میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں،خبردار! تم مجھے ہاتھ مت لگانا




وہ ایک عجیب سی رات تھی
مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں کیا نہ کروں
شادی کی پہلی رات تھی اور دلہن بنی بیٹھی میری بیوی نے کہا کہ خبردار مجھے ہاتھ مت لگانا میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں۔ یہ زبردستی کی شادی ہوئی ہے۔ اور یاد رکھو تم کچھ بھی کر لو میری محبت نہ حاصل کر پاؤگے۔ نہ میں تمہیں چاہونگی۔اس کی انکھوں میں آنسو تھے۔
میں حیران و پریشان پاگلوں کی طرح اسے دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اٹھا اور وضو کیا اور نماز کے لئے چلا گیا۔اور اپنے اللہ سے ذکر کیا کہ یا ربا یہ کیسا امتحاں ہے ؟
مجھے ڈر تھا بہت زیادہ ڈر۔ معاشرے کا ڈر خاندان والوں کا ڈر ۔ میں ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں اور ایسی اونچ نیچ پر ہمارے ہاں عزت کا جلوس نکل جاتا۔ مختلف سوچیں آ جا رہی تھیں۔کہ اگر یہ صبح گھر گئی اور واپس نہ آئی  تو میری عزت کا کیا ہو گیا۔ کیا پتہ یہ اپنے گھر میں یہ ہی نہ کہہ دے کہ یہ نامرد ہے اس سے شادی ختم کرواؤ_
اک بار تو سوچا کہ زبردستی کرتا ہوں۔گناہ نہیں میرے نکاح میں ہے مگر میرا دل نہیں مانا۔ میں نے اس سے بات کرنا چاہی مگر مجھے گوارہ نہ ہو کہ میں اس عورت کی منت کروں جس نے مجھے یوں ٹھکرا دیا۔
اللہ تعالی سے شکوے شکائتیں کرتا کرتا سو گیا۔۔
اگر اسے کسی اور سے محبت تھی تو نکاح کے لئے ہاں ہی نہ کرتی یا مجھے ہی بتا دیتی میں اس سے خود رشتہ ختم کر دیتا بات شادی تک بڑھتی ہی نا۔میری زندگی برباد تو نہ ہوتی۔میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا آدمی شادی پر ساری جمع پونجی لگا چکا تھا۔
خیر
صبح وہ اپنے گھر چلی گئی کوئی بات نہیں ہوئی۔ تین دن تک کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔ تین دن بعد اس کی امی کی کال ائی کہ بیٹا تم آئے نہیں اپنی دلہن کو لینے تو میں لینے چلا گیا۔میں نے وہاں بھی کوئی بات نہیں کی۔
ہم واپس گھر آگئے۔ میری بیوی میرے سامنے تو نہیں البتہ باہر جا کر یا گھر کی چھت پر جا کر ہر رات کو فون پر کسی سے باتیں کرتی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا تک نہیں کہ وہ کس سے باتیں کرتی کون ہے وہ۔ بس اک بار پوچھا تھا کہ اسے طلاق چاہیے ؟ اس نے کہا نہیں۔
اس کا فون پر جو عشق تھا اس کا مجھے کوئی مطلب نہیں تھا۔ پانچ ماہ ایسے ہی گزر گئے۔ میں کام سے تھکا ہارا رات میں گھر آتا کھانا باہر سے کھا آتا۔ اور جب بھی گھر آتا وہ فون پر ہی باتیں کر رہی ہوتی۔
اک دن اس نے پوچھا اک بات پوچھوں میں نے کہا پوچھ لو۔اس نے کہا کیا آپ کو مجھے دیکھ کر طلب نہیں ہوتی ؟میں نے کہا شادی سے پہلے بھی تو کنٹرول ہی تھا تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ اب بھی نہیں ہو سکے گا ؟ مگر اس رات بات کچھ اور تھی۔ میں سویا ہوا تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔
فون میرے دوست کا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تمہاری بیوی کسی اور مرد کے ساتھ فلانے ہوٹل پر بیٹھی ہے۔مجھے پہلے تو یقین نہ آیا لیکن جب اپنی بیوی کو گھر نہ پایا تو بے حد غصہ آیا اتنا کہ مجھے اپنا دماغ پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے اس کی عزت رکھی کسی کو کچھ نہ بتایا پر اس نے میری عزت نہ رکھی۔
میں ہوٹل کی طرف چل دیا۔ خود کو پرسکون رکھا ۔ وہاں اس کو کسی غیر مرد کے ساتھ بیٹھا دیکھا تو آواز دی اور کہا کہ چلو گھر چلو۔ وہ چپ چاپ گھر آگئی ۔ گھر لا کر اسے میں نے انتہائی زور دار تھپڑ مارا کہ میری انگلیاں اس کے منہ پر چھپ سی گئی۔اور اس کو بولا اب تم اپنے گھر دفع ہوجاؤ آج سے میری طرف سے آزاد ہو جب تمہیں طلاق چاہیے ہو تو کہہ دینا۔مگر میرے ساتھ میرے گھر میں تم ہرگز نہیں رہ سکتی۔
وہ عورت یعنی میری بیوی آج بھی اپنے میکے گھر میں ہے۔ طلاق نہیں مانگی اس نے ۔
اور ہاں
جس کے عشق میں وہ پاگل تھی اس نے اس کو اپنایا ہی نہیں اور اپنا مطلب نکال کر بھاگ گیا۔اک دن روتے ہوئے اسکی کال آئی تھی کہ مجھے اپنے نام سے محروم نہ کرنا بس ۔ بھلے ہی مجھے اپنے پاس جگہ نہ دو لیکن طلاق مت دینا۔ بس اک آخری خواہش پوری کر دو۔
میں نے اسکی خواہش کا احترام کیا اس کو طلاق نہیں دی۔
اس کے بعد مجھے تین سے چار سال لگے خود کو نارمل انسان بنانے میں عورت پر یقین کرنے میں کہ ہر عورت اک جیسی نہیں ہوتی۔
پھر آخر میں نے دوسری عورت سے شادی کر لی۔
اب الحمداللہ میرے 3 بچے ہیں میری یہ دوسری والی بیوی بہت ہی نیک نکلی۔پتا نہیں وہ دو تین سال جو میں نے حوصلے سے گزارے اس کی وجہ سےاللہ نے انعام کی صورت میں دیا کہ میں اب تھوڑی سی بھی ہمدردی کو بہت بڑی بات سمجھنے لگا تھا ۔
میں زرا سا بھی پریشان ہو جاؤں تو میری بیوی کی نیندیں اڑ جاتی ہیں اس کو مجھے سے عشق کی حد تک پیار ہے اور بے انتہا عشق۔ میں ذرا کام سے دیر سے آؤں یا کچھ میسج نہ کروں تو پریشان ہو جاتی سائے کی طرح آگے پیچھے آگے پیچھے۔ بعض دفعہ تو میں جنجھلا سا جاتا ہوں اور اس سے جگھڑ پڑتا ہوں کہ اللہ کی بندی میں دودھ پیتا بچہ نہیں ۔
اک وہ پہلی عورت اک یہ عورت ۔
میں تو وہی تھا وہی ہوں۔
میری پہلے والی بیوی سنا ہے کہ اب پاگل ہو چکی ہے ۔میرے نام لکھ لکھ کر چومتی رہتی ہے۔ اور گلیوں میں پھرتی رہتی ہے۔ اسے اپنی ہوش ہی نہیں رہی اب ایک دو دفعہ زہر بھی کھا لیا مگر بچ گئی۔
لوگ اب بھی کہتے ہیں میں ظالم ہو اس پر ظلم اتنے کیے کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔
اب میں کیا کہوں لوگوں سے ؟
حرام محبت کا مقدر ہمیشہ ذلت ہی ہوتی ہے۔ یارانے عاشقی معشوقی لگا کر توقع کرنا کہ یہ ٹھیک ہوگا۔ ذلت ہی ملتی ہے۔
میری بچیوں بہنوں بیٹیو یاد رکھو !
حرام محبت کا مقدر ذلت ہے بس ذلت
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم