کچھ اس طرح سے پھیلی ہے لعنت جہیز کی
لوگوں کو ڈس رہی ہے مصیبت جہیز کی
اسراف شادیوں کا مقدر ہی بن گئے
یوں بھی ستا رہی ہے ضرورت جہیز کی
لوگوں نے لڑکیوں کو بھی زندہ جلا دیا
یوں ٹوٹی ہے ان پر قیامت جہیز کی
آتی ہیں اخبارات میں خبریں یہ روز روز
کہ زہر خود کشی ہے کرامت جہیز کی
کھا کھا کے زہر مر گئیں مفلس کی لڑکیاں
دیکھی ہے ہم نے یہ بھی عنایت جہیز کی
حرص و طمع کا پیٹ تو بھرتا نہیں کبھی
ہوتی ہے بعد شادی شکایت جہیز کی
بیٹھی ہیں بن بیاہی غریبوں کی لڑکیاں
پل پل انھیں ستاتی ہے چاہت جہیز کی
یہ معاشرے گھن کی طرح چاٹ رہی ہے
ہر خاص و عام میں ہے جو عادت جہیز کی
شادی کا یہ اسراف برائی کا سبب ہے
آؤ سناؤں تم کو حکایت جہیز کی
پھیلی ہے یہ وبا تو ہر اک خاص و عام میں
رہتی ہے اہل زر کو بھی چاہت جہیز کی
ناصر برائی پھیلے گی دنیا میں ہر طرف
جب تک کرے گی راج قیادت جہیز کی
Tags
شعر و شاعری