Mufti e Azam e Hind Aur Khidmat e Khalq / حضور مفتی اعظم ہند اور خدمت خلق

حضور مفتی اعظم ہند اور خدمتِ خلق

تحریر: (حافظ) افتخاراحمدقادری برکاتی

مجدد ابنِ مجدد ابوالبرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمتہ والرضوان 22/ ذی الحجہ 1310/ ہجری مطابق 18/ جولائی 1892/ عیسوی کو محلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے- سرکارِ اعلیٰ الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی نے،، محمد،، نام پر عقیقہ کیا اور عرفی نام،، مصطفیٰ رضا،، رکھا گیا-
مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی اپنے پیر و مرشد حضرتِ سید شاہ آلِ رسول مارہروی رضی الله تعالیٰ عنہ کے آستانہ عالیہ پر قیام پزیر تھے- اس وقت قطب وقت نور العارفین حضرتِ سید شاہ ابو الحسین نوری علیہ الرحمہ حیات ظاہری میں تھے، بعد نمازِ عصر حضرتِ نوری میاں علیہ الرحمہ مسجد کے زینہ سے اتر رہے تھے اور حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ان کے پیچھے پیچھے آرہے تھے کہ اچانک حضرتِ نوری میاں علیہ الرحمہ نے فرمایا:
مولانا صاحب! بریلی میں آپ کے گھر میں ایک صاحب زادے کی ولادت ہوئی ہے، مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ اس کا نام آل رحمٰن رکھا جائے- اور پھر فرمایا جب میں بریلی آؤں گا تو اس بچے کو ضرور دیکھوں گا وہ بڑا ہی فیروز بخت اور مبارک بچہ ہے- ( حیات مفتی اعظم)
ولادت کے چھ ماہ بعد حضرتِ شاہ ابو الحسین احمد نوری علیہ الرحمہ بریلی شریف تشریف لائے اور اپنی دیرانہ خواہش کے مطابق بچے کو دیکھا اور اس نعمت کے حصول پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوقِ خدا کو اس کی ذات سے بڑا فیض پہنچے گا- یہ بچہ ولی ہے اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے، یہ فیض کا دریا بہائے گا- اس کے ساتھ ہی حضرتِ نوری میاں علیہ الرحمہ نے شہزادہ اعلیٰ حضرت کے منہ میں اپنی انگلیاں ڈال دیں، نیز سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت سے مشرف فرماکر اجازت و خلافت سے بھی نوازا-
جب حضور مفتی اعظم ہند کی عمر شریف چار سال چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو رسم بسم الله خوانی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کی موجودگی میں ادا کی گئی- اس کے بعد ہی سے امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کی نگرانی میں آپ کی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ دور شروع ہوگیا، گویا کہ سرکار حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے استاذ خاص اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ ہی تھے، اس کے علاوہ حضرتِ علامہ شاہ رحم الہی اور حضرتِ مولانا بشیر احمد علی گڑھ بھی آپ کے قابلِ ذکر اساتذہ میں سے ہیں- کچھ اسباق آپ نے اپنے برادر بزرگ حجتہ الاسلام حضرتِ مولانا شاہ حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے بھی پڑھے-
علومِ درسیہ سے فراغت کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے پہلا فتویٰ 1328/ہجری میں تحریر فرمایا- اس کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے- واقعہ یوں ہے کہ ایک روز حضورِ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ داراالفتاء پہنچے، دیکھا کہ حضرت مولانا ظفر الدین علیہ الرحمہ رضاعت کے ایک اہم استفاء کے جواب کے لیے،، فتویٰ رضویہ،، کی طرف مراجعت کر رہے ہیں- بے ساختہ زبان پر آگیا،، فتویٰ رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہیں؟،، ملک العلماء مولانا ظفر الدین علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ فتویٰ رضویہ دیکھے بغیر لکھ دیں تو جانوں- یہ سننا تھا کہ فقاہت نفس موجزن ہوگئ- فتویٰ رضویہ کیا کسی بھی کتاب کو دیکھے بغیر جواب تحریر فرمایا اور اصلاح کے لیے حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کیا- سرکار اعلیٰ حضرت نے اس میں اصلاح کی گنجائش نہیں دیکھی- اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے،، صح الجواب بعون الله العزیز الوہاب،، لکھ کر تصدیق فرمائی اور خوش ہوکر پانچ روپے انعام دیے اور،، ابو البرکات محی الدین جیلانی محمد عرف مصطفیٰ رضا،، کی مہر بنوا کر عطا فرمائی- 
الله رب العزت نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو بے پناہ قلمی قوت سے نوازا تھا- آپ نے اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود مختلف موضوعات پر تصنیفات وتالیفات کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا ہے، ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: 
فتویٰ مصطفویہ، دو جلدیں، وقعات السنان، ادخال السنان، الموت الاحمر، ملفوظات اعلیٰ حضرت، الطاری الدراری لھفوات عبد الباری، القول العجیب فی جواز التثویب، سامان بخشش، تنویر الحجہ بالتواء الحجہ، ہشتاد بید و بند، طرق الھدی والارشاد، وقایتہ اہل السنتہ، وغیرہ-

خدمتِ خلق:

الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
،،للذين احسنو فى هذه الدنيا حسنة،،
یعنی: جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہے- ارشادِ باری تعالیٰ کی تکمیل کے لیے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے تاحیات بھلائی ہی بھلائی کی، لوگوں کو حق کی دعوت دی، منہیات و ممنوعات شرعیہ سے روکا، معروف کا حکم دیا، اتباع رسول الله صَلَّی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کرنے کا جذبہ صادق پیدا کیا، بندے کو اپنے مولا کا اطاعت شعار بنایا، زندگیوں کو طہارت اخلاق و عادات کو پاکیزگی، افکار و عقائد کو عشقِ مصطفیٰ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رنگینی سے سجایا، الغرض تمام عمر عوام کی عافیت وآخرت سنوارنے کی سعی کی، حقیقت میں یہ بہت بڑی بھلائی ہے- اس سے بڑھ کر مخلوقِ خدا کی کوئی خدمت نہیں- حضورِ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی جنہوں نے جبینِ عقیدت کو تسلیم ورضا میں جھکا دیا- حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی جنہوں نے کبر و تکبر سے گردنوں کو اکڑا لیا، آپ نے بد عقیدوں کو صحیح عقیدگی کی نعمت عطا کی، بداعمالوں کو اعمالِ صالح کی دولت عطا کی، دنیا کو آخرت پر قربان کرنے کا سلیقہ عطا فرمایا- سر کشی کو اطاعت شعاری کی لذت عطا کی، بندے کو معبود کی بارگاہ تک پہنچا کر دینی و دنیاوی کاموں کی بشارت عطا کی، حضورِ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے مدت العمر مخلوقِ خدا کی فلاح و بہبود کے لیے سعی فرمائی، حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کے ہاتھوں بھلائیوں کا صدور ہوتا ہے- آپ کا فتویٰ نویسی بھی خدمتِ خلق ہے، تاکہ کم علمی اور بے عملی کی تاریک وادیوں میں بھٹکنے والے علم و عرفان کی روشنی حاصل کرکے صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جائیں-
حضورِ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کا سلسلہ رشد وہدایت بھی خدمتِ خلق ہے- تاکہ نفس کی سرکشی کے شکار مخلوقِ خدا تزکیہ نفس کی قوت سے مسلح ہوکر نفس سرکش کو مغلوب کرکے اپنی زندگی کو اسوہ نبوی صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھال کر دنیا و آخرت میں فلاح پائے- آپ کا امر باالمعروف بھی خدمتِ خلق ہے تاکہ حق وباطل میں مخلوقِ خدا امتیاز کرکے باطل کو رد کرے اور حق کو اختیار کرکے اپنے مولیٰ کی خوشنودی حاصل کرے - 
مخلوقِ خدا کی خدمت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے صرف الله رب العزت کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے کی، کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ آپ کے فتویٰ سے کون خوش ہوگا اور کون ناراض ہوگا، امر باالمعروف کا حکم کرنے سے کون دشمن بن جائے گا اور کون جبینِ عقیدت خم کرے گا، آپ نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی- جنہوں نے آپ کو اپنا دشمن تصور کیا آپ نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی، ان کو بھی فلاح کی طرف بلایا جنہوں نے آپ کے سامنے سر عقیدت خمیدہ کیا، ان کو بھی بہبودی کی طرف بلایا، آپ کو کسی کی تعریف و موافقت کی پرواہ نہ تھی، آپ کا حکم تھا کہ بھلائی کی طرف مخلوقِ خدا کو بلاؤ- اطاعت الله کے لیے مخلوقِ خدا کو خیر کی طرف بلایا حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے سب کی خدمت کی سب پر احسان کیا-
حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ارشادِ گرامی ہے کہ سب اعمال سے جلدی اجر پانے والی چیز احسان اور صلہ رحمی ہے- (ابنِ ماجہ)
بس حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے جلد سے جلد اجر پانے کے لیے صلہ رحمی و احسان کرنے کی روش اختیار کی، آپ نے دنیاوی انجام پر کبھی نگاہ نہیں کی، آپ کا نصب العین تو آخرت میں سرخروئی تھا، اسی نصب العین کو پانے کے لیے آپ مخلوقِ خدا کو خیر کی طرف بلاتے رہے- الله رب العزت نے ایسی مخلوق کو پیدا فرمایا ہے کہ جن کا کام مخلوقِ خدا کی حاجتوں کو پورا کرنا ہے- اور الله رب العزت نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ انہیں عذاب نہیں کرے گا، جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کے لیے نور کے ممبر رکھے جائیں گے وہ الله رب العزت سے گفتگو کر رہے ہوں گے حالانکہ لوگ ابھی حساب میں ہوں گے،، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی مدت العمری خدمتِ خلق کو مد نظر رکھتے ہوئے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کتنے خوش وقت تھے، اور ان کے مراتب کتنے بلند ہیں؟ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد برحق ہے، حضور مفتی اعظم ہند اس ارشاد کی روشنی میں قیامت میں بھی سرفراز و بلند ہوں گے،اور ہم عاشقانِ حضور مفتی اعظم ہند بھی آپ کے دامنِ عافیت میں پناہ حاصل کریں گے، ہمیں امید ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنی حیات ظاہری میں بھی ہماری بھلائی فرمائ اور کل قیامت میں بھی ہم غلاموں پر احسان فرمائیں گے، اور اپنے دامنِ کرم میں ہمیں پناہ دیں گے-
مخلوقِ خدا کی رہنمائی کرنے والوں کی فضیلت سے متعلق حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
حضرتِ سیدنا انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے چلتا ہے، تو الله رب العزت ہر قدم کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں ستر نیکیاں لکھ دیتا ہے اور ستر گناہ معاف کر دیتا ہے- پس اگر وہ حاجت اس کے ہاتھوں پوری ہوجائے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے آیا تھا اور اگر وہ اس درمیان مر جائے تو بلا حساب جنت میں جائے گا-
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی تو ساری زندگی ہی مسلمانوں کی حاجت روائی میں بسر ہوئی، صبح کو نمازِ فجر کے بعد اورادووظائف سے فارغ ہو کر دربار گہربار میں رونق افروز ہوتے لوگوں کا ہجوم جمع ہوچکا ہوتا- مسند پر بیٹھتے ہی لوگوں سے عافیت و مزاج پرسی فرماتے اور حاجت مند اپنی اپنی حاجتیں عرض کرتے، تصرفات روحانی کا دورہ دورہ شروع ہوجاتا، بیماروں کو شفا کے لیے، بے روزگاروں کو روزگار کے لیے، پریشان حال لوگوں کو مقدمے داری کی لعنت سے نجات دینے کے لیے، بری عادتیں چھوڑوانے کے لیے، والدین کی اطاعت شعاری اختیار کرنے کے لیے، صدہا بے شمار حاجتیں لوگ بیان کرتے، حضور مفتی اعظم ہند ان کو تعویذات مرحمت فرماتے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ عقیدت مند حضور مفتی اعظم ہند سے عرض کرتے کہ حضور گھر پر مریض انتہائی نازک صورتحال میں ہے- آپ فرماتے الله رب العزت اپنے حبیب صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ و طفیل میں شفا عطا فرمائے، اچھا ہراساں نہ ہو چلو ہم تمہارے گھر بھی چلتے ہیں، چنانچہ حضور مفتی اعظم ہند مریض کے گھر تشریف لے جاتے مریض کو دیکھتے اور تعویز لکھ کر دیتے کچھ دعائیں پڑھ کر مریض پر دم کر دیتے اور فرماتے کہ الله رب العزت شفا دینے والا ہے- ایسے واقعات روزانہ ہوتے تھے مگر کبھی جبینِ ناز پر شکن نہ آتی کیونکہ آپ لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے- اجر دینے والا تو مولائے کریم ہے اسی سے اجر کی امید رکھتے تھے، دنیا و اہل دنیا سے استعناء بے لوث قوم کی خدمت فرماتے-
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان 14/ محرم الحرام 1402/ ہجری مطابق 12/ نومبر 1981/ عیسوی کو رات ایک بجکر چالیس منٹ پر اپنے کروڑوں عقیدت مندوں کو داغ مفارقت دے کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے- اس المناک حادثہ کی خبر سن کر سوگواروں کے قافلے بریلی شریف کی جانب چل پڑے اور بریلی شریف میں مختلف ممالک کے سفراء اور نمائندگان حکومت جمع ہوگئے - بعد نمازِ جمعہ اسلامیہ انٹر کالج کے وسیع وعریض میدان میں لاکھوں عقیدت مندوں نے نمازِ جنازہ ادا کی_

کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، مغربی اتر پردیش
جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم