
لیکن عوام ميں سے کسی سنی کے لیے یہ جائز نهیں کہ وه ان میں سے کسی ایک کی محبت میں دوسرے پر تنقید کرے
اور ڈاکٹر صاحب جيسے عظيم محقق اور عالم پر تنقید کرنا جس نے هر موقع پر سنیوں کا بھرم رکھا هے بالکل سمجھ سے بالاتر هے
مجھ سے میرے چاھنے والے اکثر پوچھتے تھے اور هیں کہ
"قریشی صاحب اهلسنت کے ان دو قائدین میں اتحاد كيسے ممکن هے"
آج لگے ہاتھوں یہ بھی بیان کیے دیتا هوں کہ ڈاکٹر صاحب اور رضوى صاحب کے درمیان اتحاد كى كيا صورت هے جو  طور پر ممکن بھی هو
بنده ناچیز بہت غوروفکر کے بعد اس نتیجے پہنچا هے 
ڈاکٹر صاحب كے بغير رضوى صاحب كے لیے کامیابی نا ممکن هے 
اور رضوى صاحب کے بغير ڈاکٹر صاحب كچھ نهیں کر سکتے
جذبہ عشق رسول اور تحفظ ناموس رسالت كا شعور بيدار كرنے میں ڈاکٹر صاحب اور رضوى صاحب  کا اپنا اپنا منفرد کردار هے 
مثلا اگر رضوی صاحب كو ديكها جائے تو کون نهیں جانتا کہ آپکی تقارير نے اهلسنت کے نوجوانوں میں عشق رسول کی جو شمع روشن کی هے وه اپنی مثال آپ هے رضوى صاحب جس طرح علامہ اقبال كى شاعرى كے زریعے نوجوانوں کا خون گرماتے هیں اس کا اثر صرف پاکستان تک محدود نهیں بلکہ دوسرے ممالک میں نوجوان آپکے گرویده هیں
اور شاید تقریر کا جو ملکہ رضوى صاحب كو حاصل هے وه ڈاکٹر صاحب کو نهیں
اور اس بات کا ادراک ڈاکٹر صاحب كو بھی هے
لیکن یاد رکھیے کامیابی کے لیے بیان اور تقرير کے ساتھ ساتھ تحقيق اور تفكير كى بهى ضرورت هے 
جوش خطابت كے ساتھ حكمت و بصيرت بهى دركار هے 
اور اهلسنت کی خوش قسمتى كہ جہاں الله نے تقرير و خطابت میں همیں رضوى صاحب جیسے مرد مجاھد عطا فرماۓ وهاں تحقيق وتفكير كے لیے فقہ اور دنیاوی علوم سے مالا مال ڈاکٹر اشرف آصف جلالى جیسے صاحب فهم وفراست بهى عطا فرمائے 
اور مجهے یاد هے رضوى صاحب كا وه جمله جو آپ نے ڈاکٹر صاحب كى تعريف میں کہا تھا جب ڈاکٹر صاحب نے غازى صاحب کے معاملے میں طاھر القادری کے دلائل کا رد کیا تھا تو رضوى صاحب نے ایک ریلی میں فرمایا تھا 
کہ 
"هم نے تو صرف صرف كے صيغے بتائے اصل تحقيق تو ڈاکٹر صاحب نے کی هے"
اور جس طرح تقریر کا جو فن رضوى صاحب كو حاصل هے وه ڈاکٹر صاحب کو نهیں اسى طرح تحقيق و علم اور فقہ سے جو شناسائی اور سیاسی حكمت و بصيرت ڈاکٹر صاحب كو حاصل هے وه رضوى صاحب كو نهیں 
لیکن انتھائی ادب و احترام سے گزارش هے کہ یہ حكمت وبصيرت تو تب مل سكتى هے جب اس حكمت والے سے فائده اٹھایا جائے ورنہ تو وهی حال هو گا جو فیض آباد کے دھرنے میں هوا
وه اس طرح كہ اگر غور و خوض كیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا 
رضوى صاحب نے جوش خطابت اور اپنی تقاریر کے زریعے فیض آباد دھرنے کو کامیابی کے قریب پہنچا کر اپنا کردار ادا کر دیا تھا حتى كہ حكومت معائده كرنے پر مجبور هو گئی 
اب اگلا کام يعنى معائده وغيره كرنا ڈاکٹر صاحب كا تها كيونکہ اس میں حكمت وبصيرت كى ضرورت تهى تاكہ سياسى داؤ پيچ سمجھے جائیں مگر ڈاکٹر صاحب سے مشوره نہ کرنے کے سبب وه هی هوا جسکا خدشہ تها
اور انتهائى ادب سے عرض هے کہ رضوى صاحب سے معائدے کی پہلی شق میں هی غلطى هو گئی
اب ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب كا موقف يہ هے کہ معائدے کی پہلی شق میں درج هے کہ
"تحريک لبیک زاھد حامد كے خلاف كسى قسم كا فتوى جاری نهیں کرے گی"
یہ سرا سر غلط هے کیونکہ اس کا بے قصور هونا ثابت هی نهیں هوا تو فیض آباد دهرنے کی قیادت نے کیسے یہ وعده کر دیا کہ وه اسکے خلاف كسى قسم كا فتوى جارى نهیں کرینگے
فقیر بحيثيت مفتى فقہ كا جو ناقص علم ركهتا هے اسکے مطابق یہی سمجھا هے کہ ڈاکٹر صاحب كا موقف بلا شبہ 100 فیصد درست هے
اور هر صاحب علم اس بات كو بخوبى سمجھ سکتا هے
لیکن اس معاملے میں میری رائے اس لحاظ سے متوسط رائے هے کہ ڈاکٹر صاحب كو سو فیصد صحيح اور رضوى صاحب كو اس معاملے میں غلطی پر سمجهنے کے باوجود مجھے رضوى صاحب کے اخلاص پر رتی برابر شک نهیں هے بلکہ میرا یہی یقین کہ رضوى صاحب سے اگرچہ یہ غلطى هوئى مگر جان بوجھ کر نهیں بلکہ سھوا هوئی.
مگر بلآخر نتيجہ تو يہی نکلے گا کہ اس واضح غلطى كا سبب ڈاکٹر صاحب کو اعتماد میں نہ لینا تھا 
اگر اس وقت رضوى صاحب ڈاکٹر صاحب كو اپنے ساتھ ملا لیتے یا ڈاکٹر صاحب كو سن ليتے تو اس غلطى سے بچا جا سکتا تھا
خلاصہ كلام يہ رضوى صاحب كو اس بات كا ادراک کر لینا چائیے کہ انهیں هر موڑ پر کامیابی کے لیے ڈاکٹر اشرف آصف جلالى كى ضرورت هو گی
اور جب وه پہلے کی طرح ڈاکٹر صاحب كو اپنے ساتھ ملا ليں گے تو هی اتحاد اهلسنت كا گلشن مهک سکے گا
ميں یہ نهیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب كو رضوى صاحب کی ضرورت نهيں 
بلکہ ميرا موقف يہ هے کہ کامیابی کے لیے رضوى صاحب اور ڈاکٹر صاحب دونوں ایک دوسرے کے محتاج هيں

*اتحاد اهلسنت کی عملی صورت*

آج هر سنی اتحاد كا خوأئش مند هے مگر شاید ابھی تک کسی عالم و مفتی نے کوئی ایسی صورت تجویز نهیں کی جس کے زریعے عملا اتحاد كو ممكن بنايا جا سکے
اس ضرورت كو پیش نظر رکھتے هوئے فقیر تین گذارشات کرنا چاھتا هے اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو پریکٹیکلی یعنی عملی طور اهلسنت كى ان دو شخصيات کے درمیان اتحادويگانگت کی راه هموار کی جا سکتی هے اور اهلسنت کے اس شیرازے کو بکھرنے سے بچایا جا سکتا هے

*پہلی گذارش* جناب خادم حسين رضوى صاحب كی خدمت ميں هے
عرض يہ هے کہ یہ بنده ناچیز محمد حنيف قريشى رضوى صاحب كو قیادت کے لیے ڈاکٹر صاحب سے زیاده موزوں و مناسب سمجھتا هے اور اس بات کا خواہاں هے کہ اهلسنت کی بھاگ دوڑ رضوى صاحب كے ھاتھ میں هى رهے اور ڈاکٹر صاحب رضوى صاحب کے نیچے کام کریں لیکن رضوى صاحب كو چائیے کہ هر صورت میں ڈاکٹر صاحب كو منائیں اور انهیں اپنی تحريک میں اپنے بعد سب سے بڑا عھده سونپ دیں اور ھر حال ميں اور هر معاملے میں ڈاکٹر صاحب كے مشورے سے هی چلیں کیونکہ بنده ناچیز کے مطابق ڈاکٹر صاحب كے مشوروں کے بغير رضوى صاحب کبھی کامیابی سے همکنار نهیں هو سکتے 
یاد رهے کہ ڈاکٹر صاحب پہلے هی اس بات کا اعلان کر چکے هیں کہ وه اتحاد اهلسنت کے لیے بوقت ضرورت تحريک لبیک یا رسول الله کی چیئر مین شپ سے مستعفی هو جائیں گے
تو چونکہ میں نے هی یہ عرض كى هے کہ میں مرکزی قیادت کے لیے خادم رضوى كو  زیاده مناسب گردانتا هوں تو اب میری خادم رضوى صاحب سے درخواست هے کہ 
"رضوى صاحب! چونکہ ڈاکٹر صاحب نے تحريک لبیک یا رسول الله کی چیئر مین شپ سے استعفی کے لیے اپنی رضامندى ظاهر کر کے اپنے بڑے پن کا ثبوت دے دیا هے تو اب آپ بھی اپنے بڑے پن کا ثبوت دیجیے اور ڈاکٹر صاحب كے پاس خود جائیے اور انهیں کسی بھی صورت منا كر اپنے ساتھ شامل کر لیں یقین جانیے وه بلا چوں و چراں مان جائیں گے میں ڈاکٹر صاحب كو ذاتى طور پر جانتا هوں اور آپ انهیں مجھے سے بھی زیاده جانتے هوں گے"

*دوسرى گذارش* جناب ڈاکٹر اشرف آصف جلالى صاحب سے هے 
"ڈاکٹر صاحب آپ پہلے هی اپنے عھدے سے استعفی دینے کی رضامندى ظاهر كرچکے هیں لهذا جب رضوى صاحب اتحاد اهلسنت كے لیے آپ کے پاس تشریف لائیں تو تمام رنجشیں بھلا کر پہلے کی طرح شير و شکر هو جائیں
*تیسری ، آخرى اور اهم ترين گذارش*عوام اهلسنت سے هے
وه یہ کہ سورج مشرق کے بجاۓ مغرب سےطلوع هو جائے مگر عوام اهلسنت ان دونوں میں سے کسی عالم پر ھرگز ھرگز ھرگز تنقید نہ کریں اور بالفرض اگر ڈاکٹر صاحب رضوى صاحب كى کسی غلطى کی نشاندهی کریں یا تقریر و تحرير ميں رضوى صاحب سے کسی اختلاف كا ذكر کریں الغرض كچھ بھی کہہ لیں عوام اهلسنت هر حال ميں ڈاکٹر صاحب كا ادب و احترام ملحوظ رکھیں کیونکہ وه عالم هیں مفتی هیں محقق هیں انکی سمجھ بوجھ حكمت و بصيرت هم سے ھزاروں گنا زیاده هے
عوام اهلسنت کو چائیے کہ وه هر وقت ياد رکھیں کہ ڈاکٹر صاحب نے سنيت اور مسلک کے لیے جو گراں قدر خدمات سرانجام ديں هیں ان کا کوئی نعم البدل نهیں 
یاد رکھیے اگر آپ رضوى صاحب کی محبت ميں ڈاکٹر صاحب پرتنقید کریں گے تو خوشى صرف اور صرف مسلک مخالف دشمنوں یعنی بدمذهبوں کو هو گی اور نقصان صرف اور صرف مسلک اهلسنت کا هو گا
اور شیطان یقینا اپنے ساتھیوں کو کہے گا کہ 
"دیکھا میں نے سنیوں کو انہی کے ایک مخلص عالم سے ایسا متنفر کر دیا کہ آج وه اس عظيم عالم کے خلاف زبان درازى کر رھے هیں جس نے هر موقع پر انکا ساتھ دیا" 
اور یاد رکھیے کچھ بعید نهیں کہ علماءاهلسنت کے اختلافات ديکھ کر مسلک مخالف بدمذهب رضوى صاحب کا نام استعمال کر کے ڈاكٹر صاحب پر تنقید کریں 
تو اسکا حل صرف اور صرف ايک هی هے کہ جو بھی رضوى صاحب کا نام لے کر ڈاکٹر صاحب پر تنقید کرے آپ اس سے قطع تعلق كريں اور اسے فورا اپنے گروپس سے ریموو کر دیں کیونکہ عین ممکن هے کہ ڈاکٹر صاحب پر تنقید کرنے والا یہ آستین کا سانپ کوئی بدمذهب هو اور رضوى صاحب کی بظاهر حمايت کرتے هوۓ ڈاکٹر صاحب پر تنقید کر کے سنیوں میں پھوٹ ڈالنا چاھتا هو
لهذا اعلى حضرت كا فرمان هميشہ پیش نظر رکھیے کہ
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی هے
سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی هے
بزرگ فرماتے هیں کہ 
بڑوں کے اختلافات ميں چھوٹے نهیں بولتے
تو عوام اهلسنت بھی چھوٹے هونے کی حيثيت سے ھر صورت ان دونوں بڑے علماء كى تكرىم و توقير يقينى بنائیں

اگر میری ان تین گذارشات پر عمل کر لیا گیا تو مجھے رب کی رحمت سے قوی امید هے کہ اهلسنت کی ان دو عظيم شخصيات ميں جلد اتحاد هو جائے گا_
(ان شاء الله)

نوٹ: مفتی صاحب نے اپنے تمام متعلقین و متوسلین اور چاهنے والوں کو تلقین کی هے کہ وه اتحاد اهلسنت کے لیے اس تحرير كو هر سنی تک پہنچائیں تاکہ اهلسنت کی ان دو شخصيات کے درمیان تیزی سے بڑھتی هوئی دوریاں کم هو سکیں
منجانب: ایڈمن آفیشیل پیج مفتی محمد حنيف قريشى (مدظله العالى)
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم