ایک درد مند مکتوب Ek Dardmand Maktoob


علامہ ارشد القادری نے اپنی جماعت کا جو تجزیہ اپنے ایک مکتوب میں پیش کیا تھا اس کی معنویت آج بھی برقرار ہے.رئیس القلم علامہ ارشد القادری نے یکم اپریل 1989ء میں ڈاکٹر محمد سرور طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے مکتوب کے جواب میں لکھا ہے-

*" آج کی ڈاک سے آپ کا کرم نامہ ملا- کسی کے نالہ درد سے درد مند ہی متاثر ہوتا ہے،پتهروں سے رقت قلب کی کیا توقع ہے -ملک کے طول و عرض میں اہل سنت کے کروڑوں افراد ہیں لیکن میرے گریہ غم پر آپ کے سوا کسی کی آنکھ نم نہ ہوئی.......آپ اہل سنت کی اس روایت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہاں قیادت کا منصب خاندان و نسب کے محور پر گردش کرتا ہے-بریلی، مارہرہ اور کچهوچهہ مقدسہ کے اصحاب اگر چاہیں تو اہل سنت کا جمود بھی ٹوٹ سکتا ہے اور زندگی کی نئی نئی راہیں بھی کھل سکتی ہیں-میں اپنی آہ پر سوز، فغان آتش نوا اور نالہ شب گیر سے پہاڑوں کے جگر میں سوراخ کر سکتا ہوں لیکن مریدین، متوسلین اور معتقدین پر میری میری صدائے کرب کا کیا اثر ہوگا....؟
اس لیے اہل سنت کے مذہبی مستقبل کی کوئی فکر اگر آپ کو بے چین کرتی ہو تو میرے زخموں پر نمک چھڑکنے کی بجائے اپنے مراکز کے آسودہ حال مسند نشینوں کی رگوں پر نشتر چلاییے،وہ جاگ اٹھے تو قبرستان کے مردے بھی جاگ اٹھیں گے،لوگ انہیں کی زبان سمجھتے ہیں،عقیدت مندوں کی دنیا میں میری اجنبی زبان کون سمجھے گا؟میرے بس میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ اہل سنت کے مذہبی مستقبل کی تعمیر کے لیے میں اپنے خون جگر کا آخری قطرہ نچوڑ دوں.......آپ کے جذبہ اخلاص کی درازئ عمر کے لیے دعا کرتے ہوئے اس  شعر پر اپنا یہ مکتوب ختم کرتا ہوں-
یہ ہوگا ایک مشت خاک بڑھ جائے گی صحرا میں 
و گر نہ ایک دیوانے کے مٹ جانے سے کیا ہوگا-*

آپ کا مخلص دعا گو:
*ارشد القادری*
یکم اپریل، 1989ء، مدرسہ فیض العلوم جمشید پور بہار
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم