مرے درد کی تھی وہ داستاں، جسے تم ہنسی میں اڑا گئے امجد اسلام امجد / Mere Dard Ki Thi Woh Dastan

جو اُتر کے زینہِ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے وہی جلتے بجھتے چراغ سے، مرے بام و دَر کو سجا گئے  یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ کہ جو لفظ میرے گماں میں تھے، وہ تری زبان پہ آ گئے  وہ جو گیت تم نے سنا نہیں، مِری عمر بھر کا ریاض تھا مرے درد کی تھی وہ داستاں، جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے  وہ چراغِ جاں کبھی جس کی لَو، نہ کسی ہَوا سے نِگوں ہوئی تری بے وفائی کے وسوسے، اُسے چُپکے چُپکے بُجھا گئے  وہ تھا چاند شامِ وصال کا، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا مری روح سے مِری آنکھ تک، کسی روشنی میں نہا گئے  یہ جو بندگانِ نیاز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکری جنھیں زندگی نے اماں نہ دی، تو ترے حضور میں آ گئے     تری بے رُخی کے دیار میں، میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا ترے آئینے کی تلاش میں، مِرے خواب چہرا گنوا گئے  ترے وسوسوں کے فشار میں، ترا شہرِ رنگ اُجڑ گیا مری خواہشوں کے غبار میں، مرے ماہ و سالِ وفا گئے  وہ عجیب پُھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اُٹھے مِرے دشتِ خواب میں دُور تک، کوئی باغ جیسے لگا گئے  مِری عُمر سے نہ سمٹ سکے، مِرے دل میں اتنے سوال تھے ترے پاس جتنے جواب تھے، تری اِک نگاہ میں آ گئے  امجد اسلام امجد


جو اُتر کے زینہِ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے چراغ سے، مرے بام و دَر کو سجا گئے

یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ
کہ جو لفظ میرے گماں میں تھے، وہ تری زبان پہ آ گئے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں، مِری عمر بھر کا ریاض تھا
مرے درد کی تھی وہ داستاں، جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے

وہ چراغِ جاں کبھی جس کی لَو، نہ کسی ہَوا سے نِگوں ہوئی
تری بے وفائی کے وسوسے، اُسے چُپکے چُپکے بُجھا گئے

وہ تھا چاند شامِ وصال کا، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
مری روح سے مِری آنکھ تک، کسی روشنی میں نہا گئے

یہ جو بندگانِ نیاز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکری
جنھیں زندگی نے اماں نہ دی، تو ترے حضور میں آ گئے

جو اُتر کے زینہِ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے وہی جلتے بجھتے چراغ سے، مرے بام و دَر کو سجا گئے  یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ کہ جو لفظ میرے گماں میں تھے، وہ تری زبان پہ آ گئے  وہ جو گیت تم نے سنا نہیں، مِری عمر بھر کا ریاض تھا مرے درد کی تھی وہ داستاں، جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے  وہ چراغِ جاں کبھی جس کی لَو، نہ کسی ہَوا سے نِگوں ہوئی تری بے وفائی کے وسوسے، اُسے چُپکے چُپکے بُجھا گئے  وہ تھا چاند شامِ وصال کا، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا مری روح سے مِری آنکھ تک، کسی روشنی میں نہا گئے  یہ جو بندگانِ نیاز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکری جنھیں زندگی نے اماں نہ دی، تو ترے حضور میں آ گئے     تری بے رُخی کے دیار میں، میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا ترے آئینے کی تلاش میں، مِرے خواب چہرا گنوا گئے  ترے وسوسوں کے فشار میں، ترا شہرِ رنگ اُجڑ گیا مری خواہشوں کے غبار میں، مرے ماہ و سالِ وفا گئے  وہ عجیب پُھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اُٹھے مِرے دشتِ خواب میں دُور تک، کوئی باغ جیسے لگا گئے  مِری عُمر سے نہ سمٹ سکے، مِرے دل میں اتنے سوال تھے ترے پاس جتنے جواب تھے، تری اِک نگاہ میں آ گئے  امجد اسلام امجد


تری بے رُخی کے دیار میں، میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا
ترے آئینے کی تلاش میں، مِرے خواب چہرا گنوا گئے

ترے وسوسوں کے فشار میں، ترا شہرِ رنگ اُجڑ گیا
مری خواہشوں کے غبار میں، مرے ماہ و سالِ وفا گئے

وہ عجیب پُھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اُٹھے
مِرے دشتِ خواب میں دُور تک، کوئی باغ جیسے لگا گئے

مِری عُمر سے نہ سمٹ سکے، مِرے دل میں اتنے سوال تھے
ترے پاس جتنے جواب تھے، تری اِک نگاہ میں آ گئے

امجد اسلام امجد
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم