کھا گئے ہم بھی دھوکہ کچھ
سمجھے کچھ تھے، نکلا کچھ
لوگوں کا مت پُوچھو حال
محفل میں کچھ، تنہا کچھ
یہ بھی کیا دستور ہوا
کہنا کچھ تو کرنا کچھ
گردشِ وقت نے پیس دیا
ہم بھی تھے ورنہ کیا کیا کچھ
آپ ہی آپ نظر آئے
اور نہ ہم نے دیکھا کچھ
وہ تُو مَیں نے صبر کیا
مُجھ پہ ہوا ہے تھوڑا کچھ؟
وقت کے سُلطاں! ہاتھ بڑھا
در سے فقیر کے لے جا کچھ
ورنہ کل پچھتائے گا
دُنیا ہی میں کر جا کچھ
گزری خیر، تم آ نکلے
ورنہ مجھے ہو جاتا کچھ
اُس کا درد وہی جانے
جو لگتا ہو جس کا کچھ
وہ بھی وہ ہیں مَیں بھی مَیں
ہو گا آج تماشا کچھ
اور سنو گے مجھ سے کیا
کہہ تو دیا ہے اتنا کچھ
یہ تو وقت بتائے گا
ہم میں کون ہے کتنا کچھ
کر لیے لاکھ جتن سب نے
پھر بھی نہ میرا بگڑا کچھ
سب کچھ اوپر والے کا
میرا اور نہ تیرا کچھ
قاصد! بات ہو دو لفظی
وہ نہ سمجھ لیں کچھ کا کچھ
علم وبالِ جاں نکلا
کاش نہ آتا جاتا کچھ
میں اُن کا وہ میرے ہیں
مُجھ کو نہیں اب پروا کچھ
مَیں کیا جانوں واعظ کو
میرا نہیں وہ لگتا کچھ
اُن کا نصؔیرؒ ہوں دیوانہ
کہتی پھرے اب دُنیا کچھ
سید نصیر الدین نصیر
Tags
کلیات، غزلیات