اعلی حضرت کی تواضع اور انکساری
اعلى حضرت امام اہلسنت پروانہ شمع رسالت امام عشق و محبت مجدد دین و ملت الشاه امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عالم اسلام کی جلیل القدر اور عظیم علمی و عبقری شخصیت کا نام ہے
آپ ایک بلند پایہ فقیہ بالغ نظر مفتی عظیم محدث و مفسر و محقق اور ٥٥ علوم عقلیہ و نقلیہ میں مہارت کاملہ رکھتے تھے
آپ نے مختلف موضوعات پر تقریباً ایک ہزار کتابیں تصنیف کرکے علمی ورثہ میں گراں قدر اضافہ کیا
جس مسئلہ پر بھی قلم اٹھایا ہے تحقیق کا حق ادا کر کے رکھ دیا ہے
علمی دنیا میں اتنا بلند و بالا مقام رکھنے والی ہستی
جس کے تبحر علمى کے اکابر علما و مشائخ معترف نظر آئے
جس نے اپنے فیضان نظر سے نہ جانے کتنوں کو علامہ و فہامہ بنا ديا
جس کے نوک قلم سے صادر ہونے والے فتاوى فتاوى رضویہ سے بڑے بڑے ارباب افتا نقل فتوی میں مدد لیتے ہوئے نظر آتے ہیں
اپنے تو اپنے غیروں نے بھی جس کی علمی و جاہت کو تسلیم کیا
جس کو امت مسلمہ کے اکابر علما نے چودہویں صدی کا مجدد تسلیم کیا
حرمین شریفین کے اکابر علما جس سے حدیث،تفسیر،فقہ و اصول فقہ میں سندیں حاصل کریں
(فاضل بریلوی اور ترک موالات،ص:۱۴)
امام شافعیہ حسین بن صالح جس کی پیشانی میں اللہ کا نور پائیں
(حوالہ سابق)
مکہ مکرمہ کے جلیل القدر عالم دین سید اسماعیل بن سید خلیل محافظ کتب حرم جس کے ایک فتوے کو دیکھ کر فرمائیں:
والله اقول والحق اقول انه لو رآها أبو حنيفة لاقرت عينه ويجعل مؤلفها من جملة الاصحاب
ترجمہ: اللہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر امام ابو حنیفہ ان فتاوی کو دیکھتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے مؤلف کو اپنے اصحاب کے زمرے میں شامل فرما لیتے
(الاجازات المتینہ،ص:۹)
حکیم عبد الحی ندوی بھی جس کے علمی تبحر کو دیکھ کر نزہة الخواطر میں یہ لکھ جائیں:
فقہ حنفی اور اس کی جزئیات میں انہیں وہ عبور حاصل تھا جو شاید ہی کسی دوسرے کو حاصل ہو
(مقالات رضویہ٬ص:۳۷)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیاء الدین جس کی بارگاہ سے ریاضی کے ایک لاینحل مسئلے کو حل ہوتا ہوا دیکھ کر کہ اٹھیں:
یہ ہستی صحیح معنوں میں نوبل پرائز کی مستحق ہے
(حوالہ سابق)
وہی علم و فن کے تاجدار بطور عاجزی اپنے بارے میں لکھتے ہیں :
فقیر تو ایک ناقص قاصر ادنی طالب علم ہے کہ خواب میں بھی اپنے لئے کوئی مرتبہ علم قائم نہ کیا اور بحمده تعالیٰ بظاہر اسباب یہی ایک وجہ ہے کہ رحمت الہی میری دستگیری فرماتی ہے میں اپنی بے بضاعتى جانتا ہوں اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کرم سے میری مدد فرماتے ہیں اور مجھ پر علم حق کا اضافہ فرماتے ہیں اور انہیں کے رب کریم کے لئے حمد ہے اور ان پر ابدی صلوة وسلام (فتاوی رضویہ ج:٢٩ ص:٥٩٤)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
کبهی میرے دل میں یہ خطرہ نہ گزرا کہ میں عالم ہوں
(فتاوى رضويہ ج:١. ص:٩٣)
ذرا سوچئے تو سہی اعلى حضرت محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چودہویں صدی کے مجدد اعظم اور اتنی عظیم المرتبت علمی شخصیت ہوتے ہوئے خود کو عالم نہیں سمجھتے ہیں تو ہماری تمہاری کیا حیثیت ہے؟
مندرجہ بالا اقتباس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اعلی حضرت علیہ الرحمة والرضوان کس قدر متواضع اور عاجزى پسند تھے وہیں اس میں خود کو مفتی و علامہ کہنے والوں اور سمجھنے والوں کے لیے مقام غور ہے
یاد رکھیے حدیث پاک میں آیا ہے:
من قال انا عالم فھو جاھل
یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ میں ہوں تو وہ جاہل ہے
(المعجم الاوسط جلد:۵،صفحہ:۱۳۹ بحوالہ تکبر:ص:۴۲)
واضح رہے کہ
عالم اگر اپنا عالم ہونا لوگوں پر ظاہر کرے تو اس میں حرج نہیں مگر یہ ضروری ہے کہ تفاخر کے طور پر یہ اظہار نہ ہو کہ تفاخر حرام ہے بلکہ محض تحدیث نعمت الہی کے لیے یہ ظاہر ہو اور یہ مقصد ہو کہ جب لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا تو استفادہ کریں گے کوئی دین کی بات پوچھے گا اور کوئی پڑھے گا
(بہار شریعت حصہ:۱۶)
یقیناً علم دین کی دولتِ گرانمایہ حاصل کرلینا بڑی سعادت مندی کی بات ہے لیکن اپنے علم پر تکبر کرنا اور دوسروں کو حقیر و کمتر سمجھنا باعث ہلاکت ہے
جو شخص اس آفت میں مبتلا ہو وہ ذرا یہ سوچے کہ اس وسیع و عریض دنیا ایسے ایسے علم و حکمت کے ایسے ایسے جبل شامخ بھی ہیں جن کے سامنے میری حیثیت طفل مکتب کی سی ہوگی
اور اپنے بزرگوں مثلا اعلی حضرت محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہم کی تعلیمات اور ان کے واقعات پڑھے کہ ہمارے اسلاف علم و فضل کے شمس و آفتاب ہوتے ہوئے بھی کس قدر تواضع اور عاجزی فرمایا کرتے تھے_
تحریر:
محمد ہاشم رضا مصباحی
سہسپور بلاری مرادآباد
متخصص فی الفقہ جامعہ امام احمد رضا رتنا گیری مہاراشٹر
۶ ستمبر ۲۰۲۰ بروز اتوار
(مع ترمیم و اضافہ)