تفسیر ‏نعیمی ‏کے ‏متعلق ‏ایک ‏الجھن ‏کا ‏حل

”تفسیر نعیمی“ کے متعلق ایک الجھن کاحل
      (تحقیقی مقالہ)

 تحقیق و تحریر: محمد آصف اقبال
 
کتابیں لکھنا اس امت کی خصوصیت میں شمار کیا گیا ہے (مقدمہ الحدیقۃ الندیہ) کتابیں لکھی جارہی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی ،بعض کتب ایسی بھی لکھی گئیں جنہیں مصنفین مکمل نہ کرپائے تو بعد میں کسی اور نے ان کی تکمیل کی یا کچھ اضافہ کیا،اس حوالے سے جو کتب شہرت رکھتی ہیں ان میں تفسیر کبیر، تفسیرجلالین ،بہار شریعت ،تفسیر اشرفی،تفسیر نعیمی وغیرہ شامل ہیں ۔ایسی کتب میں بعض کاتو علم ہے کہ مصنف کی تحریر کہاں تک ہے اور بعد والے نے کہاں سےآغاز کیا مگر بعض کتب کے بارے میں یہ وضاحت وصراحت نہیں ملتی اوریہ الجھن رہتی ہے کہ اصل مصنف کی تحریرکہاں تک ہے ؟ اشرف التفاسیر المعروف”تفسیر نعیمی“ کے متعلق بھی کچھ ایسی ہی الجھن سننے میں آتی رہتی تھی کہ محسن اہلسنّت ،مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ تفسیر قرآن کریم کی کس آیت طیبہ تک فرمائی ہے؟ اور آپ نے تفسیر کی کتنی جلدیں لکھی ہیں؟ اس لحاظ سے جب تفسیر نعیمی اور حضرت مصنف کی سوانح پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کیا تو تلاش وجستجو اور غوروفکر کا جو نتیجہ سامنے آیا اس کا ماحاصل پیش خدمت ہے:
حکیم الامت حضورمفتی احمد یارخان نعیمی بدایونی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سورۂ یونس کی آیت نمبر: 68 / تک تفسیر فرمائی ہے جو گیارہویں جلد کے صفحہ ۴۱۴ (مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)پر مکمل ہوتی ہے_ جس سے واضح ہوتاہے کہ دسویں جلد مکمل اور گیارہویں جلد تقریبا تین تہائی تک حکیم الامت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ہے اور اس سے آگے کی تفسیر حضرت کے خلف الرشید صاحبزادہ مفتی اقتدار احمد خان نعیمی صاحب نے فرمائی ہے۔ شواہد حسب ذیل ہیں:
دسویں جلد کے آخر میں یہ کلماتِ تشکر درج ہیں:”اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تفسیر نعیمی کی دسویں جلد پارہ ”واعلموآ“ آٹھ جمادی اولیٰ ۱۳۹۰ھ ۱۳جولائی ۱۹۷۰ کو دوشنبہ کو شروع ہوئی اور آج ۲۰ محرم الحرام ۱۳۹۱ھ ۱۸مارچ ۱۹۷۱ پنج شنبہ کے دن سوا دس بجے دوپہر نومہینے بارہ دن میں بخیروخوبی ختم ہوئی۔“ (تفسیر نعیمی ،ج۱۰،ص۵۶۱)
سورۂ توبہ کی تفسیر کے اختتام پر مرقوم ہے:”الحمد للہ کہ آج بتاریخ ۵ربیع الاول۱۳۹۱ ھ۳۱ مئی ۱۹۷۱ءبروز دوشنبہ چار بجے شام سورہ توبہ کی تفسیر مکمل ہوئی۔مجھے امید نہ تھی کہ میں تہائی قرآن مجید کی تفسیر لکھ لوں گا۔یہ میرے رب کا کرم ،اس کے محبوب کی نظر ہے کہ مجھ ناچیز سے تہائی قرآن پاک کی تفسیر مکمل کرادی۔دعا ہے کہ رب تعالیٰ باقی دو تہائی کی تفسیر بھی مکمل کرادے۔“(تفسیر نعیمی ،ج۱۱،ص۱۶۰)
شکرِنعمت کی ادائیگی پرمشتمل ان دونوں پیرا گرافس کا بین السطور واضح کررہا ہے کہ دسویں جلد مکمل اور گیارہویں ”سورۂ توبہ“ تک کی تفسیر حضورحکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ہے اور اس سے آگے ”سورۂ یونس “کی تفسیر مفتی صاحب نے کہاں تک فرمائی ہے؟اِس کے لئے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سوانح نگارمولانا نذیر احمد نعیمی صاحب ”سوانح عمری“ میں حافظ سید علی صاحب کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ ایک بار مفتی احمد یارخان نعیمی صاحب علیہ الرحمہ نے اُن سے فرمایا:حافظ صاحب تم کو ایک بات بتاؤں کسی سے کہنا نہیں۔میں نے عرض کیا: حضور ارشاد فرمائیں۔فرمانے لگے :میری تقدیری عمر کل گذشتہ ختم ہوچکی ہے ،آج سے دس دن پہلے میں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:یارسول اللہ! مجھے اتنی مہلت اور عطا فرمائیے کہ” اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ (یونس:۶۲) “والی آیت کی تفسیر لکھ لوں۔“ میری یہ التجا منظور ہوگئی اور تین ماہ مزید زندگی سرورِ کائنات نے رب تعالیٰ سے دلوادی، ہماری اب یہ زندگی عطیۂ سرکار ہے ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔“
(سوانح عمری مع حالاتِ زندگی مفتی احمد یارخان ،ص۳۵)
ایک دوسرے سوانح نگارقاضی عبدالنبی کوکب صاحب ”حیاتِ سالک“ میں فرماتے ہیں:”تفسیر نعیمی کی سات جلدیں(پہلے سات پاروں پرمشتمل) طبع ہوچکی ہیں ،آٹھویں پریس میں ہے نویں اور دسویں کا مسودہ مکمل ہوچکا ہے اور گیارہویں کی تالیف جاری تھی۔اس میں آیت: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ(یونس:۶۲) کی تفسیر مکمل لکھ چکے تھے کہ حضرت مولف کا انتقال ہوگیا۔(حیاتِ سالک مع حالاتِ زندگی ،ص۹۳)
قاضی صاحب کی رائے سے ذرا سا اختلاف کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ سورۂ یونس کی مذکورہ آیت 62 سے آگے مزیدچھ آیات کی تفسیر بھی حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی علیہ الرحمہ نے ہی فرمائی ہے۔اس کی دلیل تفسیر کا اسلوب ہے کیونکہ سورۂ یونس کی آیت 69 سے تفسیر کا اسلوب کئی اعتبار سے بدل گیا ہے جوکہ حضرت صاحبزادہ اقتداراحمد خان صاحب کا ہے جبکہ اس سے پہلے کی چھ آیات کا اسلوب وہی ہے جو حکیم الامت علیہ الرحمہ کی ماقبل تفسیر کا ہے ۔ اسلوب کی تبدیلی اوراس کے چند فرق درج ذیل ہیں :
(1) مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے مختصر نحوی تفسیر کے ساتھ ساتھ عالمانہ تفسیرفرمائی ہے جس کا عنوان صرف ”تفسیر “ ہوتا ہے جبکہ صاحبزادہ صاحب ابتدامیں مستقل ”نحوی تفسیر “ کے عنوان سے تفسیر کرتے ہیں جس میں لغوی ترجمہ اور اصطلاحی وشرعی ترجمہ علیحدہ علیحدہ ذکر کرتے ہیں پھر” عالمانہ تفسیر “ کے عنوان سے کچھ نہ کچھ نحوی تفسیر کے ساتھ آیت کے معانی ومفاہیم بیان کرتے ہیں۔
