اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمہ اللہ بچپن ہی سے تقویٰ و طہارت ، اتباعِ سنت، پاکیزہ اخلاق اورحسن سیرت کے اوصاف جلیلہ سے مزین ہوچکے تھے۔ آپ کی زندگی کے تمام گوشے اور تمام شعبے اتباع شریعت اور اطاعت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور تھے آپ کی حیات مبارکہ ایک ایک لمحہ اور زندگی کا ایک ایک گوشہ کتاب و سنت کی پیروی میں گزرا۔ آپ صرف چودہ برس کی عمر میں ہی عظیم الشان عالم اور عظیم المرتبت فاضل ہوگئے تھے اور پھر تقریباً چون(54) برس تک مسلسل دینی اور علمی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ کے سب کام حب الہٰی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت تھے۔آپ کے خادم خاص بیان کرتے ہیں کہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ چوبیس گھنٹوں میں صرف ڈیڑھ یا دوگھنٹے آرام (وہ بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کی وجہ سے)فرماتے اور باقی تمام وقت تصنیف و تالیف ، درس و تدریس کتب بینی، افتاء اور دیگرخدمات دینیہ میں صرف فرماتے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال آپ کے ہم عصر تھے اور آپ کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک موقع پر آپ کو خراج عقیدت اورخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ: ”ہندوستان کے دورِ آخر میں امام احمد رضا جیسا طباع اور ذہین فقیہہ پیدا نہیں ہوا، اُن کے فتاویٰ، اُن کی ذہانت و فطانت ، کمال فقاہت اور علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عادل ہیں۔ ان کی طبیعت میں شدت زیادہ تھی، اگر یہ چیز درمیان میں نہ ہوتی تو مولانا احمد رضا خان اپنے دور کے امام ابو حنیفہ ہوتے“۔ (بحوالہ: اسلامی انسا ئیکلوپیڈیا :صفحہ 1138) اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمہ اللہ کی تمام عمر درس و تدریس، وعظ و تقریر ، افتاء اور تالیف و تصنیف میں بسرہوئی، آپ کوآقائے نامدارحضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت تھی۔ ذکر و فکر کی ہر مجلس میں تصورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ذہن شاداب رہتا تھا۔دین اسلام کے ہر گوشے اور ہر شعبے کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سمو دیا۔ عشق و محبت کی پاکیزہ لطافتوں کو جن لوگوں نے بدعت کا نام دیا، آپ نے انہیں سنت و بدعت کا فرق سمجھایا۔ عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تنقیص وکمی کرنے والوں کا عاشقانہ غیرت سے احتساب کیااور ذکروفکراورعلم و عمل کے ہر پہلو میں عظمت رسول کو اجاگر کیا۔ تقدیس ِخداوندی اورناموسِ رسالت اورعظمت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتحریک آپ نے 1878ء سے1921ء تک جاری رکھی اورمحافلِ میلادکے انعقادکی جو مشعلیں آپ نے روشن رکھیں،وہ آج چمکتے ہوئے ستاروں میں تبدیل ہوکرچہار دانگِ عالم میں روشنیاں بکھیررہی ہیں،آپ نے مختصرسی عمرمیں جوکارہائے نمایاں سرانجام دےئے ہیں وہ اس بات کے شاہدعادل ہیں کہ آپ کاوجودآیاتِ خداوندی میں سے ایک آیت کادرجہ رکھتاہے۔ امام احمدرضا!کسی فردِواحدکانام نہیں بلکہ تقدیس ِالوھیت اورناموسِ رسالت اورعظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کانام ہے۔عامتہ المسلمین کے زندہ ضمیرکانام ہے۔عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کردھڑکنے والے مبارک قلب کانام ہے اور جب تک یہ سب چیزیں زندہ رہیں گی،امام احمدرضاخان بریلوی رحمہ اللہ کانام بھی زندہ وتابندہ رہے گااورآج اگرعصمتِ انبیاء اورعظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاچراغ روشن ہے توامام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمہ اللہ کادامن اس کا فانوس بنا ہوا ہے_
تحریر از: محمد اویس رضا عطاری
فیضان مدینہ، اوکاڑہ، پنجاب، پاکستان