(2) مفتی صاحب علیہ الرحمہ” اعتراضات “ذکر کرتے وقت کوئی تمہیدی جملہ نہیں لکھتے بلکہ ”پہلا اعتراض‘‘ لکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں جبکہ صاحبزادہ صاحب اولا تمہیدی جملہ لکھتے ہیں پھر ”پہلا اعتراض “سے اعتراضات کا آغاز کرتے ہیں مثلاً”اس آیت پر چند اعتراضات پڑسکتے ہیں۔پہلااعتراض“(تفسیر نعیمی،ج۱۱،ص۴۱۸)”اس آیت پر مخالفین کی طرف سے چند اعتراض وارد ہوتے ہیں۔پہلااعتراض“(ایضا،ص۴۲۵)”اس پر چند طرح اعتراض کئے جاسکتے ہیں۔پہلا اعتراض“(ایضا،ص۴۳۱)وعلی ہذاالقیاس۔
(3) مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی عادت ہے کہ وہ ”تفسیر“ کرتے ہوئے اکثر”کتب تفسیر“ کے حوالہ جات بھی ذکر کردیتے ہیں جبکہ صاحبزادہ صاحب حوالہ جات بہت کم اور کہیں کہیں ذکرکرتے ہیں۔
اسلوب کی تبدیلی اور یہ تینوں فرق سورۂ یونس کی آیت 68 سے ماقبل اور مابعد دیکھے جاسکتے ہیں۔پھر یہ کہ ہماری بات کی تصدیق خود قاضی عبدالنبی کوکب صاحب کے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے۔چنانچہ، انہوں نے مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی تصانیف کا تعارف کرواتے ہوئے تفسیر نعیمی کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے: ”اشرف التفاسیرتاریخی نام ہے جس سے ۱۳۶۳ھ کا سال برآمد ہوتا ہے ۔حضرت صاحب اس تفسیر کو گیارہویں پارے کے آخری ربع تک مکمل کرچکے تھے۔“ (حیاتِ سالک مع حالاتِ زندگی،ص۱۰۱)اور گیارہویں پارے کا ”آخری ربع“سورۂ یونس کی آیت70 پر ہوتا ہےجو بنسبت آیت نمبر62 کے آیت نمبر68 سے زیادہ قریب ہے۔
نیزحکیم الامت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی حیات وخدمات پر میسور(ہند)سے پی ،ایچ ،ڈی کرنے والے جناب شیخ بلال احمد صدیقی صاحب نے گیارہویں پارے کی مکمل تفسیر صفحات۵۶۸کو حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ ہی کی طرف منسوب کیا ہے اور اس پر حاشیہ میں لکھا:”اِس سے آگے پارہ 19اور 20 تک کی تصنیف اقتدار احمد خان کو سعادت حاصل ہوئی۔“(حالاتِ زندگی حکیم الامت مفتی احمد یارخان ،ص۹۳)
شیخ صاحب نےغالباً مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی تین تہائی تفسیرکو دیکھتے ہوئے پورے پارے کی تفسیر آپ کی طرف منسوب کردی ہے مگر درست بات وہی ہے جو ہم نے شواہد کی روشنی میں پیش کردی ہے ۔ واللہ اَعْلَم بِالصَّوَاب
نوٹ: یہ تحریرخیر خواہی اُمت کے جذبہ کے تحت لکھی گئی ہے تاکہ کوئی اور ایسی کسی الجھن سے دوچار نہ ہو ۔اہل علم واصحاب نظر سے التجا ہے کہ اگر کوئی غلطی پائیں تو مطلع فرماکرعنداللہ ماجور ہوں_
مقالہ نگار:محمد آصف اقبال (کراچی،پاکستان)
۱۷صفرالمظفر١٤٣٦ھ



جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم